مثبت یو ٹرن
نسیم شاہد
یہ کہنا درست نہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک ہی دن عام انتخابات کرانے کا مطالبہ پہلی بار کیا ہے وہ تو جب سے حکومت ختم ہوئی یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انتخابات کرائے جائیں البتہ اب جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اور جس میں سپریم کورٹ کے حکم سے دو صوبوں میں انتخابات ہو رہے ہیں،عمران خان نے پی ڈی ایم کی حکومت کو عقل سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کے60فیصد حصے میں انتخابات کی بجائے پوریق ملک میں انتخابات کرائے تاکہ ملک کو نئی حکومتیں مل سکیں اور عدم استحکام کا خاتمہ ہو۔ہاں یہ ضرور ہے کہ حالیہ دِنوں میں عمران خان انتہائی لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی عمران خان ہیں جو بات بات پر کہتے تھے اِن چوروں لٹیروں سے بات نہیں کریں گے،انہیں نہیں چھوڑیں گے چاہے اْن کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ اس لئے شہباز شریف سے اْن کے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے ہاتھ نہیں ملاتے تھے کہ اس سے اْن کے اس نظریے کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہوتا تھا جو وہ ملک کو لوٹنے والوں کے بارے میں رکھتے تھے۔اب پانسہ پلٹا ہوا ہے وہ اپوزیشن لیڈر اور شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔ماضی قریب میں وزیراعظم شہباز شریف نے اْنہیں کئی بار مل بیٹھ کے مسائل حل کرنے کی دعوت بھی دی ہے مگر وہ اْسے پائے حقارت سے ٹھکراتے رہے ہیں وہ تو قومی اسمبلی سے اس لئے نکل گئے تھے کہ چوروں لٹیروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے تھے۔اب اْن کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ سب سے سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں حتیٰ کہ یہ بھی کہہ دیا کہ قاتلانہ حملے میں ملوث افراد کو بھی معاف کر سکتا ہوں۔اب یہ انہوں نے کھلی پیشکش کی ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کس بات پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔اِس وقت کئی معاملات ایسے ہیں جو اْلجھے ہوئے ہیں اور ان سب کا سرا عمران خا ن سے جا کر ملتا ہے انہوں نے کل اپنے کارکنوں سے انتخابی مہم کے آغاز پر جو طویل وڈیو لنک خطاب کیا اْس میں بھی انہوں نے سب پرانی باتیں دہرائیں، اْن میں نئی بات صرف یہ تھی کہ وہ سب سے سمجھوتے کے لئے تیار ہیں۔
سمجھوتہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے۔سمجھوتہ ہتھیار ڈالنے کو بھی کہتے ہیں اور اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی حل قبول کرنے کا نام بھی سمجھوتہ کرنا ہے۔سیاست میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور بے لچک رویے کم از کم سیاست میں نہیں چلتے۔یہ بات تو ہم ایک عرصے سے پیارے کپتان کے گوش گزار کر رہے ہیں کہ وہ سیاست کو تنگ گلی میں نہ لے جائیں۔کھلا رکھیں اور تازہ ہوا لگنے دیں۔وہ اگر اپنے دورِ حکومت میں سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہوتے تو شاید انہیں اقتدار سے بھی محروم نہ ہونا پڑتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اِس وقت بھی ایک مقبول لیڈر ہیں تاہم وہ دیکھ چکے ہیں کہ صرف مقبول لیڈر ہونا اس ملک میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔یہاں بہت سے سٹیک ہولڈرز ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہ ہو تو مقبول سے مقبول لیڈر بھی راستے میں تھک جاتا ہے؟ بالکل اْسی طرح جیسے عمران خان اِس وقت تھکے تھکے نظر آ رہے ہیں۔انہوں نے ان گیارہ ماہ کے عرصے میں کیا کچھ نہیں کیا۔بیسیوں جلسے کئے، ہزاروں کارکنوں کو متحرک کیا،اَن گنت بیانیے بنائے، استعفے دیئے، استعفے واپس لئے، دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑیں۔ سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ پر طرح طرح کے الزامات لگائے، موجودہ حکومت کو امپورٹڈ کہا، اپنے خلاف ہونے والی سازش کے ڈانڈے امریکہ سے ملائے، مقصد صرف یہ تھا کہ اس نظام کو چلنے نہیں دینا اور اس کی جگہ نئے انتخابات کرا کے بھاری اکثریت کے ساتھ واپس اقتدار میں آنا ہے مگر آج اْن کی باتوں سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ یہ جان گئے ہیں اِن سب باتوں سے وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اب انہیں دو صوبوں میں انتخابات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی، وہ انہیں بھی ایک کارِ زیاں سمجھنے لگے ہیں اور پورے ملک میں انتخابات کے لئے سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے بلا سوچے سمجھے جیل بھرو تحریک کی کال دی، اتنے بڑے سیاسی منظر نامے میں چند سو گرفتاریوں سے کیا حاصل ہو سکتا تھا مگر چونکہ اْن کا خیال تھا کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے اس لئے یہ حربہ بھی آزما گئے وہ تو اچھا ہوا سپریم کورٹ کے حکم سے صوبوں میں انتخابات کرانے کا حکم آ گیا اور کپتان کو یہ تحریک ختم کرنے کا موقع مل گیا وگرنہ جلد ہی گرفتاری دینے والا کوئی نہیں ملنا تھا۔
آج یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما اْن کا مذاق اڑا رہے ہیں، کہا جا ہا ہے کہ اب عمران خان سمجھوتے کے لئے منتیں کر رہے ہیں مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہیں، انہوں نے جب سے یہ کہا ہے کہ وہ آرمی چیف عاصم منیر سے ملنا چاہتے ہیں مگر وہ ملنے کو آمادہ نہیں،اْن کے مخالفین کو بات کرنے کا موقع مل گیا ہے۔خواجہ آصف نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف موجودہ آرمی چیف سے ملاقات کرنے کیلئے ترلے ڈال رہے ہیں۔ کپتان کے جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ آرمی چیف عاصم منیر انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ایسی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ حد درجہ اضطراب میں مبتلا ہیں۔سیاست میں جلد بازی کوئی معنی نہیں رکھتی، پچھلے گیارہ ماہ کے عرصے کو اپنی مرضی سے گزار کر آج عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اب انہیں سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔ جب کوئی سمجھوتے کی پیشکش کرتا ہے تو پھر سمجھوتہ اْس کی شرائط پر نہیں ہوتا۔پہلے دن سے یہ یہ ڈیڈ لاک موجود ہے کہ حکومت وقت سے پہلے انتخابات کرانا نہیں چاہتی اور عمران خان حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے، کیا یہ سمجھا جائے کہ عمران خان اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ انتخابات اکتوبر میں کرائے جائیں اور اکٹھے ہوں۔ایک حقیقت جسے عمران خان بھول گئے تھے اور بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس ملک میں بڑے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتے۔عمران خان نے بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کیخلاف محاذ کھول کر جو غلطی کی،اْس کا غالباً اب انہیں احساس ہو گیا ہے، انہوں نے وزیر آباد میں حملے کے بعد جو موقف اپنایا اْس نے فاصلے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، انہیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے تھی کہ اپنے دورِ حکومت میں وہ ایک عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کو خود بیان کرتے رہے، جلد بازی میں انہوں نے دو ایسے کام کئے جن پر ریورس گیئر لگانے میں اب انہیں مشکلات پیش آ رہی ہیں، اول امریکہ پر سازش کا الزام لگانا اور دوسرا قمر جاوید باجوہ کے خلاف محاذ کھولنا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ فوج کا یہ ڈسپلن نہیں کہ جانے والے آرمی چیف کے خلاف محاذ کھولنے والوں کا ساتھ دیا جائے،انہوں نے سابق آرمی چیف کو نشانے پر رکھا اْس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ موجودہ آرمی چیف سے اْن کے اچھے مراسم قائم ہو جائیں، ایک خوش فہم خواہش کے سوا کچھ نہیں۔بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ عمران خان اب اپنی غلطیوں کے ازالے کی طرف دیکھنے لگے ہیں یہ بھی اْن کا ایک یو ٹرن ہے تاہم اسے ایک مثبت یو ٹرن کہا جا سکتا ہے۔