گولڈ اسمتھ لائن 1871، ڈیورنڈ لائن 1871، انڈو یورپین ٹیلی گراف لائنز 1863ء کا افغانستان و بلوچستان کے خلفشار میں کردار

تحریر: محمد صدیق کھیتران
بلوچ تاریخ اندرونی لڑائیوں قبائلی عداوتوں ، جھگڑوں، نفاق، عدم اعتماد ،شکوک شبہات ،محلاتی سازشوں اور ناچاقیوں کی تاریخ ہے۔ خلفیہ دوئم حضرت عمر بن خطاب کے دور میں عثمان بن عفان نے عبداللہ بن عامر بن کریز کو ہند کے ساحلی علاقے پر جاسوسی کیلئے حکم دیا۔جنانچہ عبداللہ نے حکیم بن جبل العدوی کی سربراہی میں ایک دستہ سمندر کے راستے روانہ کیا۔وہ ساحل کا دورہ کرکے 644 عیسوی میں واپس عربستان پہنچا۔اس کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا گیا۔حضرت نے پوچھا۔اس ملک کا کیا حال ہے۔حکیم نے کہا امیرالمومنین؛ ہم نے اس ملک کا اچھی طرح سے دورہ کیا۔جہاں پانی کم ،اجناس و پھل کم، چور بیباک ہیں، لشکر کم ہو تو ضائع ہوجاتا ہے اور زیادہ ہو تو بھوک سے مرجاتا ہے۔ یہ سن کر امیرالمومنین نے لشکر کشی کا ارادہ ترک کردیا "
بارھویں صدی عیسوی میں میر جلال خان رند اور اس کے بیٹے میر شہک رند نے مکران میں 44 قبائل کی طرف سے سرداری کی دستار اپنے سر لی۔ قبائل میں دوسرا بڑا قبیلہ لاشار تھا۔جو ایران کے سیستان سے ہجرت کرکے پنجگور، کولواہ اور کیچ میں آکر آباد ہوا۔ان قبائل نے سب سے پہلے اپنی قوت مجتمع کرکے منگولوں کو پنجگور سے نکالا۔منگول گھوڑوں اور مویشیوں کے ساتھ چلتے تھے۔ایک سپاہی کے ساتھ 7 گھوڑے ہوتے تھے۔
2 لاکھ 50 ہزار کے لشکر کے ساتھ ہلاکو خان نے اپنی ہمراہی میں 10 لاکھ جانورں کے ساتھ بغداد پر حملہ کیاتھا۔اتنے بڑے لشکر کیلئے گھاس بطورایندھن استعمال ہوتا تھا۔ایسے میں منگولوں کیلئے بھی دشت و بیاباں میں رہنا سودمند نہیں تھا اس طرح منگول بھی کسی بڑے خون خرابے کے علاقے سے نکل گئے۔ان دنوں قلات پر میروانیوں کی حکومت تھی۔رند و لاشار مکران و سیستان کی بڑی قبائلی و عسکری طاقت بن چکے تھے۔ دونوں قبائل نے 1650 کے آس پاس مل کرقلات پر قبضہ کرلیا اوراس کے حکمران میر عمر قمبرانی کو قتل کر دیا۔ گنداواہ ، مکران کی نسبت زیادہ سرسبز و شاداب ہوتا تھا۔ قلات پر قبضے کا مقصد گنداواہ کو اپنے تصرف میں لانا تھا جوکہ ریاست قلات کا سرمئی دارلخلافہ ہوتا تھا۔اس سے پہلے لشکر رند و لاشار خاران اور لسبیلہ پر بھی قابض ہوچکا تھا۔قلات سے دو راستے درہ بولان اور دریائے مولا سے گنداواہ جاتے تھے۔چنانچہ رند قبائل نے بولان کا راستہ اور لاشار نے مولا کا راستہ اختیار کیا۔ گنداواہ پر قابض ہونے کے بعد قبضہ گیری کا یہ سلسلہ دریائے سندھ کے کنارے سے ،کچھی،سبی ، کوہ سلیمان ، ڈیرہ جات ، کراچی، مکران اور بندر عباس تک پھیل گیا۔ اس دوران رند و لاشار کی اندرونی لڑائیوں نے سر اٹھایا۔ 30 سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے جس سے دونوں کی طاقت کمزور ہوئی۔آخر کار 1666 میں قمبرانی قبیلے کی ذیلی شاخ نے واپس قلات کو ان دوقبائل سے چھین لیا۔خان قلات کسی بھی صورت مکران پرایسی خودسر حکومت نہیں چاہتا تھا جس سے ریاست کی مرکزی حیثیت کمزور پڑ جائے۔1757 میں نصیر خان اول نے تیسرا حملہ مکران پر کیا۔جس پر میر دینار گچکی نے بھاگ کر تمپ کےقلعے میں پناہ لی۔وہ قلعے میں محصور ہوگیا تھا۔ تب اس نے اپنے بیٹے کو قندھار مدد کے لئے بھیجا۔افغانستان کے حاکم احمد شاہ ابدالی نے مداخلت کی اور مزید جنگ روکنے کا حکم صادر کیا۔جس وقت قاصد یہ پیغام لیکر تمپ پہنچا اس وقت نصیر خان کا دستہ دوپہر کا کھانا تیارکررہا تھا۔چنانچہ خان قلات کوتمپ قلعے کا محاصرہ چھوڑنا پڑا۔قلات پہنچنے پر احمد شاہ ابدالی نے خان کو قندھارطلب کرلیا۔جس کی فرمانروائی سے خان نے انکار کردیا۔اس کے بعد افغانستان اور بلوچستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔جنگ کا اختتام ایک معاہدے کی شکل میں ہوا۔معاہدے میں طئے ہوا آئندہ دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے اور ایک دوسرے حاکمیت و آزادی کا خیال رکھینگے۔مگر بلوچ سماج ہمیشہ سے اندرونی خلفشار کا شکار رہا ہے۔آج کے دن تک ایک مضبوط مرکزیت رکھنے والی سیاسی جماعت نہ بن سکی۔ اسی طرح ہر گاوں اور ہر گھرانے میں اندرونی انتشار اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔ ان دنوں ساحلی آبادی میں ایک نئے مزہبی مسلک نے زور پکڑا۔ جس سے سماج اور سیاست میں مزید تناو بڑھا۔ اس تناو کو کم کرنے کیلئے نصیر خان اول کو 9 عسکری حملے ریاست مکران پر کرنے پڑے۔وہ اس بحرانی کیفیت میں افغانستان کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کا انتظام کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ احمد شاہ ابدالی مکران کے ساحل پر قابض ہوکر اس کو اپنے ملک کے زیر تصرف لانا چاہتا تھا۔مگر نصیر خان اول کسی بھی طرح بلوچستان کے جغرافیہ کو ایک اکائی کے طور پر متحد رکھنا چاہتا تھا۔جب احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان سے پوچھا کہ بلوچستان کی حد کہاں تک ہے تو نصیر خان نے جواب دیا اس کی حد وہاں تک قائم ہے جہاں تک بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔
یہ عظیم بلوچ حکمران 1794میں 45 سال حکمران رہنے کے بعد وفات پاگیا۔وہ ایک سادہ مگر بہت ہی بہادر اور بردبار حکمران تھا۔اس اثنا میں ایسٹ انڈیا کمپنی جو تجارت کے بہانے برصغیر گھس آئی تھی اس نے بنگال میں 1757 کو سراج الدولہ کو شکست دے کر قبضہ جما لیا۔اگلے قدم کے طور پر کمپنی نے 1773 میں بنگال اور بہار کا ریونیو جمع کرنے کا ٹاسک بھی خود اپنے پاس رکھ لیا اور صوبے کا گورنر "وارن ہیسٹنگ” کو بنالیا۔دوسری طرف 1761 میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمدشاہ ابدالی ، مغل بادشاہ کو معاشی تباہی اور لوٹ مار سے دوچار کر کے واپس افغانستان چلا گیا اس سے پہلے وہ مرہٹوں کی قوت کو ملیامیٹ کر چکا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تباہ حال ہندوستان پکے پھل کی طرح برطانیہ کی جھولی میں آ گرا۔1795 تک انگریز پورے ہندوستان پر بغیر کسی بڑی جنگ لڑے قابض ہوگیا۔لہزا برطانیہ کی مداخلت کااگلامرکزبلوچستان اور افغانستان بنا۔ایک سال پہلے 1794 میں نصیر خان اول فوت ہوچکے تھے۔اگلے ہی سال ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک آمر
غلام سرور نامی شخص کو سیستان جاسوسی کی غرض سے بھیجا۔ایک دوسرے شخص "ہنری پوٹینگر” کو قلات و کچھی جبکہ "لیفٹیننٹ ایچ گرانٹ” کو لسبیلہ اورمکران روانہکیا۔اس کے ساتھ ہی برطانیہ کی حکومت نے ایک فوجی "جنرل جان میلکم” کوایران میں سفیر تعینات کیا۔ہنری پوٹینگر کراچی، لسبیلہ، مکران، ایران اور بغداد کا طویل سفر کرکے واپس 1810 میں بمبئی پہنچا۔اس وقت دنیا کی دوسری سپر طاقت فرانس ہوا کرتا تھا۔اس کے ایک فوجی جرنیل نپولین بوناپارٹ نے یکم جولائی 1798 کو مصر اور شام پر قبضہ کرلیا تھا۔تاہم برطانیہ کو فرانس کے بخار سے اس وقت نجات ملی جب نپولین نے 1812 میں روس پر حملہ کیا۔اس حملے میں فرانس نے 6 لاکھ کی افواج روانہ کی تھی۔جن میں سے صرف 30 ہزار واپس لوٹے اور ان میں سے بھی ایک ہزار نے فوجی کیمپ میں رپورٹ کی۔روس کی اس فتح نے برطانیہ کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا۔اس دن سے اس علاقے پر قبضے کیلئے گریٹ گیم شروع ہوئی ہے۔جس کا مرکز دو کمزور ترین قومیں افغان اور بلوچ ہیں۔جو آج 2023 تک اسی گیم کے قہر و عذاب کو جھیل رہی ہے۔بلوچستان کا گرم پانی کا ساحل، افغانستان کا جغرافیہ ، خطے کی تھیالوکلجیکل جہالت اور وسطئی ایشیا کے تیل و معدنیات کے ذخائر نے پوری سرمایہ دارانہ دنیا کی توجہ یہاں مرکوز کر رکھی ہے۔ وار انڈسٹری نے خطے میں ابال برقرار رکھنے کیلئے تمام جدید اسلحہ استعمال کرلیا ہے۔حتئی کہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کا روس پر حملہ کرنے کا مقصد بھی اس دور کی دوسری بڑی "باکو آئیل فیلڈ” پر قبضہ کرنا تھا۔ مگر روسی موسم کی شدت نے ہٹلر کی افواج کا انجام بھی نپولین کی طرح عبرت ناک بنایا۔ایسے میں برطانیہ اورسرمایہ دارانہ دنیا کے نئے لیڈر امریکہ کا بےچین ہونا یقینی امر تھا۔