عمران خان کا انجام؟ افغانستان میں مداخلت کا نتیجہ
تحریر: انور ساجدی
میرے ذہن میں تھا کہ افغانستان کے قوم پرست لیڈر سردار محمدداﺅد خان کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن صبح اچانک عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی خبر آئی جو سائفر کہانی میں سلطانی گواہ بن گئے ہیں اور انہوں نے ایک مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ164 کے تحت اپنا بیان حلفی ریکارڈ کروایا ہے۔ اعظم خان چند روز سے مسنگ تھے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سننے میں آ رہی تھیں لیکن سب کو یقین تھا کہ وہ سیکورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔یہ جو سائفر کا سلسلہ ہے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔اعظم خان نے عمران خان کا پورا کا کچا چٹھا بیان کر دیا ہے جو قسطوں میں منظر عام پر لایا جائے گا۔خان صاحب کے جو بھی راز تھے وہ اعظم خان نے سارے افشا کر دئیے ہیں۔جس سے یہی مقصد عیاں ہوتا ہے کہ خان صاحب کو درجنوں مقدمات میں بڑا مجرم بنایا جا رہا ہے جن میں غداری،ملک دشمنی، فوج کے خلاف بغاوت، قومی املاک پر حملے، کرپشن، بدعنوانی، نکاح پر نکاح، منی لانڈرنگ، فارن فنڈنگ، ملک ریاض سے رشوت کی وصولی وغیرہ شامل ہیں۔یعنی پوری کوشش کی جائے گی کہ خان صاحب کو رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا جائے تاکہ منظور نظر جماعتیں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں۔جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس پر پابندی کا ارادہ ترک کیا جا چکا ہے۔ وہ ایک عام جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے گی۔عین ممکن ہے کہ شاہ محمود قریشی اس کی قیادت کریں جو کہ ابتداءمیں ہی سلطانی گواہ بن چکے ہیں۔ان کے بیان حلفی کو انتہائی سیکرٹ رکھا جا رہا ہے تاکہ عمران خان انہیں پارٹی سے نہ نکال سکیں۔ایک اور سلطانی گواہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں وہ جیل میں جو ڈرامے کر رہے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔سرکار عالی مقام کے بندے تھے ہیں اور رہیں گے۔اگر عمران خان کو موقع ملا تووہ اپنی گرفتاری سے پہلے ان دونوں نام نہاد سیاسی پہلوانوں کو پارٹی سے نکال دیں گے۔خان صاحب چند وفا داروں کو پارٹی عہدوں پر لے آئیں گے۔آثار بتا رہے ہیں کہ خان صاحب پر بہت ہی برا وقت آ رہا ہے وہ کسی نہ کسی کیس اور کسی نہ کسی عدالت میں نااہل ہونے جا رہے ہیں۔بڑوں کی کوشش ہے کہ ان پر1999 کی طرح نوازشریف سے بھی زیادہ سخت مقدمات چلائے جائیں ۔پرویز مشرف کو اور کچھ نہ ملا تھا تو انہوں نے اپنے جہاز کے نام نہاد اغواءکے جرم میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نوازشریف پر مقدمہ چلا دیا تھا۔سرکاری وکیلوں کی عدالت سے ڈیمانڈ تھی کہ نوازشریف کو موت کی سزا دی جائے لیکن جج رحمت جعفری نے پرویز مشرف کی مخالف مول لے کر عمر قید کی سزا سنائی۔دوبارہ برسراقتدار آنے پر نوازشریف نے جج جعفری کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔اگرچہ نوازشریف کے مقابلے میں عمران خان کے ساتھ قابل وکلاءکی بڑی ٹیم ہے۔عدلیہ میں بھی ان کے ہمدرد موجود ہیں لیکن مقتدرہ ظاہر ہے کہ زیادہ پاور فل ہے۔اس لئے عمران خان نے9 مارچ 2022سے لیکر9مئی2023 تک جو کچھ کیا ہے اس کی لمبی چوڑی فہرست ہے۔
عمران خان پر مقدمات نوازشریف سے زیادہ جاندار ہیں اور مخالفین کو یقین ہے کہ وہ عبرتناک انجام سے دو چار ہو جائیں گے۔یقینی طور پر غداری کے کیس میں استغاثہ ڈیمانڈ کرے گی کہ انہیں سزائے موت دی جائے لیکن آئین کی موجودگی میں یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔عمران خان بھی وکلاءکی پوری فوج مختلف عدالتوں میں بھیج کر حکمرانوں کے منصوبے کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گے۔یہ تو معلوم نہیں کہ انتخابات کے بعد کونسی پارٹی برسراقتدار آئے گی لیکن یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ نگراں حکومت کے دور میں خان صاحب کے خلاف مقدمات تیزی سے چلائے جائیں گے۔اگر3 ماہ کے عرصہ میں انہیںسزا نہیں ملی تو نگراں حکومت کی مدت بڑھا دی جائے گی پھر نئی حلقہ بندیوں کا بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن انتخابات کو چھ ماہ تک طول دے گا تاکہ عمران خان کا معاملہ کلیئر ہو جائے۔گویا عمران خان کو کوئی غیبی امداد اور کوئی انہونی ہی بچا سکتی ہے۔عمران خان کی کمزور پوزیشن دیکھ کر ن لیگ پر غرور آ رہا ہے اور اس کو خوش گمانی ہے کہ پنجاب میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔رانا ثناءاللہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ صوبے میں قومی اسمبلی کی120 نشستوں میں سے ایک سو پر ان کی جماعت کامیابی حاصل کرے گی۔ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن باقی جماعتیں بھی مکھیاں مارنے نہیں آئی ہیں۔جس طرح پنجاب میں باقی جماعتیں کمزور ہیں ن لیگ بھی سندھ اور بلوچستان میں کوئی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگر اس نے پنجاب میں80 نشستیں جیتیں تو بھی اس کی مکمل نشستوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ نہیں ہو گی۔اس لئے انہیں حکومت سازی کے لئے کئی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی۔لہٰذا رانا ثناءاللہ کا دعویٰ صرف انتخابی نعرہ بازی ہی لگتا ہے۔اس تمام قصے میں حقیقت کیا ہے ؟۔یہی ہے کہ پاکستان میں آئین پر چلنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔75 سال بعد بھی اس ریاست میں آزادانہ انتخابات ناممکن ہیں۔قانون کی حکمرانی ہنوز ایک خواب ہے۔پارلیمان کی اس لئے کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اس کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ہر چند سال بعد ایک نام نہاد انجینئرڈ انتخابات کروائے جاتے ہیں اور ایک ہائبرڈ رجیم قائم کی جاتی ہے۔جیسا کہ1990-185،1997 اور2018 میں کروائے گئے اگر یہ حال قائم رہا تو یہ ریاست کبھی ترقی نہیں کر سکتی نہ ہی اس کی معیشت درست ہو سکتی ہے۔چند دن ہوئے کہا گیا کہ افغانستان ٹی ٹی پی کی مضبوط پناہ گاہ ہے۔کوئی پوچھتا نہیں کہ ٹی ٹی پی کی بنیاد کس نے رکھی تھی اور یہ کہ طالبان کس نے بنائے تھے اور کس طرح انہیں افغانستان کا قبضہ دلوایا گیا تھا۔آج ہماری مقتدرہ کی یہ تخلیق گلے پڑی اور اس سے حکمرانوں کے بقول ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے۔ضیاءالحق نے امریکی سازش کے تحت جو جنگ افغانستان میں لڑی اس کا نتیجہ افغانستان سے زیادہ پاکستان کے خلاف نکلا۔افغانستان تاراج تو ہوا لیکن غیر ملکی غلامی میں جانے کا امکان کم ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان کو اتار پھینکا لیکن پھر اچانک اشرف غنی کو نکال کر دوحہ معاہدے کے تحت ملک کا قبضہ طالبان کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے جو پاکستان کی بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنی معیشت بہتر بنا رہے ہیں چین کے تعاون سے تیل نکال رہے ہیں افغانستان میں کرپشن کم ہے۔اس لئے ریاست کے اخراجات بھی کم ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ اگر طالبان مستحکم ہوگئے تو ان کا سب بڑا ہدف پاکستان کو افغانستان جیسی ریاست بنانا اور اپنے برانڈ کا اسلامی نظام لانا ہے۔جوں جوں وقت گزرتا جائے گا طالبان کے موقف میں سختی آتی جائے گی۔وہ افغانستان کی کمزور حکومتوں کی نسبت ڈیورنڈ لائن کو کبھی سرحد تسلیم نہیں کریں گے۔اس لئے جگہ جگہ انہوں نے لوہے کی باڑ کو اتار پھینکا ہے۔جلد یا بدیر وہاں پر پختونستان کا مسئلہ بھی سر اٹھائے گا۔جب1973 میں سردارداﺅد نے اپنے کزن ظاہر شاہ کا تختہ الٹا تھا تو ظاہر شاہ کے اقتدار کو50 سال پورے ہو چکے تھے۔دنیا افغانستان کو ایک ماڈرن اور روشن خیال ریاست تسلیم کرتی تھی۔ سردار داﺅد نے قوم پرستی کی آڑ میں بارکزئی سلطنت کو زمین بوس کر دیا۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پشتونستان کا مسئلہ شدت کے ساتھ اٹھایا۔اجمل خٹک کو کابل بلایا اور ریڈیو کابل سے پشتونستان کے حق میں پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔داﺅد کی قوم پرستی کا یہ انجام ہوا کہ وہ اسلام آباد میں آکر اپنے ماضی سے تائب ہوگئے۔ صرف پانچ سال بعد1978 میں انقلاب ثور آیا جس میں سردار داﺅد کا پورا خاندان مارا گیا۔اگر اس انقلاب کو قائم رہنے دیا جاتا تو آج افغانستان اور پاکستان دونوں اس طرح بدحال اور غیر مستحکم ریاستیں نہ ہوتیں۔نور محمد ترکئی،ببرک کارمل،حفیظ اللہ امین اورڈاکٹر نجیب کے پے درپے قتل کے نتیجے میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا قتل عام ہوا۔آدھے افغان اپنا ملک چھوڑ کر دربدر ہوئے۔ پاکستان نے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے نام نہاد نظریہ کے ذریعے بارہا افغانستان میں مداخلت کی حالانکہ اس مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا۔
دنیا دیکھے گی کہ بہت کم مدت میں پاکستان طالبان کا اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی حیثیت اختیار کرے گا کیونکہ طالبان کے حامی ہمدرد اور نظریہ کے لوگ بہت بڑی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں جبکہ سرحد پار پاکستان کا کوئی طرف دار نہیں ہے۔اگر مولانا بزدل یا مصلحت پسند نہ ہوتے تو وہ اپنے 15سال پرانے اس بیان پر ٹھہرتےکہ ہمارے لوگ مارگلہ کے اوپر بیٹھے عقابی نظر سے اسلام آباد کو دیکھ رہے ہیں۔اگر مولانا جرات دکھاتے تو آج جو منظر نامہ ہے وہ بدل چکا ہوتا۔