بلینک چیک

تحریر: انور ساجدی
جاتے جاتے پی ڈی ایم کی حکومت کچھ زیادہ حواس باختہ ہو گئی ہے۔آرمی ایکٹ میں پیکا قوانین کو شامل کرنے کے بل کی منظوری کے بعد اتوار کو سینیٹ کا غیر معمولی سیشن بلا کر اس میں ایک عجیب و غریب بل پیش کیا گیا جو دہشت گردی ،اس میں ملوث تنظیموں اور ان کے خلاف سخت ترین کارروائی پر مشتمل تھا۔بل پیش کرنے کا مقصد9مئی جیسے واقعات برپا کرنےوالی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو قرار واقعی سزا دینا ہے۔یعنی پی ٹی آئی پر پابندی ۔اس اقدام سے لگتا ہے کہ حکومت میں شامل جماعتیں اور خاص طور پر سرکردہ جماعت ن لیگ آنے والے انتخابات کی صورتحال سے اچھی خاصی پریشان ہے۔ اس نے درپردہ محلاتی سازشوں کے ذریعے جس طرح پیپلز پارٹی کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے یا کر رہی ہے اس سے بھی اسے کافی پریشانی ہے۔ خاص طورپر جب سے ن لیگ کی قیادت نے یہ سنا ہے کہ تحریک انصاف نے ممکنہ تعاون کے لئے پیپلز پارٹی سے جو رابطے کئے ہیں وہ کچھ زیادہ حواس باختہ ہو گئی ہے۔ن لیگ کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ اگر اس نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر دیس نکالا دینے کی کوشش کی تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے۔خود تحریک انصاف کے بطور پارلیمانی پارٹی بقاءکا تقاضہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کا ہاتھ پکڑے۔ لیکن یہ موقع آنے کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2022 میں زرداری نے جس طرح تحریک انصاف کو توڑ کر اور دیگر جماعتوں کو یک جا کر کے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کر کے ناممکن کو ممکن بنا کر دکھایا بجائے اس کے کہ ن لیگ شکر گزار ہو وہ آئندہ اقتدار کےلئے ہر حد پار کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔حال ہی میں ”خواجہ سیالکوٹی“ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ نوازشریف نے توسیع کے لئے جنرل باجوہ کو بلینک چیک دیا۔جواب میں باجوہ نے اپنے لائے ہوئے72 سالہ نوجوان کو ہٹا کر ن لیگ کا قرض اتار دیا۔خیر وہ بات تو پرانی ہو گئی لیکن چندماہ قبل نوازشریف نے ایک اور بلینک چیک جاری کر دیا یہ جو چیک ہے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔نہ صرف قوم و ملک کو بلکہ خود نوازشریف اور ان کی جماعت بھی اس کی زد میں آ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ ووٹ کو عزت دو کا ایک اور نوحہ گانا شروع کر دیں۔ پارلیمنٹ کی بے توقیری 1973 کے آئین کے ساتھ کھلواڑ، آمرانہ قوانین کی منظوری اور نگراں حکومت کو وسیع اختیارات دینے کے بل کا پاس کرنا پاکستان کی برائے نام جمہوریت پر شب خون نہیں بلکہ دن دیہاڑے ڈاکہ ہے ۔ یہ جو میں حالات کی تصویر کشی کر رہا ہوں یہ آخری تحریر ہی ہو سکتی ہیں کیونکہ آرمی ایکٹ پلس پیکا قوانین کو پیمرا آرڈیننس میں شامل کرنے کے قانون کی منظوری کے بعد کوئی بھی صحافی، وی بلاگر،سوشل میڈیا کے سرگرم لوگ آزادانہ تحریروں اور تجزیوں کی جرات نہیں کر سکتے۔ بس ترمیم شدہ قانون پر صدر مملکت کے دستخط ثبت کرنے کی دیر ہے جس کے بعد یہ قانون پوری آب و تاب کے ساتھ روبہ عمل آئے گا۔اگر کسی نے غلطی سے بھی کوئی تنقیدی مکالمہ لکھا تو اس پر کروڑوں روپے کا جرمانہ اور 5سال قید بامشقت کی سزا لاگو ہو جائے گی۔کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان جس نئے دور میں داخل ہوا ہے اس میں تمام الیکٹرانک چینل ،پی ٹی وی بن گئے ہیں اور پرنٹ میڈیا جو پہلے سے جدید ٹیکنالوجی کی مار کی وجہ سے جان بلب ہے اپنے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کی حیثیت اختیار کر لیں گے جبکہ چین،روس ،ایران، سعودی عرب اور ترکی کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر سوشل میڈیا کو بھی لگام ڈال دی جائے گی۔ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی کے بعد خاص طور پر عمران خان کو لانے کے تباہ کن تجربہ کی روشنی میں ملک کے کلیدی معاملات کو براہ راست کنٹرول میں لے لیا گیا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کو لانے کےلئے جو ادارہ بنایا گیا ہے وہ وزیراعظم کی نگرانی میں نہیں ہوگا۔ قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے خاص طور پر بلوچستان اور فاٹا میں سونے اور تانبے کے ذخائر تھر کے کوئلہ سمیت گرینائٹ کے وسیع ذخائر کو بھی حکومتوں کی تحویل سے اٹھا لیا گیا ہے۔ساتھ ہی سرسبز پاکستان منصوبہ کے تحت تمام غیر آباد زمینوں کو بھی ڈائریکٹر کنٹرول میں لاکر ملکی پیداوار میں اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ جو ”مراجعت“ ہے اسے اپنے روحانی گرو امتیاز عالم نے جو ایک نام دیا ہے لیکن ہم ڈاکٹر جبار خٹک کی رائے کے منتظر ہیں کہ وہ اسے کیا نام دیں گے۔اسی طرح کاظم خان بھی اپنی طرحدار اور شاندار شہ سرخیوں کی طرح اسے کوئی بامعنی نام دے سکتے ہیں۔شکر ہے کہ صدر نے نئے آئینی اختیارات کے محضرنامے پر دستخط ثبت نہیں کئے ہیں اس لئے نئی مراجعت کو نام نہاد جمہوری نظام سے مزید کنٹرول اور گماشتہ ڈیموکریسی میں بدل دیا گیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمنٹ کے ادارے موجود ہیں مگر انہیں کوئی اختیارنہیں۔مثال کے طور پر روس کے ڈوما، چین کے پولٹ بیورو، ایران، سعودی عرب اور ترکی کے پارلیمانوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے آمر مطلق حکمران کی حکم عدولی کی جرات کر سکیں۔غالباً ن لیگ تو نئی صورتحال کے لئے تیار اور خوش ہے لیکن نئے نظام کی ساری افتاد پیپلزپارٹی پر پڑے گی جبکہ اے این پی، تحریک انصاف ، نیشنل پارٹی ، بی این پی اور دیگر جماعتیں بھی اس کی زد میں آئیں گی۔کیا بعید کہ آئندہ انتخابات جن کو قرعہ اندازی کہا جا رہا ہے کئی جماعتیں مل کر آئین کی بحالی کی تحریک چلائیں۔ آصف علی زرداری نے تو بڑی مشکل سے18 ویں ترمیم منظور کروا کر آئین کو 90 فیصد اصل حالت میں بحال کر دیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے جو خرابی پیدا کی ہے اسے دور کرنے کےلئے ایک بڑی ترمیم یا ترامیم کی ضرورت ہوگی۔پاکستان جس معاشی زبوں حالی کا شکار ہے اس نے موقع دیا ہے کہ سیاست دانوں کو ایک طرف رکھ کر اور آئین میں حسب منشا ترامیم کر کے ایسے نظام کی بنیاد رکھ دی جائے جسے بدلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔اگر دیکھا جائے تو محمد خان جونیجو نوازشریف ، ایم ایم اے اور عمران خان کو لانے کے تجربات سپر حکمرانوں نے خود کئے تھے ۔نئے حکمرانوںکی ناکامیوں کو وہ سیاست دانوں اور پارلیمانی نظام کے سر باندھ کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں بلکہ اسی طرح کے تجربات کر کے اپنے تئیں پاکستان کو طرح طرح کے بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔قوی امکان ہے کہ نئے تجربات کا حاصل وہی کچھ ہوگا جو گزشتہ تجربات کا ہوا تھا ۔ ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کے خلاف ایک عمومی رائے قائم کی گئی ہے جس کے نتیجے میں دوبارہ فیلڈ مارشل لاءایوب خان جیسا نظام قائم کرنا خواہش اول ہے۔ایوب خان نے بھی اپنے دور میں چند کارخانوں کے قیام کے بعد زرعی انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا لیکن1968 میں اپنے اقتدار کے آخری ہفتوں میں خزانہ خالی چھوڑ کر گئے تھے۔اگر ضیاءالحق کے دور میں افغان جنگ شروع نہ ہوتی تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے نہ تھے۔1998 میں ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد نوازشریف حکومت نے فارن کرنسی اکاﺅنٹ ضبط کر کے اقرار کیا تھا کہ خزانہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی خزانہ خالی تھا۔ ایک اور افغان جنگ نے ڈالروں کی بارش کر کے خزانہ بھر دیا تھا۔گزشتہ سال جب عمران خان رخصت ہوئے تو خزانہ میں صرف5 ارب ڈالر تھے۔بدقسمتی سے جو بنیادی عوامل ہیں ان پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ دہشت گردی ،انسرجنسی، منی لانڈرنگ، ڈالروں کی بلیک مارکیٹنگ، بے تحاشا کرپشن اور ذخیرہ اندوزی کو نظر انداز کیا جاتا ہے جو نام نہاد جعلی نو دولتیہ اشرافیہ ہے وہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہی ہے لیکن اسے مزید مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔بچے کھچے خزانہ کا منہ بھی ان کے لئے کھول دیا گیا ۔ کوئی سوچتا نہیں ہر ماہ افغانستان کو دو ارب ڈالر کون سے عناصر پہنچا رہے ہیں؟ٹیکس چوری کون کر رہا ہے؟اربوں ڈالر باہر کون بھیج رہا ہے؟ ان چیلنجز سے نمٹے بغیر کوئی بھی سپر مین یا سپر حکمران ریاست کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی ابتری سے نہیں نکال سکتا۔عجیب بات یہ ہے کہ ان بحرانوں سے نمٹنے کے لئے آئین اورپارلیمان کی قربانی طلب کی جا رہی ہے۔یہ ایسی قربانی ہے کہ اس کا نتیجہ تباہ کن ثابت ہوگا بلکہ ہلاکت خیز ہوگا۔
ملک کو کس طرف لے جایا جا رہاہے اس کا اندازہ اس نئے بل سے لگایا جا سکتا ہے جسے انسداد پرتشدد انتہا پسندی بل کا نام دیا گیا ہے۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جو بل پی ڈی ایم حکومت پیش کررہی ہے۔ حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس کو کمیٹی بھیجنے، اس پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اسی وقت اس کو پاس کر لیں گے۔ یہ ایک بہت ہی خوفناک بل ہے جس سے پرتشد انتہاءپسندی ختم نہیں ہو گی بلکہ بڑھے گی۔ بل کے سیکشن 5 اور سیکشن 6 ڈریکونین (خوفناک) ہیں۔ یہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا بل ہے۔ حکومت کو کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو ریاستی جبر کے ذریعے سے مائنس کرنے، Eliminate کرنے کی کوشش غلط ہے۔ اس سے آئندہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں/ لیڈرشپ کو مقابلہ کایکساں میدان ملنا اور صاف شفاف انعقاد بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ حکومت اس بل کو ہر صورت میں کمیٹی بھیجے اور قواعد و ضوابط کو پامال نہ کرے۔ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ، انگوٹھا چھاپ اور redundant نہ بنائیں۔
اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان میں پارلیمان کا خدا حافظ۔سیاست، انصاف اور اظہار رائے کا خدا حافظ اور یہ ملک دوبارہ ایوب خان اور ضیاءالحق کے دور میں داخل ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں