دعوے، شیخیاں اور بڑھکیں

تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم شہبازشریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جو کہا جو دعوے کئے انہیں شیخی، بڑھکیں اور اپنے آپ میاں مٹھو کا نام دیا جا سکتا ہے۔موصوف نے کہا کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ وہ ایسا ظاہر کر رہے تھے جیسے پاکستان تمام مسائل سے باہر نکل آیا ہے اور وہ معاشی ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگیا ہے حالانکہ آئی ایم ایف نے صرف ایک ارب ڈالر کا قرض منظور کیا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر نگراں حکومت کے دور میں درآمدات کے لئے کافی ہیں۔اس کے بعد دوبارہ کشکول اٹھا کر ملک ملک اور نگر نگر جاکر دوبارہ بھیک طلب کی جائے گی۔شہبازشریف نے کہا کہ اگر ان کے دور میں ملک دیوالیہ قرار پاتا تو یہ ان کے ماتھے پر بڑا سیاہ دھبہ ہوتا اور اگر وہ مر جاتے تو قبر کے کتبہ پر لکھا جاتا کہ مرحوم شہبازشریف جن کے دور میں ملک دیوالیہ ہوا۔وزیراعظم صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ معاشی ابتری کو درست کرنے کے لئے ان کا کیا پلان ہے اور یہ کہ پاکستان کو گمبھیر معاشی،سیاسی اور سلامتی کی صورتحال سے کیسے بچایا جائے گا۔شہبازشریف کی تقریر وقت گزاری اور خانہ پری کے سوا کچھ نہیں تھی۔حکومتی دعوﺅں کے برعکس زمینی حقائق بہت ہی بھیانک اور افسوسناک ہیں ملک مسلسل دوسرے سال قدرتی آفات کا شکار ہے۔پچھلے سال سیلابوں سے تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے جبکہ اس سال بھی مون سون کے دوران دریائے سندھ میں ایک بڑا سیلاب آنے کاخطرہ ہے حکومت ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔اس کے پاس سطحی اعلانات،جھوٹے دعوﺅں اور بڑھک بازی کے سوا بچاﺅ کے لئے کوئی پلان نہیں ہے۔افسوس کہ اس صورتحال کے باوجود ن لیگ اسحاق ڈار کے نام پر شب خون مارنا چاہتی ہے۔اگر اسحاق ڈار کو ہی وزیراعظم بنانا تھا تو شہبازشریف میں کیا برائی تھی۔موصوف ہی کو وزیراعظم برقرار رکھا جاتا۔ لگتا ہے کہ ن لیگ کے اکابرین نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔وہ عمران خان کی عفریت بچنے کے بعد اپنے پرانے طور طریقوں پر لوٹ آئی ہے۔گزشتہ سال مارچ تک ن لیگ کی حالت دیدنی تھی۔اس سے پہلے زرداری بار بار کہتے تھے کہ اگر ان پر اعتبار کیا جائے تو وہ عمران خان کو گرا کر دکھا دیں گے لیکن ن لیگ اتنی خوف زدہ تھی کہ اسے کوئی اعتبار ہی نہیں تھا جب باجوہ کی آشیر باد سے اپریل میں زرداری نے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروا کر دکھا دی تو رفتہ رفتہ ن لیگ کے تیور بدلنے لگے حتیٰ کہ اس نے سوچے سمجھے بغیر اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم بنانے کی تگ و دو شروع کر دی۔ڈار والا آئیڈیا پارٹی کے سپریم لیڈر نوازشریف کے سوا کسی اور کا نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوازشریف چاہتے ہیں کہ آئندہ حکمرانی ان کے گھر میں رہے۔اسحاق ڈار ان کے سمدھی ہیں اور انہیں ان کے سوا کسی اور پر اعتماد نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کی تجویز کو شہبازشریف نے رد کرد یا کیونکہ شہبازشریف گروپ کا خیال ہے کہ اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف وزیراعظم نہ بن سکے تو اس عہدہ کا پہلا حق دار شہبازشریف ہیں۔نوازشریف خوفزدہ ہیں کہ اگر ان کے بھائی دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو اقتدار کی ہما ہمیشہ کے لئے ان کے خاندان کے سر سے اڑ جائے گی۔ادھر شہبازشریف کو وزیراعظم بناتے وقت زرداری نے قائل کیا تھا کہ اگر انہوں نے انکار کر کے یہ موقع کھودیا تو ایسا موقع پھر کبھی نہ ملے گا۔حالانکہ اس وقت بھی نوازشریف کا اصرار تھا کہ حکومت نہ لی جائے اور شہبازشریف کو وزیراعظم نہیں بننا چاہیے۔اس کے باوجود کہ یہ زرداری کا احسان ہے کہ اس نے عمران خان کے جبڑے سے ن لیگ کو نکال باہر کیا۔اس کے باوجود ن لیگ زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔اس کام میں انہیں حضرت مولانا کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔مولانا نوازشریف اور جی ڈی اے کے تعاون سے آئندہ انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں بھی مولاناکی حمایت سے جی ڈی اے کے تعاون سے لاڑکانہ کی نشست پر پیپلزپارٹی کو ہزیمت پہنچائی تھی۔گمان یہی ہے کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے تمام مخالفین یکجا ہو کر نہ صرف پیپلز پارٹی کو سندھ کی حکومت تشکیل دینے میں روکنے کی کوشش کریں گے بلکہ ان کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی کمی لا کر ن لیگ کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔مولانا کا خیال ہے کہ پختونخوا میں بھی ن لیگ کا تعاون ان کے لئے معاون ثابت ہوگا اور وہ وہاں پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔حالانکہ بظاہر ایسا ممکن نہیں۔صوبہ کے جنوبی اضلاع جہاں مولانا کا ووٹ بینک زیادہ ہے وہاں جب تک تحریک انصاف کے اثرات ختم نہیں ہو جاتے مولانا کو کھلا میدان ملنا مشکل ہے۔دیگر علاقوں میں بھی مولانا کے لئے کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔عام انتخابات سے قطع نظر ن لیگ اور مولانا کی کوشش ہے کہ ایسی نگراں حکومت آئے جسے وسیع اختیارات حاصل ہوں اور وہ تحریک انصاف کی بیخ کنی کے لئے دلیری کے ساتھ اقدامات کرسکے۔اسی لئے دونوں جماعتوں کی خواہش ہے کہ نگراں حکومت کو طول ملے کیونکہ اس کے بغیر تحریک انصاف کے خلاف مطلوبہ اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔جاتے جاتے شہبازشریف حکومت نے پیمرا کا بل منظور کر کے آزادی صحافت پر کاری وار کیا ہے۔اس قانون کا مقصد فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کی آڑ میں تمام میڈیا کی ناک میں نکیل ڈالنا ہے۔یہ کام عمران خان نے بھی پیکا آرڈیننس کے ذریعے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت جسٹس اطہر من اللہ نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ مقام افسوس ہے کہ شہبازشریف کی کمزور حکومت اور تو کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکی لیکن ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف کے قوانین کو ملا کر پریس فریڈم کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ضرورہوئی ہے۔نئے قانون کے مطابق حکومت جب چاہے کسی میڈیا ہاﺅس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔خود حکومت کو بھی پتہ ہے کہ یہ قانون کہاں سے بن کر آیا ہے اگرچہ حکومت باربار تردیدیں اور وضاحتیں کر رہی ہے لیکن یہ سارا ڈرامہ ہے۔
عمران خان کی معزولی کے بعد اقتدار ”سافٹ“ ٹیک اور کے ذریعے اپنے ہاتھوں میں لیا گیا تھا لیکن نگراں حکومت کے آنے کے بعد یہ ہارڈ ٹیک اوور ہوگا یہ خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں کہ ممکنہ عام انتخابات شفاف اور آزادانہ نہیں ہوں گے جس طرح 2013ءمیں افتخار چوہدری نے نتائج بدلنے کے لئے آر اوز بنائے تھے اور عمران خان کے دور میں آر ڈی ایس فیل کیا گیا تھا آئندہ انتخابات میں اس سے بھی کوئی بدتر صورت اختیار کی جائے گی۔ن لیگ کی قیادت میں ایک ایسی گماشتہ حکومت لائی جائے گی جس کا کوئی وقار نہیں ہوگا بلکہ وہ آنکھیں بند کر کے ہاں میں ہاں ملائے گی۔آثار بتا رہے ہیں کہ نام نہاد ”رولنگ کلک“ کو ملک کو درپیش بحرانوں کا کوئی ادراک نہیں ہے۔دہشت گردی،معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام اس کے پیش نظر نہیں ہیں۔اس کی دیرینہ لے پالک جعلی اشرافیہ ہمیشہ آنے والے حکمرانوں کو گمراہ کرتی رہتی ہے۔ سیاست دانوں کو لوٹ مارکا راستہ یہی جعلی اشرافیہ دکھاتی ہے۔
نوازشریف کے پہلے اور دوسرے دور میں ایکچند سیٹھوں پر مشمل اس جعلی طبقہ نے کھربوں روپے کے قرضے صرف 3فیصد سود پر حاصل کئے تھے۔عمران خان کے آنے کے بعد یہ اس سے نتھی ہوگیا تھا۔مشرف کے دور میں تو یہ طبقہ اسٹاک ایکسچینج کو کریش کر کے ایک دن میں80 ارب روپے لوٹ کر کھا گیا تھا جبکہ عمران خان کے دور میں کرونا کی جو ایڈ آئی تھی جعلی سیٹھوں نے 3 ارب ڈالر کی خطیر رقم چار فیصد سود پر حاصل کر کے ڈکاربھی نہیں لی تھی۔یہ اتنی بڑی رقم ہے جو آئی ایم ایف کے حالیہ پروگرام کے برابر ہے۔اس طبقہ کو اس قدر تحفظ حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کے اصرار کے باوجود اسٹیٹ بینک لٹیرے سیٹھوں کی فہرست جاری کرنے سے انکاری ہے۔اس رقم سے پنجاب کراچی اور پختونخوا کے چند سیٹھوں کو نوازا گیا تھا۔یہ جو رولنگ کلاس ہے یا جعلی اشرافیہ ہے اس کی تعداد صرف ایک فیصد ہے لیکن سارے وسائل پر یہی قابض ہے۔عمران خان ہو نوازشریف ہو یا زرداری اس طبقہ کی بالادستی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔اب تو یہ طبقہ زرعی زمینوں پر قابض ہو کر غریب ہاریوں کو برباد کرنے کا پلان بنا چکا ہے۔عنقریب یہ طبقہ ملک کی ایک تہائی زرعی زمینوںپر مبنی ایک کروڑ80لاکھ ایکڑ پر قبضہ حاصل کرے گا وسائل کا اتنا بڑا حصہ اس طبقہ کو دینے کے باوجود بلوچستان کا کوئی فرد اس نام نہاد اشرافیہ میں شامل نہیں ہے۔یہاں پر چند ایک افراد کو چند ارب روپے دکھا کر گماشتہ بنایاگیا ہے۔ریاست نے ضیاءالحق کے دور میں چند سرداروں اور قبائلی شخصیات کو وار لارڈ بنایا تھا پھر انہی میں سے کچھ ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے یہ طبقہ سینکڑوں افراد تک محدود ہے۔ وہ موجودہ حالات کے وار بینیفشری ہیں۔ان کے مفاد میں ہے کہ یہ صورت حال برقرار رہے جو کچھ سردار اور وار لارڈ جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب کچھ ڈرامہ ہے۔ان کا مفاد اور نان و نفقہ مخدوش حالات سے وابستہ ہے۔ان میں سے کچھ ادھر اور کچھ ادھر ہیں۔ان کی واحد قدر مشترک گلزبین کے خلاف کام کرنا اور اپنے عوام کو زندہ درگور کرنا ہے۔یہ انگریزوں کے فارمولا لڑاﺅ اور حکومت کرو کے آلہ کار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں