جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

تحریر: انور ساجدی
پرانی کہاوت ہے کہ
بدلہ لینا ہو تو دو قبریں تیار کرنا پڑتی ہیں۔یہ اس ریاست کی بدقسمتی ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر ایک دوسرے سے بدلہ لیتے رہتے ہیں۔1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور ان لیگ نے ایک سیاہ تاریخ رقم کی۔کبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی مقتدرہ کے ساتھ مل کر انتقامی اور بدلے کی آگ کو ٹھنڈی کرتے تھے۔
آج عمران خان کو جس صورتحال کا سامنا ہے یہ ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ان کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے جس طرح پی ٹی آئی کو توڑا جا رہا ہے وہ ٹوٹل غلط ہے۔اس پر پابندی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں اور زبردست کریک ڈاﺅن جاری ہے۔ازراہ انصاف بنیادی حقوق کے حوالے سے اگر آئین کی حکمرانی ہو تو اس کی رو سے یہ سب کچھ غلط ہے لیکن اقتدار پانے کی خاطر پی ٹی آئی نے پہلے پہل بنیاد پرست جنرل حمید گل کا روحانی سہارالیا۔2011 کے بعد انہوں نے جنرل پاشاکی حمایت ورہنمائی حاصل کی۔پاشا کے بعد جنرل ظہیر الاسلام ان کے حامی و ناصر بن گئے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران خان نے2014 میں اپنا طویل دھرنے کا آغاز کیا تھا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جنرل راحیل شریف بھی ان کی سرپرستی میں مصروف رہے۔ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل باجوہ نے عمران خان کو گود لیا ۔انہوں نے سیاسی انجینئرنگ کر کے نوازشریف کو نااہل کروایا تاکہ عمران خان کا اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوسکے۔2018کے انتخابات میں آر ڈی ایس فیل کر کے جنرل باجوہ نے سیدھا سادہ عمران خان کو فاتح قرار دے کر اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا۔شروع شروع میں لوگوں کا خیال تھا کہ باجوہ انگلی پکڑ کر عمران کی حکومت چلا رہے ہیں یہ تاثر اس لئے قائم ہوا کہ باجوہ ہر دولت مند دوست ممالک کے دورے پر عمران خان کو ساتھ لے جاتے تھے اور موقع ملتے ہی اشارہ کرتے تھے کہ بھائی صاحب کشکول نکال لینا۔حتیٰ کہ عمران خان کو نکا اور باجوہ کو ابا کہا جانے لگا۔حالانکہ عمر کے لحاظ سے عمران خان بڑے تھے۔شروع میں عمران خان جو کو لاڈ پیار ملا اس کی وجہ سے ان میں تکبر،غرورسرایت کر گیا ۔وہ روز ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کو کہتے تھے کہ میں آپ کو رلاﺅں گااور واقعی ساری ن لیگی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو جیلوں میں ڈال کر انہوں نے زبردست انتقامی کارروائیاں کیں۔جب امریکہ کے دورے پر تھے تو وہاں سے اعلان کیا کہ واپس جا کر ان کے خلاف جیلوں کے حالات سخت کروں گا ان کے اے سی اور پنکھے بند کروں گا اور گھر کے کھانے کی سہولت ختم کر دو ںگا۔انہوں نے دو خواتین متحرمہ فریال تالپور اور مریم نواز کو بھی جیلوں میں ڈالا اور ان پر سختیاں کیں حتیٰ کہ باتھ روم کے اندر خفیہ کیمرے لگا دئیے۔جب عمران خان کا زعم اور غرور زیادہ ہوگیا تو باجوہ سمجھ گیا کہ اگر یہ بندہ آگے چلا تو بہت تباہی آئے گی۔ڈبو چوہدری فراٹے خان اور شیخ رشید کے منہ میں ڈالا تھا کہ ہم تو2028 تک حکومت میں رہیں گے کوئی لیڈر ایسا نہیں تھا جس کو عمران خان گالیاں نہ دیتا تھا۔انہوں نے ایک بڑا جنونی کلٹ تشکیل دیدیا جو سوشل میڈیا کے ہتھیار اور گالیوں کے ہنر سے مسلح تھا۔ناجائز الزام تراشی ،بدکلامی ان کا وطیرہ بن گیا حتیٰ کہ پیروکار عمران خان کو زندہ پیر ولی اللہ اور خود کو امتی کہنے لگے۔2022 میں باجوہ نے زرداری سے مشورہ کیا کہ اس عفریت سے کیسے جان چھوٹ سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر آپ رکاوٹ نہ ڈالیں تو میں تحریک عدم اعتماد لاﺅں گا۔اس سلسلے میں باجوہ نے زرداری کے مشورے پر نوازشریف سے لندن میں نصف شب کے بعد خفیہ ملاقات بھی کی۔اس طرح عمران خان کے سرپرست اعلیٰ مخالفین سے مل گئے۔جس کے بعد ایک اور انجینئرنگ کی گئی کہ کس طرح عمران خان کو ہٹایا جائے اور اس کی پارٹی کو کمزور کیا جائے۔عدم اعتماد کے ذریعے معزولی کے بعد عمران خان نے طرح طرح کے پینترے بدلے اور آخر میں اس کا الزام باجوہ اور اس کے ساتھیوں پر لگا دیا نہ صرف یہ بلکہ اس نے فوج کے ایک حصے کو اپنا دشمن گردانا۔انہوں نے اندرونی اور بیرونی محاذ پر پروپیگنڈا شروع کر دیا ۔ان کے حامیوں سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ پوری مقتدرہ سے ٹکر لے بیٹھے۔عمران خان نے کئی مہینے تک اپنی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی اور پولیس کی پارٹیوں پر حملے کروا کر انہیں بھاگنے پر مجبورکر دیا۔
اس دوران اعلیٰ عدلیہ نے عمران خان کے ساتھ صف بندی کرلی۔اس نے ایسا ساتھ دیا کہ آج تک اس کی نظیر نہیں ملتی۔یہ تک فیصلہ دیا کہ ایسے مقدمات جو معلوم بھی نہیں تھے عمران خان کی ضمانت منظور کی جاتی ہے۔ جب وہ اسلام آباد میں گرفتار ہوئے تو چیف جسٹس خود میدان میں آ گئے۔بڑا حکم دیا کہ موصوف کو ایک گھنٹہ کے اندر ان کے سامنے پیش کیا جائے۔جب عمران خان عدالت میں آئے تو چیف جسٹس نے ساتھ کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔اس کے بعد انہوں نے خان صاحب کو اسی وقت رہا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس ریسٹ ہاﺅس میں منتقل کیا جائے۔چیف جسٹس نے پنجاب میں الیکشن کے بارے میں حتمی فیصلہ جاری کیا۔ اگر 9مئی کے واقعات نہ ہوتے تو چیف جسٹس اسی دن وزیراعظم،کابینہ اور چیف الیکشن کمشنر کو توہین عدالت کے نوٹس بھیجتے۔جس کے نتیجے میں شہبازشریف،یوسف رضا گیلانی کی طرح سیدھے گھر جاتے لیکن 9مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دو صوبوں کی اہم عمارتوں اور فوجی یادگاروں اور تنصیبات کو آگ لگا دی جس کے بعد مقتدرہ کو میدان میں آنا پڑا لیکن 9مئی کے نائن الیون نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی گو کہ عمرانٰ خان ابھی تک ضمانتوں پر آزاد ہیں لیکن ان کی پارٹی کے 4000 کارکن اور ڈیڑھ سو رہنما ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ کم از کم تیس سابق اراکین اسمبلی اور اہم رہنما پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو جہانگیر ترین کے طیارے میں بیٹھ کر پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو اہم رہنما فیصل واوڈا اور فیاض چوہان عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔سلطانی گواہوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو القادر ٹرست کیس اور9مئی کی ہنگامہ آرائی کے مقدمات میں عمران خان کے خلاف گواہی کے لئے تیار ہیں۔ فیاض چوہان ایک بد سلیقہ آدمی ہے جس نے 9مئی کے واقعات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عمران خان کی ہدایت پر ہوئے تھے۔آج یا کل عمران خان جیل ضرور جائیں گے۔گوچیف جسٹس کا بس چلا تو اسے بچانے کی کوشش کریں گے جبکہ بعض معاملات میں ان کی نااہلی بھی یقینی ہے۔البتہ پی ٹی آئی پر پابندی دیرپا ثابت نہیں ہوگی بلکہ صدر علوی کا گروپ جس میں سب چھوڑنے والے لوگ شامل ہیں وہ ایک نئی پی ٹی آئی بنانے کی کوشش کریں گے اس دوران کوشش کی جائے گی کہ عمران خان بیرون ملک چلے جانے پر آمادہ ہو جائیں۔اس سلسلے میں انہوں نے حال ہی میں خود بھی اشارہ دیا ہے اورکہا ہے کہ لندن میں مقیم ان کے بچے سخت فکرمند ہیں اور انہیں فکر لاحق ہے کہ میں مارا نہ جاﺅں۔اگرچہ وہ بیرون ملک گئے تو مشکل سے جائیں گے ۔یوں آسانی سے وہ اپنے بنی گالا اور زمان پارک کے شاندار محلات چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔البتہ ایک طیارہ ان کا منتظر ضرورہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مشکل وقت میں اپنی جماعت کے بعض لیڈروں کی طرح وہ بزدلی کا کام کریں گے اور مشکل وقت مردانگی اور حوصلہ کے ساتھ گزارلیں گے۔انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے جس طرح انتقام لیا ہے ان کو اپنے طریقہ کار کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک جلا وطن صحافی معید پیرزادہ نے حال ہی میں رو رو کر کہا جس طرح پنجاب میں خواتین کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ”مورال آرڈر“ ختم ہوگیا ہے۔معید پیرزادہ جب پاکستان میں پروگرام کرتے تھے تو ان کی آنکھیں اور زبان بند تھی۔انہیں نظر نہیں آتا تھا کہ کس طرح بلوچستان کی خواتین کو گرفتار کر کے ان سے بدترین سلوک کیا جاتا تھا اسی طرح شیریں مزاری کے تحریک انصاف سے استعفیٰ اور سیاست سے منہ موڑنے کے واقعہ پرچوہدری اعتراز احسن نے رو کر بتایا کہ انہیں جس طرح مجبور کیا گیا وہ درست عمل نہیں۔اعتزاز احسن یہ بھی بتاتے کہ کس طرح بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے خاندان سے انسانی تاریخ کا بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اس وقت پیپلز پارٹی چھوڑچکے تھے اور اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال کا حصہ تھے۔بدقسمتی سے جس طرح پنجاب کے حکمران منافق ہیں وہاں کے صحافی،میڈیاپرسن اور دانشور بھی دوغلی پالیسی رکھتے ہیں۔جہاں تک یہ کہنا کہ آئین ختم ہوچکا ہے۔پارلیمنٹ کی حیثیت ربر اسٹیمپ کی سی ہے تو جناب یہاں کب آئین نافذ تھا یہاں پر سیاسی حکمرانوں کے دور میں بھی ڈائریکٹ کنٹرول ہی نہیں تھا کسی منتخب حکومت کو اقتدار اور اختیار منتقل نہیں ہوا۔یہ کون سی نئی بات ہے۔البتہ ریاست نئے انداز سے سنگین بحرانوں کاشکار ضرور ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں