دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کس نے کی ہے؟

عبدالرزاق برق
فروری کامہینہ افغان تاریخ میں اس لیے اہم ہے کہ اس مہینے کی 29 تاریخ 2020میں موجودہ افغان طالبان اورامریکی حکومت کے درمیان افغانستان سے 48ممالک کی فوجوں کے نکلنے کے بارے میں قطرکے دارالحکومت دوحہ میں ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا معاہدے سے پہلے امریکہ کے کہنے پر قطرکی حکومت نے طالبان کوقطرمیں ایک دفتردیا تھا طالبان سے مذاکرات کرنے کے روح رواں افغان الانسل عراق اورکابل میں امریکہ کے سابق سفیرزلمے خلیل زاد تھے انہوں نے طالبان کے ساتھ قطرمیں آٹھارہ مہینے مذاکرات جاری رکھنے کے بعددوحہ کی شرٹن ہوٹل میں دنیاکے 30ممالک اوربین الاقوامی اداروں کی موجودگی میں ایک خصوصی تقریب میں طالبان کی موجودہ حکومت کے نائب وزیراعظم ملاعبدالغنی برادر اورامریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زادنے معاہدے پردستخط کیے دوحہ امن معاہدہ تین زبانوں پشتو دری اورانگریزی میں تیارکیاگیا تھا جس میں قابل اعتبار چاراہم حصے شامل کیے گئے ہیں آج اس معاہدے کے بارے میں کابل اسلام آباد واشنگٹن بیجنگ تہران اورماسکومیں بحث ہورہی ہے اورسوالات ہورہے ہیں کہ دوحہ امن معاہدے سے کس کونقصان اورکس کوفائدہ ہواہے؟اس معاہدے سے قبل دنیا کے48 ممالک کی فوجیں ہمارے خطے اورافغانستان میںجس مقصد کے لیے آئے تھے کیاانہوں وہ مقصد حاصل کرلیا ہے؟ کیا کوئی بھی ان ممالک سے پوچھ سکتا ہے کہ ان کی موجودگی میں بیس سال جنگ کے دوران لاکھوں بچے یتیم ہوئے لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں اور جنگ کے دوران ملین ڈالرزکا نقصان اس ملک کوپہنچا کیا اس کا حساب افغانوں کو وہ دیں گے؟کیا ان کے جانے سے ہمارے خطے میں بے گناہ انسانوں کا خون بہنابندہو گیا ؟کیا ان کے اس خطے سے جانے کی وجہ سے دہشت گردی کے نام سے جنگ ختم ہوگئی ہے؟ آج دوحہ امن معاہدے ہونے کے باوجو کابل میں بے گناہوں کا خون مختلف ناموں سے بہہ رہا ہے کیونکہ آج امریکہ اورافغان طالبان دونوں ایک دوسرے پردوحہ معاہدے کے خلاف ورزی کرنے کا الزام لگاتے ہیں اوردرمیان میں بے گناہ افغانوں کا خون بہنے کے ساتھ وہ بھوک سے بھی مررہے ہیں سابق امریکی وزیرخارجہ اورسی آئی اے کے سابق سربراہ مائیک پومپیو نے طالبان پرالزام لگاہے کہ طالبان کوجواقدامات کرنے چاہئیں وہ اس معاہدے کی بنیادپراپنے وعدوں کوپوراکریں تاکہ افغانستان میں دیرپاامن قائم ہوسکے لیکن اس کے جواب میں دوحہ معاہدے پردستخط کرنے والے ملاعبدالغنی برادر نے گزشتہ روزکابل کے صدارتی ہاوس میں دوحہ معاہدے کے سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی حکومت امریکہ کے ساتھ معاہدے پرعمل درآمدکے لیے پرعزم ہے سوال یہ ہے کہ دوحہ معاہدے سے کس کونقصان ہواکس کوفائدہ ہواہے؟ سب سے پہلے امریکی فوجوں کے نکلنے سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس حکومت کودنیاکے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے امریکہ دوحہ میں قطرمیں طالبان کودفتردے سکتا ان کے ساتھ مذاکرات اورمعاہدہ کرسکتا لیکن کابل میں ان کی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کی حکومت نے افغان خواتین کے کام اورتعلیم پرپابندی عائد کی ہے آج دوحہ امن معاہدے پر عمل درآمد کے بارے میں کابل اورواشنگٹن مطمئن نہیں، کابل کا کہنا ہے کہ امارت اسلامی نے اس معاہدے کی کئی شقوں پرمکمل عمل دارآمدکیاگیا ہے لیکن واشنگٹن اس حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کررہا دوحہ معاہدے کے چاراہم حصے ہیں غیرملکی افواج کا مکمل انخلا دونوں طرف کے قیدیوں کی مکمل رہائی بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کی صورت میں امارت اسلامی کے ارکان پرعائد پابندیوں کاخاتمہ اورامریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا اس معاہدے کے اہم حصے سمجھے جاتے ہیں اس معاہدے کے دوسرے حصے میں کہاگیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی معاہدے کی تیسرے حصے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اس معاہدے کوتسلیم کرنے اورافغانستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پربات چیت کی گئی ہے کیا امریکہ کی فوجیں مقررہ وقت پرافغانستان نکلی تھیں ؟ کیا امریکہ نے افغانستان کے لوگوں کی پیسے نہیں روکے تھے ؟اوراب دوبارہ وہی روکے ہوئے پیسے واپس صرف طالبان کودیتے ہیں امریکہ نے بلیک لسٹ سے طالبان رہنماؤں کے نام حذف نہیں کیے کیا کابل پرقابض طالبان نے ابھی تک دوحہ معاہدے کے بعض حصوں پرعمل درآمد کیا ہے مثال کے طورپر افغانستان کی سرزمین کودوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے کا کوئی طریقہ کارموجودنہیں اسی طرح افغانوں کے درمیان مذاکرات ابھی تک شروع نہیں ہوئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امن اورتعاون پرمبنی ریاست قائم نہیں ہوئی ہے سب سے زیادہ دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی امریکہ اورطالبان دونوں کی جانب سے ہوئی ہے القاعدہ کے سربراہ ایمن الاظہواری کیسے کابل کے دل میں پائے گئے اورامریکہ نے ڈرون کے ذریعے مارنے کا دعوی کیا ہے ٹیھک ہے امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ کو نہیں مارا ہے توپھر افغانستان کی فضاؤں میں ہردن رات یہ ڈرون کس کے ہیں ؟کیا امریکہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس نے طالبان رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے اس لیے نکالے کہ وہ طالبان کی حکومت میں ان کی مددکریں گے آج افغانستان میں اگرخواتین کی تعلیم اورکام پرپابندی ہے اس کی ذمہ دارنیٹو اور امریکہ ہے کیونکہ امریکہ دوحہ امن معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان سے نکل تو گیا ہے کیا امریکہ اورزلمے خلیل زاد طالبان کواس بات کاپابند نہیں کراسکتے تھے کہ وہ افغان خواتین کی تعلیم اورجاب پرپابندی نہیں لگائیں گے امریکہ افغانستان کے منجمدپیسے طالبان کو بھیج سکتا ہے لیکن اس سے یہ نہیں کہتا کہ یہ پیسے اس عام غریب افغان پرلگانا چاہیے جواس وقت بھوک سے مررہے ہیں امریکہ نے گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان کی تین حکومتیں بنائیں تھیں لیکن آج افغانستان ہرحوالے سے بحران میں مبتلاہے اس سے نکلنے کے لیے امریکہ کچھ نہیں کررہے امریکہ کی سی آئی اے آج قطرمیں افغان طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کررہے ہیں اورانہیں پیسے بھی دے رہے ہیں لیکن کابل میں اس کے نگران حکومت کو تسلیم نہیں کرتے یہ بات پوری دنیا کو پتہ ہیے کہ امریکہ افغانستان میں سب کچھ کرسکتا ہے مگرآج وہ افغانستان میں کچھ کرنے سے عاجز ہیں آج امریکہ کو یہ غم درپیش ہے کہ افغان ملت کس طرح جنت میں داخل ہوجائے آج امریکہ کے لیے طالبان کا دین پورے افغان ملت پرنافذ کرنا ہے افغان جانے رمضان جانے بس امریکہ یہ بھی کرسکتا کہ جس طرح حامدکرزئی اوراشرف غنی کی حکومتیں قائم کی گئیں تھیں آج طالبان کی حکومت بھی بناسکتے ہیں مگروہ ایسے نہیں کرتے کیونکہ وہ دنیاکا واحد سپرپاورملک ہے اس کی مرضی جواس کا دل چاہے وہ کرتا ہے کوئی ہے کہ اس کو کچھ کہے ان تمام باتوں کے باوجود آج افغانستان میں ہرحوالے سے جنگ جاری ہے عام افغان کا خون مختلف نام سے بہتا ہے آج افغانستان کی تمام سرحدیں بندہیں ان پر ویزہ بند ہے انسانی حقوق کی پائمالی ہورہی ہے کوئی بھی عملاََ کچھ نہیں کررہا افغان بے چارے بھی کچھ نہیں کرسکتے جس بھی فرد کو دنیا کا سپرپاور نے افغانستان کا سربراہ بنایا اس کے بارے میں افغان ملت سے کسی نے نہیں پوچھا ملاعمرسے لیکراشرف غنی تک سب کو افغانوں پرمسلط کیا گیا تھی عام افغان سے ان کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں