اسلامی یونیورسٹی کا بھیانک اسکینڈل

تحریر:انور ساجدی
معلوم نہیں کہ پاکستان دنیا کا واحد اچھوتا اور نرالا ملک ہے یا روئے زمین پر اس سے بھی کوئی نرالا ملک موجود ہے یہاں ایسے ہولناک اور ہوش ربا واقعات وقوعہ پذیر ہوتے ہیں جن کی کوئی مثال موجود نہیں۔مثال کے طور پر پچھلے سال جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان کے سب سے بڑے نشتر اسپتال کی چھت پر5 سو انسانوں کے ڈھانچے ملے تھے۔اس بارے میں طرح طرح کی باتیں سامنے آئی تھیں ۔بعض لوگوں نے ان لاشوں کو مسنگ پرسنز کی لاشیں قرار دیا تھا پھر یہ کہہ کر یہ مسئلہ دبا دیا گیا تھا کہ اسپتالوں میں اسٹڈی کے لئے انسانی باڈی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ڈھانچے اس مقصد کے لئے لائے گئے ہونگے۔یہ پراسرار معاملہ آج تک ایک راز ہے۔نہ حکومت نے اس کی انکوائری کی نہ کسی انصاف پسند اعلیٰ جج نے اس کا نوٹس لیا۔
ابھی تین روز ہوئے اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کا ایک اندوہناک واقعہ سامنے آیا،یونیورسٹی کا چیف سیکورٹی گارڈ جو کہ ایک ریٹائرڈ افسر ہے کہیں جا رہا تھا تو پولیس پارٹی نے اسے روکا موصوف گھبرا کر رانگ سائڈ روڈ سے گیا لیکن پولیس نے دبوچ لیا۔ موصوف نشے کی حالت میںتھے اس کی گاڑی میں شراب ودیگر منشیات کی کافی مقدار بھی تھی۔اس کے پہلو میں ایک لڑکی بھی تھی جو کہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔پولیس نے جب سیکورٹی چیف صاحب کے سامان کی تلاشی لی تو اس کے موبائل کے اندر ساڑھے پانچ ہزار لڑکیوں کی قابل اعتراض اور فحش وڈیوز موجود تھیں۔شکر ہے کہ پہلی مرتبہ پنجاب پولیس نے یہ معاملہ موقع پر رفع دفع نہیں کیا ورنہ پاکستانی تاریخ کا یہ بدنما اسکینڈل کبھی منظر عام پر نہ آتا۔تفتیش پر معلوم ہوا کہ اسلامی یونیورسٹی مادر علمی نہیں رہی بلکہ یہ ایک گینگ کے قبضہ میں ہے جو اوباشوں ،بدمعاشوں ، غنڈوں،بلیک میلروں ،منشیات فروشوں پر مشتمل ہے جو لڑکیوں کوناجائز حرکتوں پر مجبور کرتا تھا اور پھر ان شرمناک واقعات کی فلم بندی بھی کرتا تھا تاکہ متاثرہ لڑکیوں کو ہمیشہ کیلئے بلیک میل کیا جا سکے۔سی آئی اے پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں یہ پاکستانی قوم کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ موصوف سیکورٹی چیف کا نام سید اعجاز حسین شاہ ہے۔یہ صاحب سات سال سے اسلامیہ یونیورسٹی میں سیکورٹی چیف کے عہدے پر تعینات ہے۔موصوف نشہ کی حالت میں پرائیویٹ کار میں ایک لڑکی کو لے کر جا رہا تھا۔ سامنے بہاولپور پولیس کی چیکنگ کو دیکھ کر رانگ سائیڈ گاڑی دوڑانے لگے۔پولیس نے پیچھا کر کے موصوف کو دبوچا۔تلاشی لینے پر گاڑی سے شراب، آئس،چرس اور جنسی طاقت بڑھانے کی ادویات پائی گئیں۔پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ وہ طالبہ کو لے کر رنگ رلیاں منانے ایک مکان میں جا رہے تھے۔موصوف کے پاس دو عدد اسمارٹ فون برآمد ہوئے جن میں پانچ ہزار پانچ سو لڑکیوں کی فحش ویڈیوز اور تصاویر تھیں۔دوران تفتیش پتہ چلا کہ بدمعاشوں کا یہ گینگ لڑکیوں کو فیل کرنے کی دھمکی دے کر اور اچھے مارکس کے عوض اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔سوشل میڈیا پر یہ اسکینڈل سیکورٹی چیف کی گرفتاری کے بعد زیرگردش تھا جبکہ سنجیدہ یا لاپرواہ میڈیا نے اس اسکینڈل کو چھپا دیا تھا۔اتوار کو روزنامہ ڈان نے اس کی ہوش ربا تفصیلات شائع کر کے یہ بتا دیا کہ پاکستان معاشی تباہی کے ساتھ اخلاقی طور پر کس پستی میں گر چکا ہے۔اس سے قبل قائداعظم یونیورسٹی کے بارے میں بھی بھی وقتاً فوقتاً نازیبا خبریں آتی رہتی تھیں لیکن کسی بھی یونیورسٹی میں رسوا کن اسکینڈل پہلی بار یونیورسٹی آف بلوچستان کا آیا تھا۔یہ اسکینڈل اسلامی یونیورسٹی کے اسکینڈل سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے لیکن بلوچستان کا اسکینڈل زیادہ پیچیدہ زیادہ افسوسناک اور لسانی تعصب اور گروہی انتقام کے پہلو بھی لئے ہوئے تھا۔بدقسمتی سے عزت کے خوف سے اس مسئلہ کو دبا دیا گیا لیکن جو کچھ ہوا وہ حقائق تو اپنی جگہ موجود ہیں۔اس اسکینڈل میں بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں طالبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔وائے افسوس کہ اس معاملہ پر مزید کچھ لکھا نہیں جا سکتا۔صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کی حیثیت ایک کالونی اور مفتوحہ علاقہ کی ہے۔لہٰذا یہاں پر ظلم وجبر کرنا تو بہت آسان ہے لیکن انصاف کرنا مشکل ہے۔ جس طرح نشتراسپتال میں رکھی باڈیز اور بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کو دبا دیا گیا اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی کے معاملہ کو دبا دیا جائے گا۔کوئی نام نہاد حکمران اور جعلی اشرافیہ نہیں چاہتی کہ ان کی ریاست کی جگ ہنسائی ہو۔ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے ایک دیہات میں طاقتور لوگوں نے خواتین کو برہنہ کر کے سر بازار گھمایا تھا لیکن مارشل لاء حکومت نے مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جبکہ یہ حکومت سیاسی نعرے بازی پر سیاسی کارکنوں پر کوڑے برساتی تھی۔پھر مشرف کے دور میں مختاراں مائی کا واقعہ ہوا۔یہ گینگ ریپ کا انتہائی گھنائونا واقعہ تھا۔جب اس پر زیادہ شور مچا تو جنرل مشرف نے یہ کہہ کر انصاف سے انکار کر دیا کہ پاکستان کی خواتین ایسے واقعات غیر ممالک میں سیاسی پناہ کے لئے خود ہی رونما کرتی ہیں۔مشرف کا منہ اس وقت کالا ہوگیا جب عالمی برادری نے اس کا نوٹس لیا۔مختاراں مائی کی کتاب شائع کی اور اقوام متحدہ میں اس کا پرجوش استقبال ہوا۔
حال ہی میں بالائی سندھ میں دو خواتین نے محبت کی شادی کی تو مخالف قبائل کے لوگوں نے پورے گائوں پر حملہ کر دیا۔دو آدمی قتل کر دئیے اور دو خواتین کو اغواء کر لے گئے ۔ابھی تک حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔یہ جو ریاست ہے اس کے طول و عرض میں روزانہ کی بنیاد پر جو ظلم و زیادتی ہوتی ہے وہ اکثر منظر عام پر نہیں آتی کیونکہ زیادتی کا نشانہ بننے والے لوگ غریب اورنادار ہوتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ کوئی حکومت اور کوئی عدالت ان کی شنوائی نہیں کرے گی۔پنجاب کے شہر قصور میں چند سال پہلے کئی درجن کمسن بچے ریپ کے بعد قتل کئے گئے تھے لیکن اس بیہمانہ عمل میں شریک طاقتور ملزمان کو بچایا گیا جبکہ ایک لڑکے کو پھانسی چڑھا کر معاملہ رفع دفع کر دیا جبکہ صحافی شاہد مسعود کو ڈارک ویب گینگ کی خبر نشر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ کمزور گورننس قانونی کی حکمرانی سے انحراف اور بالادست طبقہ کی منہ زوری کی وجہ سے پاکستانی سماج اور اس کی اقدار زمین بوس ہوگئی ہیں۔25 کروڑ کا یہ ملک جوآبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔اپنی سمت کھو بیٹھا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ ایک ناکام ریاست میں بدل رہا ہے۔اس ریاست کو کون کامیاب کہہ سکتا ہے کہ اس کی آمدنی چونی اور اس کا خرچہ دو روپے ہے اور اتنی بڑی ریاست کو غیر ملکی قرضوں ،امداد خیرات اور عطیات کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔حال ہی میں ایک خبر آئی تھی کہ پاکستانی پاسپورٹ کی تکریم دنیا کے آخری تین ممالک میں شامل ہے۔اس ریاست میں ہمیشہ بلکہ دائمی آمریت مسلط ہے جو آئین کی بالادستی اور خوشحالی کی راہ میں حائل ہے۔نواز شریف کے گزشتہ دور میں ملک کے میڈیا کے قتل عام کی جو کوشش ہو رہی تھی وہ اس کے بھائی کی حکومت کے آخری ہفتوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ جب حکومت نے پیمرا آرڈیننس جاری کیا ہے۔اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد آزاد میڈیا کا تصور معدوم ہو جائے گا کیونکہ خبروں کی آزادانہ اشاعت کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔لہٰذا ہر زاویہ سے دیکھیں ہر طرح سے دیکھیں ریاست کا مستقبل تابناک نہیں تاریک نظر آرہا ہے۔اس کے باوجود حکمران سیاسی انجینئرنگ اور الیکشن میں جھرلو برپا کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔
اسے کیا نام دیجیے کہ ن لیگ یہ خبر اڑا رہی ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نگراں وزیراعظم ہوں گے۔اگر ایسا ہوا تو کون اس حکومت کو مانے گا اور کون اس کے منعقدہ کردہ نام نہاد انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرے گا۔کیا ن لگ والے اتنے بے وقوف ہیں کہ وہ ایسا قدم اٹھائیں گے۔کیا زرداری اور مولانا گھاس چرنے گئے ہیں جو اس طرح کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں