لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ

عاصمہ شیرازی
کیا جو کچھ ہو رہا ہے ایسا ہی ہونا تھا، اس ہونے سے پہلے بھی تو کچھ ہوا ہو گا؟ اور اس ہونے کے بعد نہ جانے اور کیا کچھ ہونا ہو گا؟ ہم ریل کے پلیٹ فارم پر کھڑا وہ ہجوم ہیں جن کو منزل کا پتا نہیں اور سفر ہے کہ کٹتا نہیں۔
خود کلامی کی عادت سی ہو گئی ہے، خود سے سوال اور خود سے جواب، خود ہی سے لڑائی اور خود ہی سے اْکتاہٹ بھی۔ کبھی یہ خیال کہ خیال کیوں اور کبھی یہ سوال کہ سوال کیوں؟ بقول مصطفیٰ زیدی
لْٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو جیسے کوئی نوحہ کہیے
نہ ہم بدلے ہیں اور نہ ہی حالات بدلے ہیں۔ وہی عدالتیں، وہی فوجی و سول بیوروکریسی، وہی اشرافیہ اور وہی مقتدرہ۔ تبدیلی آئی ہے تو بس یہ کہ مقتدرہ نے نئے رنگ کا چولا سلوا لیا ہے اور ہائبرڈ کا سیاسی ماسک مستقل چہرے پر سجا لیا ہے۔
چیزیں اتنی پھیل گئی ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہا سمیٹنا شروع بھی کریں تو کہاں سے، آوازیں اتنی کہ کوئی آواز سمجھ میں نہیں آ رہی اور ٹوٹ پھوٹ کا یہ عالم کے تعمیر کا نشان ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔
روز روز کا یہ نوحہ کسی انجام کو ہی نہیں پہنچ رہا کہ کس طرح ایک ایک کر کے اداروں کے نیچے لگائے چھوٹے چھوٹے ڈائنا مائٹ پھٹ رہے ہیں لیکن اس دور میں سب بْرا بھی نہیں ہو رہا، کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔
کل تک ہم ملک کے ساتھ کیے جانے والے نئے تجربے کی سچائی تلاشنے کی بات کر رہے تھے آج بغیر کسی کمیشن کے سچائی اْبل اْبل کے سامنے آ رہی ہے۔
کہیں جنرل ریٹائرڈ باجوہ کھْل کھْل کر نظام سے کیے گئے تجربے بیان کر رہے ہیں تو کہیں اْسی نظام کے خالقوں میں سے جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار ’نامکمل صادق اور امین‘ کی کتھا سْنا رہے ہیں۔
کہیں جنرل ریٹائرڈ باجوہ کھْل کھْل کر نظام سے کیے گئے تجربے بیان کر رہے ہیں تو کہیں اْسی نظام کے خالقوں میں سے جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار ’نامکمل صادق اور امین‘ کی کتھا سْنا رہے ہیں
مقتدرہ کے ہاتھوں عدالتوں کی کہانیاں اور عدل کے ہاتھوں میں اقتدار کی خفیہ ڈوریاں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ کھیل ہی کھیل میں جو تخریب کاری نظام کے ساتھ ہوئی اور جو خمیازہ مملکت نے بھْگتا ہے اْس کا تخمینہ لگانے والی کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی۔
جسٹس ثاقب نثار کہہ رہے ہیں کہ اْنھوں نے عمران خان کے لیے مکمل صادق اور امین نہیں کہا اور ہو سکتا ہے کہ چند فیصلے اْن سے غلط ہوئے ہوں مگر وہ اپنے حصے کا سچ کتاب کی صورت مرنے کے بعد چھوڑ جائیں گے۔ جو سچ زندگی کا سامنا نہ کر سکے اْس کی جیتے جی موت کا منظر کیسا ہو گا؟
بہرحال ثاقب نثار ہوں یا جنرل باجوہ کم از کم اپنے حصے کا اعتراف کر کے کسی حد تک اْس پچھتاوے کو کم کر سکتے ہیں جو اْن کے بعد اْن کی نسلوں تک رہے گا کہ کس طرح ملک کی بنیادوں میں نفرت اور تقسیم کا بارود نصب کیا گیا تھا۔
اب جگہ جگہ لگی سْرنگوں سے پھونک پھونک کر قدم کیسے بڑھایا جائے؟ معاشی مسائل اور اْس درمیان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات جبکہ سندھ اپنے مردم شْمار نہ ہونے پر نالاں۔۔۔ بھلا بتایے جس مْلک میں درست مردم شماری نہ ہو سکے وہاں مردم شناسی کیونکر ہو سکتی ہے اور حق رائے دہی کا اعتبار کیسے آ سکتا ہے؟
یہ سوال بلاول بھٹو اور سندھ کی دیگر جماعتوں نے اْٹھایا ہے کہ اب کی بار اْنھیں مناسب گِنا جائے اور صحیح تولا جائے۔ اب دو صوبوں میں پْرانی اور دو صوبوں میں نئی مردم شماری کا جھگڑا پھر عدالت کے روبرو جاسکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت از خود نوٹس کے وقت اس مسئلے پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو سْنتی مگر یہ ہو نہ سکا۔
دو صوبوں میں اپریل کے مہینے میں انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ گھوم پھر کر معاملات وہیں آ جاتے ہیں جہاں سے شروع ہوتے ہیں اور دوسری جانب پائی پائی کو ترسنے والی ریاست آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے وہاں آ پہنچی ہے کہ رضا ربانی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا آئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتے کی شرائط میں نیوکلیر اثاثے دباؤ کا شکار ہیں؟
اور کیا کسی سامراجی قوت کی خطے میں موجودگی میں کردار ادا کرنے میں سہولت کے لیے دباؤ بڑھایا جار ہا ہے؟ یہ بارودی سْرنگ کب، کہاں اور کس نے لگائی؟ اس کھوج کے بغیر بات آگے نا بڑھ پائے گی۔
حالات جیسے بھی ہوں، معاملات اْس نہج بڑھ رہے ہیں جہاں ریاست کو خود کلامی سے نکلنا ہوگا، سامنے آتی سچائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہوں گی اور چھپائے جانے والے سب سچ بتانا ہوں گے پھر ہی منزل کی طرف آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں