سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
تحریر: انور ساجدی
کھیل مزیدگندا ہوگیا ہے پنجاب اشرافیہ کے دونوں گروپ کیچڑمیں اتر گئے ہیں جہاں سے وہ ایک دوسرے کو پتھر مار رہے ہیں عمران خان ساری دنیا میں اپنی جماعت کے خلاف کریک ڈاﺅن اور مظالم کی بنیاد پر بنیادی حقوق کا کیس بنارہے ہیں وہ دو دن سے الزام لگارہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین سے جیلوں میں بہیمانہ سلوک ہورہا ہے ان پر تشدد ہورہا ہے عمران خان کے اس بیان کے بعد دنیا بھر میں موجود پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے الزام لگانا شروع کردیا ہے کہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی نواسی سابق مشیر مالیات ڈاکٹر سلمان شاہ کی بیٹی خدیجہ شاہ کا دوران حراست ریپ کردیا گیا ہے دعویٰ تویہ ہے کہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی جنسی تشدد ہوا ہے اور واقعی یہ کچھ ہوا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ورنہ جو لوگ الزام لگارہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔عمران خان نے اپنے تازہ خطاب میں عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کمزور پڑ گئی ہے حالانکہ اسے ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے اور حکومت کی جانب سے مظالم کانوٹس لیکرحکمرانوں کو توہین عدالت کے نوٹس بھیجے جائیں عمران خان کے بیشتر لیڈر انہیں چھوڑ چکے ہیں لیکن ذاتی طور پر وہ ڈٹے ہوئے ہیں ان کی کوشش ہے کہ حکومت کا سیاسی و عدالتی محاذ پر مقابلہ کرکے اسے شکست سے دو چار کیا جائے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ حکومت نے تازہ بل کی منظوری کے بعد عدلیہ کے پر کاٹ دیئے ہیں عدلیہ کے اختیارات سے متعلق بل پر صدر عارف علوی نے بھی دستخط کردیئے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر مملکت صاحب بھی اپنے لیڈر عمران خان کو چھوڑ چکے ہیں حالانکہ انہوں نے رواں سال متعدد بلوں پر دستخط سے انکار کیا تھا صدر کی جانب سے حالیہ بل کی منظوری ایک اہم واقعہ ہے جس کے تحت مسلم لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف کو اپنی سزاﺅں کے خلاف اپیل کا حق مل جائے گا اس قانون کے نفاذ کے بعد نواز شریف کسی تاخیر کے بغیر پانامہ کیس میں تاحیات نااہلی اور قید کی سزا کے خلاف اپیل دائر کریں گے یعنی ان کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
سنا ہے کہ بڑے حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن سمیت سیاسی انجینئرنگ کے تمام منصوبوں کو ترک کیا جائے گا اور ریاست کو دوبارہ 2008ءکی سطح پر لایا جائے گا یعنی عمران خان کا غلغلہ ختم ہوجائے گا اور اس کی حیثیت ایک عام پارٹی کے طور پر برقرار رہے گی عمران خان کی 2018ءمیں جیت باجوہ ڈاکٹرائن کی مرہون منت تھی جسے اب کٹ ٹو سائز کیا جارہا ہے۔
عمران خان کے عروج کے دور میں بیرون ملک مقیم بیشتر اوورسیز پاکستانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے وہ ہر جگہ سرگرم عمل تھے لندن میں انہوںنے شریف خاندان کا ناطقہ بند کررکھا تھا ہر روز ایون فیلڈ فلیٹ کے سامنے یہ لوگ مظاہرے اور نعرے بازی کرتے تھے گندے انڈے اور ٹماٹر پھینکتے تھے یوکے میں آپ مخالفین پر یہی چیزیں مار سکتے ہیں لاٹھی ڈنڈے اور ہتھیاروں کا استعمال ممنوع ہے۔
گزشتہ ہفتہ تحریک انصاف سے علیحدگی اور 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے کے بعد پی ٹی آئی کے لیڈر سہارا ٹرسٹ کے چیئرمین اور پنجابی زبان کے بے ہودہ گلوکار ابرار الحق لاہورکے ارب پتی سیٹھ علیم خان کے ایک پروگرام کے پروجیکشن کےلئے جب لندن کے ایک ہال میں پہنچے تو اہل یوتھ نے ان پر حملہ کردیا تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کردی پروگرام تو خراب ہوگیا پولیس نے پہنچ کر ”نچ پنجابن نچ“ ، اساں دے جاناں بلو دے گھر گانے والے گلوکار کو ہجوم کے غضب سے پچا لیا یہ جو تحریک انصاف ہے یہ آتشیں نوجوانوں پر مشتمل ہے عمران خان نے ان کی غلط تربیت کی ہے یہ ہر وقت مخالفین پر حملہ کےلئے تیار رہتے ہیں اسی تربیت کی وجہ سے یہ چھوٹے چھوٹے فاشسٹ بن چکے ہیں اور وہ مخالفین کا وجود تک مٹانا چاہتے ہیں آخر کار اس کا ری ایکشن بھی آنا تھا جو آگیا یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف زوال کی طرف جانے لگی ہے اوپر کی سطح پر پنجابی ایلیٹ کا ایک حصہ بدستور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے لیکن 9 مئی کے واقعات کے بعد اس گروپ کو کافی کمزور کردیا گیا ہے اس کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہورہا ہے جس کے بعد عمران خان مزید کمزور ہونگے اس وقت ان کی واحد طاقت سوشل میڈیا ہے جس کے ذریعے حکومت اور مخالفین کے خلاف خوب پروپیگنڈہ ہورہا ہے لیکن یہ عمل بھی زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا یہ جو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے گئے ہیں یہ حکومت کا ایک حربہ ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان ملک چھوڑ کر چلے جائیں حکومت اگرچہ جنگی بنیادوں پر کام کررہی ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ عوام میں عمران خان کی سحر کو توڑنے کےلئے کافی وقت درکار ہے اس لئے حکومت انتخابات کے معاملہ میں تاخیر سے کام لے رہی ہے اس کی کوشش ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر عمران کسی طور جیل جائے اور انہیں نااہلی کی سزا ملے جس کے بعد حکمران اتحاد کی جان میں جان آئے گی اور وہ انتخابات کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیابی حاصل کرسکے گالیکن آئندہ چند ہفتوں میں بہت خواری خراب ہوگی بڑے بڑے پاور فل ادارے اپنے معاملات طے کریں گے اعلیٰ عدلیہ کو دائرہ کار میں لایا جائے گا جس کے بعد کوشش کی جائے گی کہ انتخابات کا انعقاد آئندہ سال تک مو¿خر ہوجائے۔
جو کچھ ہورہا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب کے لوگ جو سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور باقی صوبوں کی نسبت خوشحال ہیں ان کی قیادت سیادت اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کا کیا لیول ہے ایسا لگتا ہے کہ ہڑپہ کی تہذیب کے بعد یہاں کوئی شائستہ تہذیب قائم نہیں ہوئی یہ لوگ انسانیت سے نیچے گرچکے ہیں محترمہ زہرہ نگاہ کے شعر کے مطابق جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے لیکن اس ملک میں باالعموم اور پنجاب میں باالخصوص جنگلوں کا دستور بھی نافذ نہیں ہے وہاں عزت و ناموس کوئی معنی نہیں رکھتے جہاں عزت و ناموس کا پاس نہیں ہو وہاں قانون کیا بیچتا ہے اور انسانی حقوق کیا معنی رکھتے ہیں جب تک معاملات حل نہیں ہوجاتے پنجاب کی ایلیٹ باہم دست و گریبان رہے گی اور وہ ایک دوسرے کی ناموس اچھالتی رہے گی۔
ترکیہ میں جلاد طیب اردگان 20 سال حکومت کرنے کے بعد مزید پانچ سال یعنی 2028ءتک برسراقتدار رہیں گے انہوں نے رن آف الیکشن میں اپنے مدمقابلہ امیدوار قلیچ اولو کو پانچ فیصد ووٹوں سے شکست دی انتخابی نتائج آنے کے بعد اولو نے انقرہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اردگان نے شدید دھاندلی کا ارتکاب کیاہے اصل میں اسے شکست ہوئی ترکیہ کے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے لیکن وہ بے قاعدگیوں کی وجہ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں طیب اردگان ایک متعصب ترک لیڈر ہیں جو مسلسل مخالفین اور دیگر قوموں کو کچل رہے ہیں یورپی یونین کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اردگان نے کردوں اور علویوں کے خلاف غیر انسانی کارروائیاں کرکے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے اگرچہ اولو بھی ترکی انسل اکثریت کے نمائندہ ہیں لیکن اردگان سے جان چھڑانے کےلئے دیگر قوموں نے اسے ووٹ دیئے طیب اردگان کی قیادت میں ترکی مزید پانچ سال انسانی حقوق کی پامالی پریس پر مسلسل سنسر شپ اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کے ساتھ چلے گا ترکی اور پاکستان کی صورتحال اس وقت ملتی جلتی ہے کیونکہ پاکستان میں بھی برائے نام جمہوریت ہے میڈیا پر سخت پابندیاں ہیں بلوچستان کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا کو سختی کے ساتھ ہدایت ہے کہ وہ کوئی خبر جاری نہ کرے وہاں بنیادی انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہورہی ہے مین اسٹریم میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے ترکی میں بھی ایک مخصوص طبقہ فکر کی اجارہ داری ہے اور پاکستان میں بھی اقتدار اور ہائی کمان بھی اسی طرح کے طبقہ کی گرفت مضبوط ہے پاکستان اور ترکی کے نظریات بھی ملتے جلے ہیں کوئی خاص فرق نہیں ہے البتہ ترکی کی معاشی حالت پاکستان کی نسبت بہت اچھی ہے بلکہ دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن وہاں بھی کرد اور علوی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں انہیں وسائل میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے اور پروجیکٹس کے نام پر ان کی زمینوں پر مرکز کا قبضہ جاری ہے۔