بہت بڑی تبدیلی

تحریر: انور ساجدی
ایوب خان کے مارشل لاء کا تو یاد نہیں البتہ5جولائی1977 کو ضیاء الحق نے جو مارشل لا لگایا تھا تو پی این اے میں شامل جماعتوں سمیت ’’محب وطن‘‘ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے اس کا والہانہ خیرمقدم کیا تھا۔اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا اس لئے اخبارات میں خیر مقدمی بیانات کی بھرمار ہو گئی تھی۔کئی لوگوں نے اپنے گھروں میں جشن منایا تھا سب سے بڑا جشن لاہور میں شریف خاندان کے گھر پر منایا گیاتھا جہاں سینکڑوں من مٹھائی غرباء میں تقسیم کی گئی تھی۔شریف خاندان چونکہ بھٹو کی کارروائیوں کا نشانہ بنا تھا اس لئے اس کا جشن منانا بنتا تھا۔خوشی کے نظارے کراچی کوئٹہ اور پشاور میں بھی قابل دید تھے کیونکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری تھا جبکہ پشاور میں نیپ کے سینکڑوں کارکن جیلوں میں تھے۔
1990 میں ہی ’’آئی جی آئی‘‘ کی انتخابات میں کامیابی کے بعد ماڈل ٹائون میں شریف خاندان کے گھروں میں ایک بار پھر جشن منایا گیا یہ پوسٹروں کا زمانہ تھا اس لئے لاہور اور راولپنڈی کی سڑکیں اور دیواریں پوسٹروں سے بھر گئی تھیں۔جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں جب نوازشریف کا تختہ الٹا تو کراچی کے ان حصوں میں جہاں پیپلز پارٹی کے کارکن اکثریت میں تھے خوشی منائی گئی لیکن پورا پنجاب میاں صاحب کی معزولی سے سوگوارتھا۔ رفتہ رفتہ ن لیگ کی اکثر نامی گرامی شخصیات مشرف کی طرف مائل ہونے لگیں اورجب مشرف نے اپنا رسوائے زمانہ ریفرنڈم برپا کیا تو موجودہ بڑے لیڈر عمران خان نے پولنگ ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔اسی دوران جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کی خدمات حاصل کر کے ان لیگی باقیات پر مشتمل ق لیگ قائم کر دی۔دھڑا دھڑ لیڈر صاحبان اس میں شامل ہوگئے۔2002کے عام انتخابات میں ق لیگ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن گئی۔پہلی پوزیشن پیپلز پارٹی کو حاصل تھی جبکہ ن لیگ سکڑ کر لاہور تک محدود ہو گئی تھی یہ مشرف اور فوج کی طاقت تھی کہ بے نظیر کے پرانے ساتھیوں رائو سکندر اقبال اور مخدوم فیصل صالح حیات نے مل کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے نام سے ایک فارورڈ بلاک قائم کیا۔پیپلزپارٹی کے14ایم این اے اس میں شامل ہوگئے لیکن اکثریت کیلئے ایک رکن کم تھا۔ اس لئے سپہ صحابہ کے لیڈر اعظم طارق کو جیل سے سرکاری امیدوار میر ظفر اللہ جمالی کو ووٹ دینے کے لئے لایا گیا لیکن ووٹ دینے کے بعد جب انہیں واپس اڈیالہ جیل لے جایا جا رہا تھا تو پراسرار حالات میں انہیں قتل کر دیا گیا۔
اگرچہ اس وقت حالات بدل چکے ہیں لیکن جو معاملات ہیں انہیں اسی نہج پر چلایا جا رہا ہے۔ایم ایم اے اور ق لیگ کی جگہ پی ڈی ایم لے چکی ہے۔پی ٹی آئی کو ہرسطح پر توڑا جا رہا ہے جس طرح1999میں مسلم لیگ ن کو توڑا گیا تھا۔آثار بتا رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں بھی یہی نسخہ استعمال کیا جائے گا۔
9مئی کے واقعات کے بعد پاکستان کے تمام شہر بہت خوش رنگ نظارے پیش کر رہے ہیں۔بجلی کے کھمبوں پر عمارتوں اور دیواروں پر خوبصورت پینا فلیکس نظر آ رہے ہیں۔جن پر فوجی قیادت کی ڈیکوریٹڈ تصاویر جگہ جگہ نظر آرہی ہیں۔اکثر پوسٹروں میں بڑا فوٹو آرمی چیف حافظ جنرل محمد عاصم منیر کا نظر آتا ہے جبکہ کچھ پر آئی ایس آئی کے چیف ندیم انجم،بابر افتخار اور دیگر قائدین کی تصاویر بھی شامل ہیں۔اگر باہر کے کسی ملک کے کوئی شخص یہاں آئے تو اسے سو فیصد یقین ہوگا کہ پاکستان میں ضرور مارشل لاء لگ گیا ہوگا کیونکہ ایسے مناظر مارشل لاء کے دور میں ہی نظر آتے تھے کیونکہ9مئی سے پہلے ہورڈنگز اور بڑے بڑے بورڈز پر بلاول اور آصف علی زرداری کی تصاویر نظر آتی تھیں ان کی تصاویر کی جگہ فوجی قیادت کی دلکش تصاویر دکھائی دے رہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔حالانکہ ایک منتخب حکومت قائم ہے۔آئین بھی معطل نہیںہے اور ایمرجنسی بھی نافذ نہیں ہے۔یکایک یہ ہوگیا کہ آئین کی دفعہ245او پر عمل ہواجبکہ آرمی ایکٹ بھی لاگو ہوگیا۔جمعرات کو پہلی بار آرمی ایکٹ کے تحت ملزمان کو طلب کیا گیا یعنی ان کے خلاف کارروائی اسی ایکٹ کے تحت چلائی جائے گی۔یہ تو ابتداہے کیا معلوم کسی دن سابق وزیراعظم عمران خان بھی کسی فوجی عدالت میں ملزم یا مجرم کی حیثیت سے نظر آئیں تب تک پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن اور سابق اراکین اپنے سابق لیڈر کو چھوڑ چکے ہوں گے اگر کوئی رہ گیا تو وہ مراد سعید ،فرخ حبیب اور اپنے کوئٹہ والے قاسم سوری ہی رہ جائیں گے جبکہ کسی خاص سمت سے ہوا چلے تو سب اسی سمت کی طرف چلے جاتے ہیں۔جمعرات کو اپنے چیف بندیال صاحب توصیفی جملے بولتے ہوئے سنے گئے۔ انہیں ضرور معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان کی ساسو ماں مسز طارق رحیم بھی زد میں آنے والی ہیں جبکہ سابق آرمی چیف آصف نواز جن کی نگرانی میں1992 کا مشہور کراچی آپریشن ہوا تھا ان کی نواسی بھی گرفتار ہوچکی ہے کیا پتہ کہ ان کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلے۔سردست چوہدری شجاعت حسین ،نجم سیٹھی، باجوہ سر اور پنجابی ایلیٹ کے اکثر ارکان کوشش کر رہے ہیں کہ محترمہ خدیجہ شاہ کے خلاف آرمی ایکٹ کے بجائے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے لیکن یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔سلمان شاہ کی صاحبزادی پر رحم کیا گیا تو کوئی بڑی مثال قائم نہیں ہوگی۔اسی طرح80 سالہ ٹائیگریس یاسمین راشد کے خلاف بھی سخت کارروائی ہو رہی ہے۔حالانکہ وہ کینسر سے صحت یاب مریض ہے لیکن ان پر بھی رحم نہیں کیا جا رہا۔ اسد عمر، ڈبو چوہدری اور بعض دیگر رہنمائوں پر ہاتھ اس لئے ہلکا رکھا جا رہا ہے کہ کل کلاں اگر عمران خان کے مقابلہ میں نئی پی ٹی آئی بنائی گئی تو ان کی اشد ضرورت پڑے گی۔کیونکہ نئی پارٹی کی تشکیل آخری مرحلے میں ہے۔یہ پارٹی عران خان کے مقابلے میں آئے گی اور الیکشن کمیشن میں اپنی اکثریت ثابت کر دے گی۔جس کے بعد نئی پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اہل ہوگی۔
اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی مثال سامنے ہے۔الیکشن کمیشن نے الطاف گرو پ کے مقابلے میں خالد مقبول کو اصلی ایم کیو ایم قرار دیا گیا الیکشن کس نے دیکھے ہیں کہ اگر اسی دوران عمران خان نے معافی مانگ کر بڑوں کی شرائط منظور نہیں کی تو بڑے بڑے کیس پڑے ہیں۔فارن فنڈنگ کیس ،توشہ خان کیس،القادر ٹرسٹ کیس،ون بلین ٹری سونامی کیس،لاہور اربن ڈویلپمنٹ کیس سب کے سب چلیں گے۔سنا ہے کہ تحریک انصاف کے بیرونی دوست کوشش کر رہے ہیں کہ جناب عمران خان کو اس طرح کی ڈیل دی جائے جو 1999 میں شریف خاندان کودی گئی تھی۔یعنی عمران خان جان بخشی کے عوض بیرون ملک جانا قبول فرمائیں۔جن ممالک سے رابطہ کیا جا رہا ہے ان میں یو اے ای، سعودی عرب اورترکی شامل ہیں۔طیب اردگان جیت گئے تو ان کا اثر ورسوخ استعمال کیا جائے گا۔اگر عمران خان جلا وطن ہوئے تو ان کا سونامی انقلاب بھی ساتھ جائے گا۔اگر عمران خان کو اپنی عافیت چاہیے تو ان کے لئے باہر جانا مفید ہوگا لیکن اگر مقابلہ کرنا ہے تو یہیں رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا بہتر ہے۔اگر انہیں قید ہوئی حتیٰ کہ کسی کورٹ مارشل کے ذریعے سزائے موت ہوئی تو بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ رہیں گے۔بشرطیکہ وہ خوف دور کریں اور اصل بات لوگوں کو بتائیں اگر وہ ایسا کریں تو تین سال کے بعد موجودہ برا وقت ختم ہو جائے گا اور وہ تباہ کن رسوائی سے بچ جائیں گے۔ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو کام آج پی ڈی ایم کی قیادت کر رہی ہے ان کا انجام بھی بے رحمانہ ہوگا۔تجویز پیش کی گئی ہے کہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے نوازشریف کو واپس لایا جائے یہی وجہ ہے کہ ٹی وی کے سرکاری اشتہاروں میں نوازشریف کی تصویر اور آواز دکھائی دے رہی ہے۔نوازشریف آ کر کیا کریں گے۔زیادہ سے زیادہ ن لیگ کا ڈوبتا ووٹ بینک بچانے کی کوشش کریں گے۔ جب یہ طے ہے کہ پی ڈی ایم کو لایا جائے گا تو حصے پر تنازعہ ہوگا۔نوازشریف کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی خطرے کی بات یہ ہے کہ پشاور سے لے کر سائوتھ پنجاب تک بیشتر الیکٹیبلز پیپلز پارٹی کا رخ کر رہے ہیںکیونکہ تحریک انصاف کے ہٹ جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پیپلز پارٹی پر کرے گی جبکہ ن لیگ تو پہلے سے بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔آئندہ جب بھی الیکشن ہوں گے حیران کن نتائج ہوں گے اور یہ ن لیگ کے لئے سب سے زیادہ حیران کن ہوں گے۔یہ الیکشن بھی1997 ، 2002 اور2018 جیسے ہونگے کیونکہ انتخابی انجینئرنگ ہماری عادت بن گئی ہے اس سے جان چھڑانا ناممکن ہے۔
ایک اور بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے بڑے ملزم الحاج محمد ریاض آف بحریہ ٹائون ہے لیکن دونوں طرف سے اس کا نام کوئی نہیں لے رہا ہے۔کیونکہ ملک صاحب کے پاس جدید اور قدیم ویڈیوز بہت ہیں۔اگر انصاف موجود ہے تو ملک صاحب پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے ان کی بخشش سمجھ سے بالاتر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ مافوق الفطرت یا مریخ سے آئی ہوئی کوئی مخلوق ہے اور ہر دور میں انصاف سے بالاتر ہے۔ملک صاحب کے ایک سپاہی فیصل واوڈا نے اپنے محسن کو بچانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ اصل ملزم جنرل فیض ہے حالانکہ منی لانڈرنگ اور رشوت دہی کے بڑے ملزم تو ملک صاحب ہیں ۔لگتا ہے کہ وہ اس بار بھی بچ جائیں گے۔