خطرے کی گھنٹی

تحریر:انور ساجدی

جب عمران خان کی حکومت تھی تو یہی لگ رہا تھا کہ بیڈ گورننس عروج پر ہے کیونکہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا تاہم اُس حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے 20 ارب ڈالر کے قرضے ملے جس کی وجہ سے ملک ساڑھے تین سال تک چلانا ممکن ہوا، عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے پی ڈی ایم رہنمائوں نے بڑھکیں ماری تھیں کہ وہ معیشت کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کردیں گے لیکن 10 ماہ بعد نہ صرف یہ دعوے باطل ثابت ہوئے بلکہ شہباز حکومت کی بیڈ گورننس تاریخ کی بدترین سطح پر ہے، معیشت بے قابو ہے، تمام دوست ممالک نے ہاتھ کھینچ لیا ہے، آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت نے منی بجٹ پیش کیا ہے جو غلط اعداد وشمار پر مشتمل ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لاگو کئے گئے ہیں لیکن دراصل حکومت نے 600 ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا ہے، اگر آئی ایم ایف نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کردی تو حکومت کو مختلف ذرائع سے دو تین ارب ڈالر اور بھی مل جائیں گے لیکن اصل معاملہ اپنی جگہ برقرار رہے گا یعنی آمدنی چونی خرچہ روپیہ، جو 75 آنے کا خسارہ ہے وہ جاری رہے گا۔ ملک کے اندر سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین ابھی تک بحالی کے منتظر ہیں لیکن وزیراعظم ترکی کے زلزلہ متاثرین سے ہمدردی جتانے کیلئے ترکی روانہ ہوگئے ہیں، اگر شہباز شریف کو کچھ احساس ہوتا تو اس نازک موقع پر وہ کبھی ملک چھوڑ کر نہ جاتے، معلوم نہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر کے ساتھ وزیراعظم کو کیسے نیند آتی ہے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، مڈل کلاس کا وجود مٹ گیا ہے جبکہ آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس کے باوجود اشرافیہ، بڑے سیٹھوں، منافع خور ساہوکاروں اور کرپٹ سیاستدانوں کو مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ ایک ظاہری معیشت ہے اور ایک خفیہ یعنی کالی معیشت جو مافیاز اسمگلرز ذخیرہ اندوز اور ڈرگ اسمگلر چلاتے ہیں لیکن شواہد بتارہے ہیں کہ کالی معیشت کے حصے داروں میں کارخانہ دار اراکین پارلیمنٹ، بیورو کریٹ اور دیگر طبقات بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستانی معیشت کا حجم 3 کھرب ڈالر ہے جبکہ بلیک اکانومی کا سائز اس سے کہیں بڑا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جو منشیات فروش ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے، ہیروئن، کوکین، آئس کے علاوہ ایسی اشیاء کی تجارت بھی جاری ہے جنہیں حکومت نے ممنوعہ قرار دیا ہے۔ کراچی مغربی مارکیٹوں کو منشیات سپلائی کرنے کا بڑا روٹ بھی ہے، سمندر کے راستے بڑے بڑے مافیاز ہر سال لاکھوں ٹن مال بیچتے ہیں، ان ناجائز کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ حالیہ برسوں میں ایرانی تیل کا غیر قانونی کاروبار بھی فروغ پارہا ہے، اس میں ہزاروں لوگ ملوث ہیں جبکہ تیل ایرانی بارڈر سے پنجاب تک بھیجا جاتا ہے، اس کاروبار کی سرپرستی جو عناصر کرتے ہیں وہ بہت طاقتور اور زور آور لوگ ہیں اور قانون کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچتا، کراچی میں گٹکا اور دیگر ممنوعہ اشیاء کے سینکڑوں غیر قانونی کاروبار چل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سٹہ کھیلنے والے بڑے بڑے سیٹھ بھی عجیب و غریب کاروبار چلارہے ہیں مثال کے طور پر حال ہی میں انہوں نے ڈالروں کا بلیک مارکیٹ قائم کیا اور بڑے پیمانے پر ڈالر خرید کر اس کی قیمت بڑھادی، یہ لوگ نہ صرف ڈالر چھپاتے ہیں بلکہ یہ اپنے اربوں روپے کے اثاثے ڈالر، پائونڈز، یورو اور درہم کی صورت میں اپنے تہہ خانوں میں چھپاتے ہیں، یہی عناصر اپنے سرمایہ کو سونے میں بدل کر اس کی ذخیرہ اندوزی اور قدر بڑھانے کے مجرم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے ڈالر تہہ خانوں سے باہر لے آئیں تاکہ ڈالر کی قلت ختم ہوجائے، اتفاق سے ممکنہ طور پر اسحاق ڈار بھی اسی طبقے میں شامل ہے جو بلیک اکانومی چلاتا ہے، مثال کے طور پر اسحاق ڈار کے دبئی میں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں لیکن ڈار صاحب آج تک بتا نہیں سکے وہ ان عمارتوں کی تعمیر کیلئے اربوں روپے کہاں سے لائے ہیں، خراب معیشت کے پیش نظر سیٹھوں نے ماضی میں اپنی بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے پاکستان کے 5 شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور ملتان میں پلاٹ خرید کر پلازے اور مال بناکر ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا، بلیک منی کو جائیدادوں یا نئے شہر بنانے کا ہنر کوئی سیکھے تو ملک ریاض سے سیکھے، انہوں نے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی میں 10 ارب ڈالر کے منصوبے بنائے ہیں لیکن کاغذ پر ان کی مالیت ایک ارب ڈالر سے کہیں کم ہے، اسی طرح پنجاب کے مختلف شہروں میں لینڈ اور بلڈر مافیاز نے جدید بستیاں آباد کی ہیں اور ملکی سرمایہ چوری کرکے ان پر لگادیا ہے لیکن آج تک کسی حکومت نے ان سے کچھ نہیں پوچھا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے لوگ پارلیمنٹ اور حکومت میں شامل ہیں، ہر حکومت ان کی سرپرستی کررہی ہے، آج تک کسی حکومت نے ملک ریاض کو ہاتھ نہیں لگایا اور یہ تک نہیں پوچھا کہ ملیر سے لیکر کوٹری تک اس نے 100 کلو میٹر طویل پٹی کیسے خریدی اور اسے ڈویلپ کرنے کیلئے ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا ہے؟
غرض یہ کہ پاکستان کی معیشت ان سیٹھوں کی قید میں ہے اور حکومت محض سہولت کار کا کام کررہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق یوکے سمیت مختلف یورپی ممالک میں پاکستانیوں کی 20 سال قبل تک ایک ہزار جائیدادیں تھیں لیکن اب کئی ہزار جائیدادیں ہیں، ان لوگوں نے بڑے بڑے محلات بھی خرید رکھے ہیں، چنانچہ جب تک یہ ریاست ان مافیاز کے قبضے میں ہے نہ معیشت سنبھلے گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ سابق وزیراعظم عمران خان تو ان کے سرپرست اعلیٰ تھے، انہوں نے لاہور کے سینکڑوں دیہات ختم کرکے راوی کا نیا شہر بنانے کا منصوبہ بنایا جس پر کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع تھی، غریبوں سے زمینیں چھین کر مافیاز کے حوالے کی گئیں حالانکہ اس شہر کے آباد ہونے سے لاہور کا ایکو سسٹم تباہ ہوجائے گا، راوی کا ڈیلٹا مرجائے گا اور آلودگی میں اضافہ ہوگا جبکہ لاہور کافی عرصے سے دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے، لینڈ اور بلڈر مافیا گِدھوں کی مانند ریاست کو بھنبھوڑ رہی ہے، پاکستانی زمینوں پر قبضہ اور بستیاں بسانے کا کام سرکاری اداروں نے شروع کیا تھا، اگر ان مافیاز کو نہ روکا گیا تو کوئی درخت اور سبزہ نہیں بچے گا اور عوام ہر دانہ دانہ کو محتاج ہوجائیں گے۔ ان تمام حقائق کے باوجود پاکستان کی جو بڑی اور سکہ بند سیاسی جماعتیں ہیں وہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں کیونکہ وہ بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھورہی ہیں تاہم اگر ان تمام تباہ کن منصوبوں کو نہ روکا گیا تو پاکستان کو فیل اسٹیٹ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
غور کیجئے کہ اگر ایک ریاست کی کل معیشت 3 کھرب ڈالر ہو اور صرف مافیاز کی معیشت اس سے دوگنی ہو تو وہ ریاست کیسے چلے گی، نہ صرف یہ مافیا ٹیکسوں کی چوری، کوڑیوں کے مول زمینوں کے حصول اور ہر طرح کے غیر قانونی کام میں ملوث ہوکر دولت باہر باہر منتقل کررہا ہے، اگر مستقبل میں انہوں نے عوام پر رحم نہیں کھایا تو غربت اور افلاس کی وجہ سے خانہ جنگی اور انارکی شروع ہوجائے گی۔ اگرچہ پاکستان دنیا کی واحد ریاست نہیں جو اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہے، البتہ یہ واحد ایٹمی ریاست ہے جو ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے، تمام بڑی طاقتوں کو تشویش ہے کہ انارکی جیسے حالات میں پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کا کیا بنے گا۔ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ ایٹمی روک تھام کے عالمی ادارہ کا ایک وفد پاکستان آرہا ہے، یہ آکر کیا کچھ دیکھے گا اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں البتہ یہ خطرے کی گھنٹی ضرور ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں