نجمہ بلوچ کی خودکشی یا شہادت؟ اور بے حس معاشرہ

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
خودکشی یا قتل؟ بحرحال نیلی آنکھوں والی نڈر اور بہادر بلوچ لڑکی نے اپنے آنے والے نسل کا دفاع کرتے ہوئے سرخم تسلیم کرنے اور اپنی ضمیر کا سودہ لگانے کی جگہ خود کو قربان کرکے شہادت کو ترجیح دی۔
آواران گیشکور کی زمین پر جنم لینے والی یہ رونق مختصر عرصے میں طلوع آفتاب ہونے کے بعد اس بے حس سماج کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہتے ہوئے غروب ہوئی۔
جب سماج مردہ ضمیروں سے بھری پڑی ہو تو روزانہ انسانیت سوز اور لرزہ خیز واقعات اخبارات کی شہ سرخیوں پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں کے بدبخت باسیوں پر ہونے والے ظلم و جبر کی کہانیوں کو بھی اخبارات کے صفحوں میں جگہ نہیں۔ دیگر اقوام اور علاقوں میں اسکول، روڈ، ہسپتال اور دیگر ترقیاتی کاموں اور کامیابیوں کی خبریں اخبارات کی ہیڈ لائنز پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھے ہوئے پڑھنے کو ملتے ہیں، جنہیں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہماری بدبخت اور بد قسمت عوام اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں جنہیں انسان اور ایک مہذب شہری کا درجہ بھی حاصل نہیں، طاقتور لوگ جو چاہیں اپنی مرضی سے جو کریں لیکن اس بدبخت عوام کا کوئی پوچھنے والا کوئی نہیں۔
بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع آواران جہاں آج کل مختلف پارٹیاں سرگرم ہیں، مختلف نعروں اور دعوﺅں کو بلند کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ الیکشن قریب آتے ہی موسمی پرندوں کی طرح انوکھے روپ دھار کر انوکھے چہرے ائرکنڈیشن کی سرد اور پرلذت ہوا سے بازیاب ہوکر عوام کے درمیان دکھنے کو ملتے ہیں جو خود کو قوم پرست لیڈر کہہ کر بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں جب الیکشن کا اختتام ہوتا ہے تو یہ فوراََ منظرنامے سے غائب ہو کر لاپتہ ہوجاتے ہیں۔
یہاں میں کسی ایک پارٹی کو تنقید کی زد میں نہیں لا رہا، میرے کہنے کا مقصد یہ تمام پارٹیاں محض دعوے کرتی ہیں لیکن اصل میں انہیں عوام کے جان، مال، عزت اور آبرو سے کوئی سروکار نہیں، لوگ بھوک سے مریں، بیماری سے مریں، قدرتی آفات اور زلزلے سے مریں، ان پر چور ڈکیت اور چار ٹکّے کے لوگ ظلم اور جبر کے پہاڑ گرائیں، ان سے اپنی من مانی کے مطابق جو چاہیں وہ کام کروائیں لیکن ان نام نہاد موسمی لیڈروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
مصنوعی اور قدرتی آفت زدہ علاقے جہاں محض زندہ رہنا بھی ایک خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے، اسکول، روڈ، ہسپتال اور دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے مطالبات اپنی جگہ یہاں کے لوگ صرف عزت سے اپنی زندگی گزارنے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن انکے لئے باعزت زندہ ہونے کی سہولت بھی میسر نہیں۔ آواران گیشکور کی سرزمین پر پرورش پانے والی روشن خیال لڑکی جن کے دل میں یہ آرزو تھی کہ میں مفت میں گاو¿ں کے بچوں کو پڑھاو¿ں، انہیں تعلیم دوں، نہ وہ کوئی پیسے اور مراعات کی ڈیمانڈ کر رہی تھی اور نہ ہی وہ کوئی تنخواہ کی طلبگار تھی۔ 2017ءسے وہ اپنے گاو¿ں کے بچوں کو مفت پڑھا رہی تھی کہ علاقے میں ایک درندہ صفت نوربخش نامی لیویز اہلکار مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن علم و شعور سے لبریز قوم کی لڑکی انکی چالاکیوں اور مذموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے باآسانی انکے جال میں نہیں پھنستی، ہر روز مذکورہ کردار نئی حکمت عملی کے ساتھ بلوچ بہن کو اپنے چنگل میں پھنسا کر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا رہتا لیکن بانک نجمہ بلوچ کے شعور کے سامنے مذکورہ کردار کی طاقت اور ناپاک عزائم زمین بوس ہوکر خاک میں ملتے رہے مگر یہ درندہ صفت لیویز اہلکار بار بار انہیں مختلف طریقوں سے تنگ کرتا رہا، بالآخر نیلی آنکھوں والی نڈر اور بہادر بلوچ لڑکی اپنے آنے والی نسل کا دفاع کرتے ہوئے سرخم تسلیم کرنے اور اپنے ضمیر کا سودا کرنے کے بجائے خود کو قربان کرکے شہادت کو ترجیح دیتی ہے اور آواران گیشکور کی تاریک سرزمین پر جگمگاتی ہوئی یہ رونق خود کو بھسم کرکے بے حس سماج اور نام نہاد لیڈروں کے وجود اور کردار پر ایک سوالیہ نشان ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاتی ہے، لیکن اس بہادر اور نڈر لڑکی کی شہادت کو بے حس سماج خودکشی کا نام دے رہا ہے کیونکہ انکے دماغ کو ان تاریکیوں نے اس قدر دھندلا دیا ہے کہ وہ قتل اور خودکشی کے درمیان تفریق پیدا نہیں کرسکتے، یہ ایک خودکشی نہیں بلکہ طاقت کی آڑ میں مدہوش کرداروں کے ہاتھوں ایک نوجوان لڑکی کی بے رحمانہ اور ظالمانہ اندازِ قتل ہے، اگر اس قتل کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ خودکشی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قتل ہے جو روز بانک نجمہ جیسی لڑکیاں اس طریقہ کار سے قتل کی جارہی ہیں اور ایسے لرزہ خیز واقعات کو زیادہ تر علاقوں میں دبایا جاتا ہے۔ اگر کوئی باضمیر انسان ان علاقوں کا جائزہ لینے کی زحمت کرے تو بسا اوقات ایسی واردات دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے، لیکن روزانہ کی بنیاد پر رونما ہونے والے انسانیت سوز واقعات کو کون دیکھے اور کون سنے؟ یہ الگ بات ہے کیونکہ اس بے حس سماج کے باسی اس قدر بے حس ہوچکے ہیں جن کو قدرت کے دیئے گئے حواس میں کوئی ایک حس بھی نہیں جو ان واقعات کو سنیں اور دیکھیں۔ حواس کا تعلق ضمیر سے ہوتا ہے جب ضمیر کو خوف، ڈر، ذاتی مفادات اور مراعات کا مرض لگ جاتا ہے تو حواس بھی کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ آواران میں یہ بیماری عام ہوچکی ہے، یہاں ان معاملات کو نہ کوئی دیکھ اور سن سکتا ہے اور نہ ہی ان کیخلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے۔ کیونکہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ان کے مفادات کو کوئی ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ باضمیر انسان کبھی بھی مفادات اور مراعات کی آڑ میں آکر خوف اور ڈر کا شکار نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنی عزت کا سودا لگا سکتا ہے۔ یہ بلیک میلنگ کی آگ جو گاﺅں اور دیہات میں پھیلتی جارہی ہے یہ آگ ان میر و معتبروں اور نام نہاد موسمی لیڈروں کے گھروں کی چوکھٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس آگ کا نشانہ صرف نجمہ نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ آگ پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیکر بھسم کردے گی۔
آواران کے عوام کب تک خاموشی رہیں گے؟ ان تمام واقعات کی ذمہ دار ہماری خاموشی اور بے حسی ہے، ہمیں اپنی خاموشی توڑ کر ان کرداروں کیخلاف آواز اٹھا کر عملی اقدام اٹھانا ہوگا، بصورت دیگر ہم روز اسطرح کے لرزہ خیز واقعات کا سامنا کریں گے اور روزانہ نجمہ بلوچ خودکش نما صورت میں قتل کی جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں