پاکستان خطرناک دوراہے پر۔۔۔
تحریر: انور ساجدی
برما یا میانمار دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 60 سال سے مسلسل مارشل لاءنافذ ہے یعنی فوج کی حکومت ہے، جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی تو برما بھی انگریزی حکومت کے زیر نگین تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے برما پر خطرناک حملہ کیا تھا جسے انگریزوں نے بہ مشکل ناکام بنایا تھا۔ برما کے دارالحکومت کا پہلا نام رنگون تھا جو اب ینگون ہوگیا ہے۔ رنگون ہی وہ شہر ہے جہاں ہندوستان کے آخر مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کو 1857ءکی جنگ کے بعد انگریزوں نے گرفتار کرکے باقی عمر ایک موٹر گیراج میں رکھا تھا۔ بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا وہ بادشاہ ہے جس نے اپنے وطن پر قربانی دینے کے بجائے غلامی کی زندگی قبول کی حالانکہ لال قلعہ کے باہر ہزاروں کا لشکر موجود تھا اور وہ انگریزوں کے ساتھ آخری بازی لڑنے کیلئے تیار تھے۔
1950ءاور 1960ءکی دہائی میں دنیا کے کئی پسماندہ ممالک میں مارشل لاءکے نفاذ کا چلن شروع ہوا تھا جس کا آغاز لاطینی امریکہ کے بنانا ممالک میں ہوا تھا جبکہ مشرق وسطیٰ میں اس کا آغاز مصر سے ہوا تھا جہاں جنرل نجیب نے بادشاہ کا تختہ الٹ کر اپنے اقدام کو انقلاب کا نام دیا تھا تاہم جلد کرنل جمال عبدالناصرنے نجیب کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ناصر کے بعد شام، یمن اور لیبیا میں بھی فوج نے مارشل لاءنافذ کردیا جبکہ پاکستان میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاءنافذ کیا جو 10 برس تک جاری رہا۔ پاکستان میں جنرل یحییٰ خان نے 1969ئ، جنرل ضیاءالحق نے 1977ءاور پرویز مشرف نے 1999ءمیں مارشل لاءنافذ کئے جبکہ برما میں جنرل نیون نے 1960ءکی دہائی میں اقتدار سنبھالا۔ لاطینی امریکہ کے بنانا ری پبلک کافی سدھر چکے ہیں اور چلی کے آخری آمر جنرل پنوشے کے عبرتناک انجام کے بعد وہاں جمہوریت کا تسلسل چل رہا ہے۔ ترکی جہاں کے آئین میں فوج کا مستقل کردار تھا سدھر چکا ہے۔ طیب اردگان نے آئین بدل کر فوج کا کردار ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ہے۔ گویا اس وقت روئے زمین پر برما واحد ملک ہے جہاں تسلسل کے ساتھ فوجی حکمرانی ہے، ایک وقفے کیلئے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی برسر اقتدار آئی لیکن فوج نے انہیں نظر بند کردیا اور ان کی حکومت کو برطرف کردیا۔ برما انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کا بدترین ملک ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں روہنگیا مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہوا جس کی وجہ سے ایک ملین کے قریب روہنگیا بنگلہ دیش میں آکر پناہ گزین ہوگئے۔ روہنگیا دراصل بنگال کے باشندے تھے جنہیں انگریزوں نے کھیتوں میں کام کرنے کیلئے برما بھیجا تھا جس طرح انہوں نے تاملوں کو کھیت مزدور کے طور پر سری لنکا بھیجا تھا۔
برما کے فوجی جتنا نے آنگ سان سوچی کی جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ ان جماعتوں نے فوجی حکومت کے ضابطوں کے مطابق اپنی رجسٹریشن نہیں کروائی تھی۔ پاکستان کے جنرل ضیاءالحق نے 1979ءمیں عام انتخابات کا اعلان کیا اور سیاسی جماعتوں کیلئے لازمی قرار دیا تھا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کروائیں۔ اس قانون کے تحت پیپلز پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاہم ضیاءالحق نے عام انتخابات نہیں کروائے اور اپنے تمام دعوﺅں سے مکرگئے۔
پاکستان جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں جمہوریت اور جمہوری روایات کچھ اچھی نہیں رہی ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے راولپنڈی سازش کیس کی آڑ لیکر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔ ایوب خان نے ایبڈو کے قانون کے تحت سکہ بند سیاسی رہنماﺅں پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ البتہ 1969ءمیں جنرل یحییٰ خان نے تمام جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی، ان کے فریم ورک آرڈر کے تحت عوامی لیگ سمیت تمام جماعتوں نے 1970ءکے پہلے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مارچ 1971ءکے فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو خلاف قانون قرار دے کر شیخ مجیب کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور تو اور پہلی منتخب حکومت کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ءمیں ملک کی دوسری بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگاکر اس کے رہنماﺅں کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل میں غداری کا مقدمہ چلایا تھا۔
فوجی حکمران ضیاءالحق نے مارشل لاءکے نفاذ کے فوراً بعد اس مقدمے کو ختم کردیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ایک آئین ہے اور کہنے کی حد تک یہ جمہوریہ ہے لیکن عملی طور پر اسے جمہوری ریاست کے طور پر پنپنے کا کبھی موقع نہ ملا۔ یہاں پر 1972ئ، 1985ئ، 1988ئ، 1990ئ، 1993ئ، 1997ءاور 2018ءسے اب تک ریکارڈ کی حد تک جمہوریت قائم ہے لیکن یہاں کی نام نہاد منتخب حکومتوں کو کبھی آزادی سے کام کرنے کا ماحول میسر نہیں آیا، جو سیاستدان ہیں وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے اور انہوں نے ہمیشہ پردہ کے پیچھے موجود فوجی رہنماﺅں کو مداخلت کی دعوت دی، مداخلت کی اس دعوت کا آغاز 1958ءمیں اس وقت کے بڑے لیڈر خان قیوم خان نے کیا تھا جبکہ دوسری مرتبہ 1977ءمیں مولانا مفتی محمود کی قیادت میں پی این اے نے فوج کو اقتدار میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اس سلسلے میں ایئر مارشل اصغر خان نے مداخلت کیلئے باقاعدہ ایک خط لکھا تھا۔ 1990ءمیں میاں نواز شریف نے بے نظیر کے خلاف فوج کے ایماءپر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔ 2008ءمیں برسراقتدار آنے کے بعد آصف علی زرداری نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے تئیں مداخلت کا باب بند کردیا لیکن جنرل کیانی نہیں مانے اور میموگیٹ اسکینڈل کے ذریعے دوبارہ نواز شریف کو استعمال کیا گیا۔ جنرل کیانی نے ایک مشکوک خط کو بنیاد بناکر صدر مملکت کو غدار قرار دینے کی کوشش کی لیکن جب امریکہ نے کاکول پر حملہ کرکے اسامہ بن لادن کو قتل کردیا تو کیانی صاحب کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ متنازع چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ذریعے انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں معزول کردیا۔ 2013ءمیں مقتدرہ نے ایک بار پھر نواز شریف کا انتخاب کیا لیکن جلد اختلافات پیدا ہوگئے۔ اقتدار کی تیسری مدت میں نواز شریف بدل گئے تھے اور انہوں نے درپردہ احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے عمران خان کو میدان میں اتارا گیا لیکن بوجوہ عمران خان کا دھرنا ناکام رہا اور حکومت بچ گئی لیکن 2016 ءمیں پانامہ کیس کا بہانہ بناکر نواز شریف کو نشان عبرت بنادیا گیا۔ سرباجوہ نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے زور زبردستی 2018ءکے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروایا تھا لیکن 2021ءمیں اختلافات شروع ہوگئے، اس کے باوجود عمران خان نے توسیع کی منظوری دے دی لیکن 2022ءمیں یہ اختلافات آخری حد تک پہنچ گئے اور باجوہ صاحب کے آشیرباد سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی۔ یہ پی ڈی ایم کی جانب سے ایک جوا بلکہ خودکشی تھی۔ اپنی معزولی کے بعد عمران خان نے مقتدرہ اور پی ڈی ایم کی حکومت کو ناکوں چنے چبوایا۔ انہوں نے ایک وسیع محاذ کھولا اور سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے مخالفین کے ساتھ باجوہ اور پورے ادارے پر حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے کچھ ایسے قدم اٹھائے جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی، ان کی وجہ سے تمام ادارے تقسیم ہوگئے اور پہلی مرتبہ اعلیٰ عدلیہ اور ایک سیاسی جماعت ایک پیج پر آگئے۔ اس صورتحال نے بہت ہی گھمبیر حالات پیدا کئے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے جج بھی تقسیم ہوگئے ہیں۔ حکومت نے عجلت میں چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کا ایک بل پیش کیا ہے لیکن یہ قانون فوری طور پر بن نہیں سکتا کیونکہ صدر اس پر دستخط نہیں کریں گے۔ اگر بل پارلیمنٹ سے منظور بھی ہوگیا تو چیف جسٹس اسے اڑا کر رکھ دیں گے۔ اگر سپریم کورٹ کے ہم خیال بینچ نے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے فیصلے کو برقرار رکھا تو حکومت کو چار وناچار ایمرجنسی کے نفاذ کا سہارا لینا پڑے گا، جو بھی فیصلے آئیں چاہے سپریم کورٹ کرے یا حکومت، ان کی حیثیت متنازع رہے گی اور کوئی فریق انہیں تسلیم نہیں کرے گا جس کی وجہ سے ریاست کو بدترین حالات سے گزرنا پڑے گا جبکہ معاشی اعتبار سے یہ عملاً دیوالیہ ہے، اس لڑائی کی وجہ سے انار کی اور انتشار کی کیفیت پیدا ہونا کوئی انہونی نہیں ہوگی۔