ایک نئی کنگز پارٹی
تحریر: انور ساجدی
9مئی کے واقعات کے بعد حکومت اہتمام کر رہی ہے کہ اہم شخصیات،مشاہیر،فلمی فنکار اور دیگر لوگ احتجاج کے دوران جلی ہوئی تنصیبات کا دورہ کریں۔خاص طور پر سب لوگوں کو کورکمانڈر لاہور کی وسیع و عریض رہائش گاہ لے جایا جا رہا ہے جہاں مہمانوں کو کتاب رکھی ہوئی ہے جس میں لوگ نہ صرف اپنے تاثرات درج کرتے ہیں بلکہ پاک فوج سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی قلم بند کرتے ہیں۔
بلوچستان سے جن لوگوں کو کور کمانڈر ہائوس لے جایا گیا جسے تحریک انصاف کے مشتعل کارکنوں نے تہس نہس کرنے کے بعد نذر آتش کر دیا تھا ان میں صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو بھی شامل تھے۔انہوں نے اس مقام پر ایک معصومانہ بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ جب نواب اکبر بگٹی نے احتجاج کیا تو ریاست نے انہیں قتل کر دیا لیکن عمران خان دو دن جیل میں رہنے کے بعد اپنے گھر میں مقیم ہیں۔یہ معصومانہ بات بہت گہری اور معنی خیز ہے۔ جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر نواب کا گھر بھی کسی زمان پارک میں ہوتا تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو اس وقت عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
باقی رہی ملک کی صورتحال تو ہر طرف عامیانہ قسم کی مسخرہ بازی ہو رہی ہے۔اسی دوران کھرب پتی جہانگیر خان ترین ایک نئی’’کنگز‘‘ پارٹی تشکیل دے رہے ہیں۔اس میں ان تمام بزدل لوگوں کو پناہ دی جائے گی جو زیادہ تر تحریک انصاف کو چھوڑ کر دربدر پھر رہے ہیں۔ مجوزہ’’کنگز پارٹی‘‘ کا خاص زور سائوتھ پنجاب پر ہوگا جہاں سیاسی لوٹوں کا عام طور پر جمعہ بازار لگا ہوتا ہے۔نئی کنگز پارٹی اس طرح کی جماعت ہوگی جو2002 میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ایما پر چوہدری شجاعت حسین نے بنائی تھی چونکہ ا سوقت ن لیگ زیر عتاب تھی اس لئے اس جماعت کے لوٹوں کو اس کنگز پارٹی میں یک جا کیا گیا تھا۔پھر اسی نئی جماعت نے انڈے اور ڈنڈے کے زور پر حکومت بنائی تھی۔اگرچہ جہانگیر ترین کی جماعت کو وہ مقام نہیں دیا جائے گا جو ق لیگ کو حاصل تھا۔اس کا مقصد اپنے خاص بندوں کا ایسا جتھہ تیار کرنا ہے جو حکومت سازی کے وقت کام آئے۔اس مقصد کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں ’’باپ‘‘کو قائم رکھا جائے تاکہ حقیقی محب وطن حکومت پر براجمان ہوسکیں۔ویسے بھی بلوچستان میں ہر سیاسی جماعت کا مقصد حکومت میں شامل ہونا اور اعلیٰ وزارتوں کا حصول ہے تاکہ مل جل کر اپنی کفالت اور خوشحالی کا اعلیٰ بندوبست کیا جا سکے۔بلوچستان میں ہمیشہ آل پارٹیز حکومت کی روایت رہی ہے۔اس وقت بھی تقریباً یہی صورتحال ہے۔جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو جس طرح 9مئی کے بعد ایم کیو ایم نے وفاداری اور اطاعت کا مظاہرہ کیا ہے یہ بات یقینی ہے کہ ان کو کراچی اور حیدرآباد میں وزارتوں کا حصہ دیا جائے گا اس سے یہ ہوگا کہ وفاق میں اعلیٰ حکمرانوں کو حکومت سازی میں آسانی ہوگی بلکہ سندھ میں آصف زرداری کیلئے کافی مشکلات پیداہوں گی۔آبادی میں اضافہ کے بعد ایم کیو ایم کی نشستوں میں اضافہ کا امکان ہے جس سے ہزماسٹرز وائس کے فارمولے پر کار بند رہ کر ایم کیو ایم مفید مہرہ ثابت ہوگی۔
جہانگیر ترین کی کنگز پارٹی سندھ میں ایم کیو ایم کو برقرار رکھنے اور بلوچستان میں مردہ باپ پارٹی میں جان ڈالنا ایک ہائبرڈ انجینئرنگ کا حصہ ہے جس کا الیکشن سے پہلے آغاز کر دیا گیاہے۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی کو اپنی اصل سائز میں لایا جائے گا۔اس منصوبے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرکز میں جوحکومت بنے وہ بہت کمزور اور ناتواں ہو اور جو بیساکھیوں کے بغیر چلنے کے قابل نہ ہو۔بعض وی لاگر نئی پولیٹکل انجینئرنگ کو ’’گریٹ ری سیٹ‘‘ کا نام دے رہے ہیں یعنی ملک میں بالادستی کسی اور کی ہو مرکز اور صوبوں میں تابع فرمان حکومتیں ہوں تاکہ کوئی بھی دم نہ مارسکے۔
اگریہ منصوبہ کامیاب رہا تو 2018 کے بعد جو وزراء اعلیٰ منتخب ہوئے تھے ان سے بھی نااہل لوگ لائے جائیں گے اسی طرح مرکز میں ن لیگ کی برائے نام حکومت بنے گی لیکن وزیراعظم کے لئے شہبازشریف جیسے کمزور اور حواس باختہ شخص کی ضرورت پڑے گی۔ان تمام اہداف کوحاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ عمران خان ابھی تک موجود ہیں اور منظر سے غائب نہیں ہوئے۔وہ اپنی جماعت پر حملہ کے بعد فائٹ بیک کریں گے۔ان کا دعویٰ ہے کہ لیڈروں کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا ووٹ بینک اپنی جگہ پر ہے۔اس ووٹ بینک کو توڑنے کیلئے حربے آزمائے جائینگے لیکن اگر حکومت کی نااہلی اسی طرح جاری رہی تو عمران خان کا ووٹ بینک برقرار رہے گا۔
عمران خان نے گزشتہ شب ایک زور دار بیان جاری کیا جس میں انہوں نے 9مئی کے جلائو گھیرائو کا نہ صرف دفاع کیابلکہ یہ تک کہا کہ لوگوں نے دیکھا کہ رینجرز جو کہ فوج کا حصہ ہیں انہیں اغواء کر کے لے جا رہے ہیں چنانچہ فوجی اداروں کے سامنے ہی احتجاج کے لئے جانا تھا اور کہاں جاتے۔عمران خان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ نہیں ہوا ہے اور وہ اپنے بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں۔تحریک انصاف کے ایک رہنما دوبارہ شامل ہوئے ہیں جبکہ مراد سعید،قاسم سوری،شاندانہ گلزار،یاسمین راشد،حماد اظہر،سینیٹر ہمایوں ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
اگر یہ لوگ ڈٹے رہے تو پارٹی تنظیمی طور پر دوبارہ سر اٹھائے گی۔البتہ عمران خان کے خلاف جو کچھ ہونے کا امکان ہے وہ ابھی نہیں ہواہے۔اعلیٰ حکمران چاہتے ہیں کہ انہیں 9مئی کے واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے کیونکہ اس کے بغیر عمران خان کی عوامی حمایت کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔اگر عمران خان کے خلاف انتہائی کارروائی کی گئی تو ساری دنیا چیخ پڑے گی۔انسانی حقوق کی تنظیمیں سخت اقدامات کو تسلیم نہیں کریں گی۔جس کی وجہ سے ساری دنیا میں پاکستان کے لئے مسائل کھڑے ہوں گے۔اگر حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کو سزائے موت یا عمر قید دے کر صورتحال کو اپنے قابو میں لایا جائے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ایک بھٹو کی پھانسی ابھی تک مقتدرہ کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔ایک اور لیڈر جس کا ڈومیسائل پنجاب ہے اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ اس ملک میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آسکے گا۔ملک کو حالت جنگ میں پہنچانے کا کام عمران خان نے باکمال خوبی کیا ہے۔اگر انہیں تنگ کیا گیا تو وہ مزید نامساعد حالات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔صحافی حامد میر نے خاص سیاق و سباق کے تناظر میں غیر ملکی تھنک ٹینکس کا یہ بیان وائرل کر دیا ہے کہ پاکستان کا وجود2030 تک نہیں رہے گا۔یہ بیان وائرل کرنے پر حامد میر پر سخت تنقید کی جا رہی ہے لیکن جو حالات ہیں اور جو زمینی حقائق ہیں ان کا ٹھنڈے دل کے ساتھ تجزیہ کرنا ناگزیر ہے۔اگر معاشی حالات یہی رہے۔اداروں کے درمیان تصادم اسی طرح جاری رہا عوام اسی طرح بھوکے ننگے رہے تو اس کا کوئی نہ کوئی منطقی نتیجہ تو نکلے گا کیونکہ حالات کو ٹھیک کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔حکمران ایسا کوئی کام نہیں کر رہے کہ عوام کو کوئی امید کوئی آسرا دکھائی دے۔یہ کہنا کہ مضبوط فوج ملک کو قائم رکھنے کیلئے کافی ہے یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن اگر بدحالی ،انتشار،خانہ جنگی اور ڈوبتی معیشت اسی طرح قائم رہی پھر کیا ہوگا۔
اس وقت بھی کئی وفاقی اور صوبائی اداروں کے ملازمین کو کئی ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوسکی صرف کرنسی نوٹ چھاپ کر کام چلانے سے نہ معیشت ٹھیک ہوگی نہ مہنگائی کنٹرول ہوگی۔بے روزگاری میں اضافہ کے بعد تمام بڑے شہروں اور ہائی ویز پر ڈاکے پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔اتنے گھمبیرمسائل کو اچھی سیاسی حکمت عملی اور دانائی سے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور یہ با بصیرت سیاسی قیادت ہی کرسکتی ہے لیکن سیاسی لیڈروں کو آزادانہ کام کرنے نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ہم معجزوں یاالمیوں کے منتظر ہیں۔