لکی عمرانی سرکس

انور ساجدی
ملخ مکھڈ یاٹڈیاں پورا ملک کھاگئیں حکومت پوری معیشت کھاگئی لیکن اس تباہی کا اسکو احساس تک نہیں ایسا کم مایہ اور لاوارث ملک شائد دنیا میں نہ ہو کہ ایٹم بم تو22سال پہلے بنالیا لیکن ایک وینٹی لیٹر اور ٹڈیوں پراسپرے کرنے والا ایک جہاز تک نہ بن سکا پاکستان کے ساتھ ٹڈی دل نے انڈیا پر بھی حملہ کیا لیکن وہاں انہوں نے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی ڈرون کے ذریعے اسپرے کرکے ٹڈیوں کاخاتمہ کیا۔
اگردیکھاجائے تو ٹڈی دل کاحملہ کرونا سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ کرونا سے تو چند ہزار لوگ مرجائیں گے لیکن فصلوں کے خاتمہ سے جو فاقے آئیں گے اس سے لاکھوں لوگ مرجائیں گے ٹڈی کے حملہ سے ویسے تو پورا سندھ اور ساؤتھ پنجاب بھی متاثر ہے لیکن بلوچستان کے تمام اضلاع بری طرح تباہی سے دوچار ہیں جو بھی نقد آور فصل ہیں باغات ہیں وہ تباہ ہوگئے ہیں آئندہ سال ان درختوں پرپھل نہیں لگیں گے جوار باجرہ گوار پالیز اور کپاس لگانے کیلئے مفلوک الحال کسانوں کو ایک اور قیامت خیز سال کاانتظار کرنا پڑے گا یہ نہیں کہ ٹڈی دل کے حملے کا حکومت کو علم نہیں تھا ان کا پہلا غول سردیوں میں آیا تھا جسے6ماہ ہونے کو ہیں لیکن اتنے طویل عرصے میں حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔کیونکہ اسکے پاس نہ دوائی تھی نہ اسپرے کیلئے جہاز تھے حکمران اتنے عقلمند ہیں کہ اسپرے تو انڈیا سے منگوالی لیکن یہ سوچا نہیں کہ جب جہاز نہیں تو اسپرے کیسے ہوگا۔
جب میں تین روز قبل قلات سے گزررہا تھا تو سڑک ٹڈی کے بچوں سے اٹی ہوئی تھی یہ چند روز میں بڑے ہوکر فصلوں کوتباہ کردیں گے جبکہ اربوں ٹڈی پرمشتمل ایک اور غول اومان سے داخل ہونے والا ہے جون کے آخر میں ایک اورغول داخل ہوگا جو اب تک کا سب سے بڑا غول ہے اس بدترین حملہ کے ساتھ کرونا کے حملے بھی جاری ہیں وزیراعظم نے لاک ڈاؤن توڑنے کی جو پالیسی بنائی وہ مکمل ناکامی سے دوچار ہے یہ پالیسی یہ تھی کہ لوگوں کو مرنے دیا جائے معیشت کو بچایا جائے لیکن معیشت کہاں ہے؟یہ بھی کرونا کی طرح وینٹی لیٹر پر ہے جو بجٹ آرہا ہے وہ جھوٹے اعدادوشمار پرمشتمل ہے حکومت ناکامیاں اور تاریک پہلو چھپائے گی اور بلند وبانگ دعوے کرے گی کیونکہ اس حکومت کے پاس بڑے بڑے دعویٰ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے وزیراعظم نے دو روز قبل ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹھتی ہوئی معشیت کی زبوں حالی کی وجہ کرونا کو بتایا تھاتوقع کے عین مطابق وزیراعظم نے امداد یا بھیک مانگنے سے اجتناب نہیں کیا بلکہ جی20پرزوردیا کہ وہ پسماندہ ممالک کے قرضے معاف کردے۔
شائد یہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ جب سے یہ آئی ہے ریاست مختلف نوع کی قدرتی اور انسانی آفتوں کی زد میں ہے عام لوگ ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے اسے نحوست قرار دے رہے ہیں اس صورتحال کو بدلنے کیلئے حکومت روزانہ زبانی کلامی دعوؤں کے سوا اور کچھ نہیں کررہی ہے اس سال کے آخر تک ایسے حالات ہوجائیں گے کہ غذائی قلت کی وجہ سے قحط کی کیفیت پیداہوجائے گی کم خوراکی سے گرمیوں میں ٹائیفائڈ اور ملیریا حملہ کرے گا جبکہ سردیوں میں ڈینگی دھاوا بولے گا اگرتب تک کرونا بھی کنٹرول نہیں ہوا تو ڈبل تباہی ہوگی کرونا کا یہ حال ہے کہ سندھ کے تمام اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں مزید کوئی جگہ نہیں پنجاب میں صحت کی سہولتوں کافقدان ہے اس لئے وہاں پر مریض گھروں میں رہ کر مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں پشتونخوا کاتو کوئی پرسان حال نہیں ہے۔وہاں کی صوبائی حکومت ناکام اور نااہل ترین ہے سب سے زیادہ اموات بھی وہاں پر ہورہی ہیں۔وزیراعلیٰ محمود خان نے اپناکام چھوڑدیا ہے۔اداروں نے صوبائی وزیر اجمل وزیر کو غیرسرکاری طور پر وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔وفاقی حکومت کے وژن پر ماتم کیاجاسکتا ہے عیدکے موقع پر لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے بعد وفاق دوبارہ لاک ڈاؤن کو سخت کرنے پر غور کررہا ہے یہ ایک اور تباہ کن اقدام ہوگا کیونکہ چھوٹے طبقہ کاروزگارختم ہوجائے گا لوگ بھول گئے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی لاک ڈاؤن کونرم کرنے کی ہدایت کرچکی ہے حالانکہ لاک ڈاؤن لگانے یاہٹانے کاکام انتظامیہ کا ہے یہ کسی اور ادارے کا دائرہ اختیار نہیں ہے اب جبکہ کرونا اپنی رفتار تیز کرچکا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ22کروڑ عوام کواللہ تعالیٰ کے حوالے کردے ٹرانسپورٹ اور اسکول بھی کھول دے جو تباہی آئے گی دیکھاجائے گا جہاں تک بلوچستان حکومت کا تعلق ہے تو وہاں زمین پرحکومت نام کی کوئی چیز نہیں دکھائی دے رہی۔اس حکومت کاواحد کارنامہ ٹی وی پر چند ہدایات نامے ہیں جبکہ حکومتی ترجمان کی بریفنگ میں سب ٹھیک ہے کاگردان ملے گاکبھی کبھار کرفیو لگانے اور لاک ڈاؤن سخت کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے وزیراعلیٰ طویل سیلف آئسولیشن میں ہیں بیوروکریسی ڈر کے مارے روپوش ہے ڈاکٹروں کی اموات جاری ہیں ابھی تک انکے لئے حفاظتی سامان کا بندوبست نہیں کیاجاسکا اس حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کرونا سے بھی بری بلا ٹڈی دل سے نمٹے گی تو یہ محض خوش فہمی ہوگی حکومتی رویہ اور کروناکے حملہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں کیونکہ اس حکومت نے آج تک اپنے عوام پر کوئی توجہ نہیں دی بلوچستان کے لوگ زمین کی گہرائی سے پانی نکال کر پیاز اور کپاس اگارہے ہیں محکمہ زراعت نے کچی دیواروں پرسوائے اس ہدایت کے اور کچھ نہیں کیا کہ اچھے بیج اوراچھی کھاد استعمال کریں۔پہلے بجلی کامسئلہ تھا اب انہوں نے ازخود سولرپینل لگاکر حکومتی احتیاج کوختم کردیا ہے محکمہ زراعت اور جنگلات کایہ حال ہے کہ کوئٹہ کے تاریخی پائن کے درختوں کو کئی سال پہلے وائرس لگا تھا جنکی اکثریت ختم ہوچکی ہے لیکن آج تک کچھ نہیں کیا گیا غالباً ماحولیات کاایک محکمہ بھی ہے جس کاکام ماحولیات کو بگاڑنا ہے اگر اسکی کارکردگی دیکھنی ہے توسمنگلی روڈ پر اسکے صدر دفتر کے اطراف کے درختوں کو دیکھئے جو اس محکمہ کی نااہلی سے سوکھ چکے ہیں اس محکمہ نے اپنے دفتر کے اردگرد کے ماحول کوتباہ کرنے کیلئے کئی عمارتیں تعمیر کیں ہزاروں درخت کاٹے اور پھریہ عمارتیں ایک سیاسی جماعت کو کالج اور اسکول قائم کرنے کیلئے الاٹ کردیں کچھ عرصہ سے محکمہ ماحولیات کی بیرونی دیوار بھی گرادی گئی ہے غالباً اس اس اقدام کا مقصد اس قیمتی زمین کو کسی لینڈ مافیا کے حوالے کرنا ہے اس سے ماحول مزید تباہی سے دوچار ہوجائے گا کوئٹہ شہر پہلے سے کثرت آبادی آؤٹ آف کنٹرول کنکریٹ کی بے تحاشا تعمیرات لاکھوں گاڑیوں اور رکشوں کی وجہ سے آلودہ ترین شہر بن چکا ہے زیرزمین پانی کا لیول تیزی سے گررہا ہے کئی سال پہلے مغربی ماہرین نے قراردیا تھا کہ اگر کوئٹہ کے زیرزمین پانی کو مزید چھیڑا گیا تو اس کی زمین بیٹھ جائیگی اور چند سالوں میں کئی انچ نیچے دھنس جائے گی جس کی وجہ سے اکثر عمارتوں کو نقصان پہنچے گا لیکن اسکے باوجود تیزی کے ساتھ زیرزمین پانی کے ذخائر کو بے رحمی کے ساتھ استعمال کیاجارہاہے اگریہ پانی 2ہزار فٹ پرچلاگیا تو پھر کیا ہوگا بجائے کہ حکومت پانی کے مستفل ذرائع کا بندوبست کرے وہ دھڑادھڑ ٹیوب ویل لگارہی ہے اور لوگوں کو بھی لگانے دے رہی ہے میں دیکھا کہ بنچہ سے آگے ایک مقام پر گزوں کے فاصلہ پر بہ یک وقت سات ٹیوب ویل کھودے جارہے تھے اگرچہ بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کے اعدادوشمار موجود نہیں لیکن ژوب سے گوادر تک شمار کیاجائے تو ٹیوب ویلوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو ہر سال تربیلہ ڈیم جتنا پانی باہر نکال رہے ہیں اگریہ صورتحال جاری رہی تو پہلے کوئٹہ اور اسکے بعد پورا بلوچستان بے آب و گیاہ صحرابن جائے گا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پرنقل مکانی کرنا پڑے گی آج تک بلوچستان کی کسی حکومت نے پانی کے ذخائر بڑھانے کیلئے کوئی کام نہیں کیا جنرل پرویز مشرف نے جومیرانی ڈیم بنایا اس کا کوئی فائدہ نہیں اس نے وادی کیچ کاپورا ایکوسسٹم تبدیل کردیا ہے اس کی وجہ سے سینکڑوں کاریز اور نخلستان نیست ونابود ہوگئے جو دریا سے سیراب ہوتے تھے بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے بلوچستان کی حکومت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کررکھی ہیں اور بلوچستان کے بجٹ کے کھربوں روپے فضول کاموں پرضائع کردیئے گئے۔
بلوچستان کے لوگ غیبی امداد کے منتظر ہیں اگراللہ نے انکی مدد کی تو ٹھیک ورنہ حکومت سے بہتری کی کوئی امیدنہیں ہے