طوفان گزرنے والے ہیں
تحریر: انور ساجدی
پاکستان میں9مئی کو جو طوفان آیا تھا وہ گزر گیا ایک طوفان سمندرمیں ہے یہ بھی ایک دو دن میں تھم جائے گا۔حالات بہت جلد9مئی سے پہلے جیسے ہو جائیں گے۔عمران خان پر حکمرانوں نے یہ احسان کیا ہے کہ انہوں نے2018ءمیں تحریک انصاف میں جو کچرا بھرا تھا اسے واپس لے کر جہانگیرترین کی استحکام پارٹی میں جمع کر دیا ہے۔9مئی کے واقعات میں گرفتار تحریک انصاف کے90فیصد لوگ رہا ہوچکے ہیں جبکہ خدیجہ شاہ سمیت چند خواتین بھی شاید جلد رہا ہو جائیں۔اصل مسئلہ جناح ہاﺅس کے مور کا تھا جسے ایک غریب نوجوان نے چوری کیا۔ وہ قیمتی مور بھی برآمد ہوگیا ہے اور ملزم بھی پکڑا جا چکا ہے۔حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے کارکنوںکی رہائی کے سوا کوئی چارہ اس لئے نہیں ہے کہ 9مئی کے واقعات کی قیادت کرنے والے سارے لیڈر نئی کنگز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں لہٰذا اشک سوئی کےلئے چند غریب کارکنوں کو سزا دے کر جان چھڑا لی جائے گی۔ رہ گئے عمران خان تو ان کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔کیوں کہ آصف علی زرداری نے حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا تو اس کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنا پڑے گی۔ دنیا بھر میں شور مچے گا ہیومن رائٹس کا مسئلہ بنے گا۔ جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔اگرچہ عمران خان کو9مئی کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جا چکا ہے اور حکمرانوں نے ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن گرفتارہو بھی گئے تو چھوٹ جائیں گے جبکہ دیگر مقدمات کو عدالتوں میں ثابت کرنا پڑے گا جو ستمبر سے پہلے ممکن نہیں ہے کیونکہ عدلیہ میں تبدیلی ستمبر کے بعد ہی آئے گی۔ عمران خان پر جو سنجیدہ مقدمات ہیں وہ القادر ٹرسٹ، فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ کے تحائف فروخت کرنے کے ہیں۔یہ مقدمات عام عدالتوں میں چلیں گے اگر سزا ہوئی تو وہ نااہل ہو جائیں گے ورنہ سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔پانامہ کیس کے6سال بعد سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے واضح اشارہ دیا ہے کہ نوازشریف کو غلط طور پر سزا دی گئی تھی کیونکہ پانامہ اسکینڈل میں ساڑھے چار سولوگ شامل تھے لیکن مقدمہ صرف نوازشریف پر چلایا گیا جب کیس ثابت نہ ہوسکا تو اقامہ کو بہانہ بنا کر انہیں نااہل کیا گیا۔عدالت نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے پوچھا کہ محترم آپ 6سال کہاں سو رہے تھے۔سراج الحق صاحب جو کہ پانامہ کیس کے مدعی تھے غالباً اس وقت کی جنتا کے ہاتھوں استعمال ہوئے تھے۔اگر موجودہ دور میں عمران خان کو سزا دی گئی تو آنے والے وقتوں میں ضرور کہا جائے گا کہ عدالتوں نے انصاف نہیں کیا تھا۔اب جبکہ مور کا مسئلہ حل ہو گیا ہے تمام لوٹوں اور سیاسی گدھوں کو ایک جماعت بھی بناکر دی جا چکی ہے تو حکمرانوں میں وہ اضطراب نہیں رہا جو 9مئی کے روز پیدا ہوا تھا۔تحریک انصاف کے بڑے بڑے ڈاکوﺅں کو عزت مآب قرار دے کر ان کے اقتدار کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ۔سزا اسی مور چور نوجوان کو ملے گی جس نے جناح ہاﺅس سے دیگر قیمتی چیزیں چھوڑ کر صرف خوبصورت مور کو اٹھایا تھا۔
اگر حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو ایک بڑا تضاد نظر آتا ہے۔9مئی کے واقعات بلوچستان اور سندھ میں ہوتے تو ذمہ داروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی اور ان پر بکتر بند گاڑیاں چڑھا دی جاتیں چونکہ شرارتی رہنما اور نوجوان اپنے تھے اس لئے صلہ رحمی سے کام لیا جا رہا ہے۔یہ دوغلی پالیسی یہ بے رحمانہ اور ظالمانہ رویہ انگریز استعمار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ہمارے حکمرانوں کا رویہ اپنی ہی ریاست کے کچھ علاقوں کے بارے میں اور ہے اور کچھ علاقوں کےلئے مختلف ہے۔اس پالیسی نے آج تک نفرتوں کے فروغ کے سوا کچھ نہیں دیا۔مثال کے طور پر مسنگ پرسنز کی وجہ سے بلوچستان میں جو انسانی المیہ موجود ہے اس کے حل کے لئے آج تک کسی نے کچھ نہیں کیا۔ن لیگ کی واجب تکریم رہنما مریم نواز جب مسنگ پرسنز کے کیمپ گئی تھیں تو انہوں نے یہ مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنا وعدہ بھول چکی ہیں گزشتہ دو دہائی میں کئی کمیشن بنے اور اعلیٰ حکمرانوں نے کچھ متاثرین کو بلا کر انصاف کا یقین دلایا لیکن یہ مسئلہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔ایسے میں بلوچستان کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ لاہور کے مور بھی بلوچستان کے انسانوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
بی این پی کے قائد اختر جان مینگل نے اس مسئلہ پر بہت شور مچایا تھا اور حکمرانوں پر دباﺅ ڈالا تھا لیکن ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا بلکہ بی این پی مینگل نے جام کمال کی حکومت گرائی اور قدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کی مسند پر بٹھا دیا یعنی اس نے حکومت میں شمولیت اور حمایت کو ترجیح دی۔ایک تو جام کمال اپوزیشن اراکین کو ایم پی اے فنڈز دینے سے انکاری تھے دوسرے یہ کہ قدوس بزنجو کی طرح ایم پی اے فنڈز کے علاوہ مزید کروڑوں اربوں روپے دینے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے اپوزیشن نے ان کا تختہ کر دیا۔تبدیلی کے بعد ایم پی اے حضرات کو وافر مقدار میں فنڈز مل رہے ہیں انہوں نے جام کمال کے دور میں جو مشکلات دیکھی تھیں وہ نہ صرف ختم ہو چکی ہیں بلکہ اب ان کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ان حضرات کی وجہ سے بلوچستان میں کوئی میگا پروجیکٹ بن نہیں پاتا اور بیشتر وسائل ان کے کام آتے ہیں۔چلیں یہ بھی اچھی بات ہے کہ ایم پی اے حضرات بھی بلوچستان کے باشندے ہیں۔عوام نہ سہی ان کی خوشحالی کا بھی حالات پر اثر پڑے گا۔
مقتدرہ کے دو اکابرین سینیٹر انوار الحق کاکڑ اور محترم سرفراز خان بگٹی نے مسنگ پرسنز کا یہ حل نکالا ہے کہ ان میں سے اکثر نوجوان بیرن ملک چلے گئے ہیں اس لئے ان کی تعداد اتنی نہیں ہے جو بتائی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اختر مینگل نے جو فہرست حکام کے حوالے کی تھی دونوں حضرات اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔اس دعوے سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ تعداد کم ہو یا زیادہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اپنی جگہ موجود ہے اس المیہ نے بلوچستان کے مسئلہ کو بڑھاوا دیا ہے جس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔
حقائق بتا رہے ہیں کہ ہمارے حکمران گزشتہ 75 سالوں میں ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اگرچہ کاغذ پر چار صوبے موجود ہیں لیکن ان کا طرز عمل وحدانی ہے اور وہ ایوب خان کی طرح مرکز کو مضبوط کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔حالانکہ انہی اقدامات اور غلطیوں کی وجہ سے مرکز مضبوط نہیں ہوسکا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔آج پاکستان کا شمار معاشی طور پر دنیا کے آخری چند غریب ممالک میں ہوتا ہے۔عدلیہ کا یہ عالم ہے کہ اس کا دنیا میں155واں نمبر ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آپ غلطی پر غلطی کررہے ہیں اور ماضی کے غلط اقدامات کو دہرا رہے ہیں۔پوچھنے کی جسارت اس لئے نہیں کہ ملک میں ایک قہر آلود سنسر نافذ ہے۔فریڈم آف ایکسپریشن پر پابندی عائد ہے حتیٰ کہ سرکاری طور پر الطاف حسین اور عمران خان کا نام نہیں لیا جا سکتا۔عمران خان کے دور میں نوازشریف کا نام لینے پر بھی پابندی تھی۔21ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں یہ کون سے عاقلانہ اقدامات ہیں ۔عمران خان روزسوشل میڈیا پر قوم سے خطاب کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قوم کو آزادی دلا کر رہیں گے اور اپنے بیانیہ پر قائم ہیں۔تاہم بندہ میانوالی کاہے اور نیازی بھی ہے ، لہٰذا بھروسہ نہیں کہ وہ کب تک ڈٹے رہیں گے اگر قائم رہے تو ضرور کامیاب ہوں گے۔