قسطوں میں خودکشی

تحریر: انور ساجدی
بظاہر حکمرانوں نے عمران خان کو زمان پارک میں محصور کر کے اکیلا کر دیا ہے لیکن حکومت کو اندرونی و عالمی طور پر ایک بڑے دباﺅ کا سامنا ہے۔تحریک انصاف نے پاکستانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا دیا ہے۔گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے پاکستان میں ہونے والے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ امریکا،برطانیہ اوردیگر مغربی ممالک میں سیاسی کارکنوںکی گرفتاری ،ان کے اغواءاور تشدد پر بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔اس دباﺅ کی وجہ سے حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ ملٹری ایکٹ کے تحت ان لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے گا جن کا تعلق ملٹری سے ہے جبکہ باقی لوگوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ اگرچہ پاکستان میں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم سست پڑی گئی ہے لیکن دنیا کے ہر کونے میں اس ٹیم نے کچھ جعلی اور کچھ اصلی ویڈیوز چلا کر پاکستانی حکمرانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔چونکہ دشمن کےخلاف پروپیگنڈا ایک بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔اس لئے اس سلسلے میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی ہر حربہ آزما رہی ہے۔البتہ پاکستان میں موجود پارٹی لیڈران کرام میں سے چند کے سوا باقی سب بڑے بزدل ثابت ہوئے نہ جانے ان کے ساتھ کونسا سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ جیل سے چھوٹتے ہی گھر جانے کے بجائے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں اور فوری طور پر تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔جس کے بعد وہ آرام سے گھر جاتے ہیں۔تین چار دن قبل مشہور پنجابی گلوکار اور تحریک انصاف کے لیڈر ابرار الحق تحریک انصاف کو خیر باد کہتے ہوئے رو رہے تھے۔ان آنسوﺅں کے بدلے میں موصوف کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا گیا اور ہفتہ کو وہ لندن پہنچ گئے۔خیال آتا ہے کہ یہ لوگ مردوں کی طرح حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے عورتوں کی طرح روتے کیوں ہیں؟فواد چوہدری سے لے کر سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل تک تمام لیڈروں کا یہی حال ہے۔عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی گردن سے سریا نکال کر پہلے اپنے کارکنوں کو پرانی پیپلز پارٹی کی فلمیں دکھاتے۔ان کے کارکنوں پر جو ظلم و بربریت ہوئی اس کی کہانیاں سناتے اور بتاتے کہ انہوں نے کس طرح مارشل لاءکے مظالم کا مقابلہ کیا۔چند روز قبل پیپلز پارٹی پنجاب کے ایک جیالے ریاض جھرنا کی برسی تھی انہیں چوہدری ظہور الٰہی اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مردود مولوی مشتاق کو بم دھماکہ سے ہلاک کرنے کے الزام میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تختہ دار پر لٹکایاگیا تھا۔جیل حکام کے مطابق جبجھرنا کو تختہ دار کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو وہ زور زور سے جئے بھٹو کا نعرہ لگا رہا تھا۔لاہور پھانسی گھاٹ میں موجود افسروں نے کہا کہ پہلے اس کو مارو چنانچہ کئی سپاہیوں نے بیک وقت اس پر تشدد کیا۔حتیٰ کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔پھر اسے بے ہوشی کی حالت میں تختہ دار کی طرف لے جایا گیا تاہم پھانسی پر جھولنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر جئے بھٹو کا نعرہ لگایا۔ ایک کیا ضاءالحق کے دور میں ہزاروں ریاض جھرنے عقوبت خانوں میں تاریخ انسانی کے بدترین مظالم سہہ گئے تھے۔پیپلز پارٹی کو چھوڑئیے بلوچستان میں پچھلے 75 سال سے مظالم جاری ہیں جبکہ گزشتہ 17 سال میں ظلم و زیادتی کی”آخیر“ کر دی گئی ہے لیکن شاید ہی کسی نے بزدلی یا کمزوری کا مظاہرہ کیا ہو۔کوئٹہ سے لے کر گوادر تک شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کا کوئی فرد عقوبت خانوں میں نہ ہویا مسنگ پرسنز نہ ہوں لیکن اہل بلوچستان اس پر گھبرائے ہوئے نہیں ہیں۔ان کی مزاحمت اچھی ہو یا بری مسلسل جاری ہے۔
جب نواب نوروز خان کی موت90سال کی عمر میں حیدرآباد جیل میں ہوئی تو گھبرائے ہوئے نہیں تھے حالانکہ انکے چار عزیزوں کو اسی جیل میں پھانسی دی گئی انہوں نے پھانسی کے بعد ان کا آخری دیدار کیا تھا اور ماتھے بھی چومے تھے۔
نواب اکبر خان بگٹی نے80 سال کی عمر میں بستر پر موت کے بجائے پہاڑوں میں شہادت کو ترجیح دی۔
آخر تحریک انصاف کے لوگوں پر ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ وہ جیل میں دودن کی گرمی برداشت نہیں کر سکتے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان نے اپنے لیڈروں اور کارکنوں کی درست تربیت نہیں کی اور انہیں یہ نہیں سکھایا کہ جب قید و بند کا سامنا کرنا ہو تو کس طرح کرنا چاہیے۔جس تحریک انصاف کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا کا کھلونا آیا تھا اور اس نے اسے خوب استعمال کیا لیکن سوشل میڈیا کی دنیا اور حقیقی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔آپ ایک خیالی دنیا کو جب حقیقی دنیا سمجھیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا۔حکومت یا حکمرانوں کی تحریک انصاف سے لڑائی نے ریاست کا کچومر نکال دیا ہے اور پہلی مرتبہ 25 کروڑ لوگ اپنی ریاست کے مستقبل کو لیکر مایوس ہیں۔
اس مایوسی کا اظہار ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر اشرافیہ کے اراکین بھی کرنے لگے ہیں۔گو کہ ان حالات تک پہنچنے میں تحریک انصاف نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے مدمقابل حکمران بھی بڑے نااہل ثابت ہوئے ہیں۔انہوں نے بہت کچھ اعلیٰ حکمرانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور خود کچھ کرنے کے بجائے آسرا لگائے بیٹھے ہیں کہ جو بڑے ہیں ان کے حصے کا کام بھی وہی کریں گے۔حکمرانوں کی نااہلی سے ملک چل نہیں رہا بیڈ گورننس عروج پر ہے۔بیوروکریسی کام نہیں کررہی ۔وزیراعظم اور وزراءکی کارکردگی دعوﺅں اور بڑھکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔مہنگائی نے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے۔آدھی آبادی زندہ درگور ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں ہماری رولنگ کلاس ریاست کو خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے لیکن یہ خودکشی رفتہ رفتہ اور قسطوں میں ہے جو بہت ہی عذاب ناک ہے۔
سرور بارہ بنکوی کا شعر ہے۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں کے بعد
قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھئے
کیا افسوسناک بات ہے کہ آخری مارشل لاءکو گزرے 16 سال ہوئے ہیں لیکن اب بھی ملٹری کورٹس اور آرمی ایکٹ کی بات ہو رہی ہے۔آئین کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔عدالت سے انصاف مفقود ہے۔سیاستدان ہیں تو شاہ دولے کے چوہوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔نہ اپوزیشن میں کوئی قرینہ ہے اور نہ حکمرانوں میں کوئی سلیقہ ہے۔ملک عملی طور پر ڈیفالٹ کر چکا لیکن وزیر خزانہ ماننے کو تیار نہیں ۔
چین سے قسطوں میں ادھار حاصل کر کے روزمرہ معاملات چلائے جا رہے ہیں۔عوام کو معلوم نہیں کہ چین کو کیا قیمت دینا پڑے گی۔حکمران الیکشن کروانے اور اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔انہیں خوف ہے کہ انہیں عوام ووٹ نہیں دیں گے۔جب تک تحریک انصاف کی مقبولیت عوام میں ختم نہیں ہوگی پی ڈی ایم کو ووٹ نہیں ملیں گے۔حکمرانوں کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ 9مئی کے بعد فوج نے تکریم شہداءکی وجہ سے جو مہم چلائی اس نے تحریک انصاف کو کچھ دھچکا دیا ہے لیکن شہداءکے دن ہر روز نہیں منائے جاسکتے۔لہٰذا حکمرانوں کو کچھ اور کرنا پڑے گا۔موجودہ حالات میں مذاکرات تو نہیں ہوسکتے کیونکہ عمران خان اب بھی بضد ہیں کہ وہ چوروں ڈاکوﺅں سے بات نہیں کریں گے جبکہ حکمران اتحاد کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایک ملک دشمن اور دہشت گردی جماعت ہے اس لئے اس سے مذاکرات نہیں ہوسکتے یعنی تصادم اور محاذ آرائی جاری رہے گی اور مزید خواری خرابی ہوگی۔
تمام تر تلخ اور مایوس کن خبروں کے بیچ میں ایک روح پرور اور تازہ جھونکے کی ماند خبر یہ ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن دو روزہ پر تھالی لینڈ گئے ہیں۔تھائی لینڈ بڑا اچھا ملک ہے ہر سال کروڑوں سیاح شامل ہیںجن میں پروہت،بھکشو،پادری حضرات اور اسلامی اسکالر وہاں جاتے ہیں اور تھائی سیاحت کا مزہ اٹھاتے ہیں۔امید یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی تروتازہ ہو کر وہاں سے لندن کی سیر کو نکلیں گے تاکہ سیاحت کا مزہ دوبالا ہو جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں