ناسور کا علاج اسپرو سے

تحریر: انور ساجدی

جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور سرفیروز خان نون انگریزوں کے تلوے چاٹ رہا تھا تو بھی گوادر میں بلوچ آباد تھے یہ کہنا کہ گوادر کو حاصل کرنے کا کریڈٹ فیروز خان نون کو جاتا ہے تاریخ سے زیادتی ہے گوادر جو کہ ہمیشہ بلوچستان کااٹوٹ انگ تھا خان قلات نے مسقط کے ایک شہزادے کو سیاسی پناہ کی خاطر دیا تھا یہ الگ بات کے شہزادے نے یہ علاقہ واپس نہیں کیا اس زمانے میں بحر بلوچ کراچی سے لیکربندرعباس تک محیط تھا تمام حقائق کو ایک طرف رکھ کر گوادر ایئر پورٹ کو ”ن“ سے منسوب کرناایک دانستہ اور سوچی سمجھی سازش ہے جس سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ علاقے پاکستان نے ڈالر دے کر خریدا تھا لہٰذا یہ ایک وفاقی علاقہ ہے حالانکہ گوادر برطانیہ عظمیٰ اور امریکہ بہادر کی مہربانیوں کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہوا تھا فیروز خان نون پنجاب کے ضلع سرگودھا سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کی تھی وہ پنجاب کے ان جاگیرداروں میں شامل تھے جن کے آباﺅ اجداد انگریزوں کےلئے گھوڑے پالتے تھے اس خدمت کے عوض انگریزوں نے ہزاروں ایکڑ ”گھوڑاپال“ زمین اپنے ان وفادار خادموں کو دی تھی فیروز خان نون اتنے وفادار تھے کہ انگریزوں نے انہیں سر کا خطاب دیا تھا وہ اکتوبر 1958ءتک وزیراعظم تھے جنہیں ایوب خان نے مارشل لاءلگاکر معزول کردیا تھا روایت ہے کہ وزیراعظم نون کو ان کے وزیر دفاع نواب اکبر خان بگٹی نے قائل کیا تھا کہ وہ گوادر کے بارے میں سلطان مسقط سے بات چیت کریں جو برطانیہ سے تازہ تازہ آزاد ہونے کے بعد تنگ دستی کا شکار تھے قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا تھا اور انہی کے دور میں بنگالی زبان کو لیکر بنگالیوں نے تحریک چلائی تھی 1953ءمیں جب جماعت اسلامی نے قادیانیوں کے خلاف خونریز تحریک چلائی تھی تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو ہٹاکر ان کی جگہ فیروز خان نون کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔
نون دراصل ایک پنجاب شاﺅنسٹ تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی سوانح حیات میں کیا ہے ان کے مطابق پاکستان انگریزوں نے پنجابیوںکےلئے بطور تحفہ قائم کرکے دیا تھا کیونکہ پنجابیوںنے انگریزی فوج میں بڑی خدمات سرانجام دی تھیں جن میں 1957ءکی جنگ آزادی کو کچلنا پہلی جنگ عظیم میں محاذ کے محاذ پر ترکوں کے خلاف لڑنا اور ترکوں کو مکہ مدینہ سے نکال دینا دوسری جنگ عظیم کے دوران یروشلم پر قبضہ کرنا وغیرہ شامل ہیں کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزی فوج نے خانہ کعبہ پر گولیاں چلائی تھیں جبکہ دوسری جنگ عظیم میں قبلہ اول ان کی گولیوں کی زد میں آیا تھا اسی سرزمین پر انگریزوں نے 1948ءمیں صیہونی ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی۔
میں نے کافی عرصہ پہلے ازراہ مذاق یہ کہا تھا کہ صوبہ جنوبی پنجاب اگر بنایا گیا تو وہ سرائیکی بیلٹ میں نہیں بنے گایہ سندھ و بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بنے گا یہ مذاق بالآخر حقیقت کاروپ دھارنے والا ہے کیونکہ بطور ریاست ناکامی کے بعد پاکستانی مقتدرہ کےلئے اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ اتنی آمدنی پیدا کریں کہ ایک سیکورٹی ریاست کے بھاری بھرکم اخراجات پورے ہوسکیں چنانچہ اس کےلئے انہیں نہ صرف بلوچستان کی آبی گزرگاہیں درکار ہونگی بلکہ بلوچستان کے جملہ معدنی وسائل کے بغیر اربوں ڈالر کمانا ممکن نہ ہوگا جیالوجنگل سروے کے مطابق ریکوڈک کے تانبے کے ذخائر میں سونے کی بڑی مقدار شامل ہے مقتدرہ نے سونے پر مشتمل وسیع ذخائر بیرک گولڈ نامی کمپنی کو بطورجرمانہ یا دیگر مفادات کی خاطر دےدیا جس کے ذمہ دار سر باجوہ یا کسی حد تک عمران خان ہیں ہوسکتا ہے کہ اس سودے میں دونوں مشترکہ پارٹنر ہوں بلوچستان کے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے آنکھیں بند کرکے جو انگوٹھا لگایا اس کے بھی اسباب ہونگے جہاں بلوچستان اسمبلی میں ریکوڈک کے معاملہ پر خاموشی اور بحث کے بغیر اس پر آنکھیں بند رکھنا شاید اوپر کے دباﺅ کا نتیجہ ہو چاغی کے ہی علاقہ میں سندک کے مقام پر تانبے اور سونے کے جو ذخائر تھے وہ پہلے سے چین کے تصرف میں ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی کیا آمدنی ہے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں میگنزاور لیتھیم کے ذخائر بھی ملے ہیں جن کی دنیا میں بہت زیادہ مانگ ہے آگے چل کر جو جو معدنیات ہیں انہیں وفاق کے تصرف میں لیکر مطلوبہ ملکی یا غیر ملکی کمپنیوں کو الاٹ کیا جائے گا ایک بات تو صاف نظر آرہی ہے کہ گڈانی سے لیکر جیونی تک تمام ساحلی پٹی اس وقت وفاق کی تحویل میں ہے چاہے جہاں آئل ریفائنری لگے یا دیگر غیر ملکی سرمایہ آئے اس زمین کی انچ انچ کو استعمال میں لایا جائےگا وہ وقت دور نہیں جب ہنگول نیشنل پارک معدوم ہوجائے گا اس میں رہنے والے چرند پرند اور قیمتی حیات نایاب ہوجائے گی1973ءکے آئین کے مطابق سمندر وفاقی سبجیکٹ ہے لیکن ساحل صوبہ کی ملکیت ہے لیکن پورٹ ، ایئر پورٹ اور قومی تنصیبات کے نام پر پورے ساحل کو بھی وفاق نے عملاً اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے طویل ساحل کے پانیوں میں ایک قیمتی خزانہ بھی ہے جو سمندری حیات پر مشتمل ہے اگر یہاں پر ماہی گیری کے حقوق چین، جاپان اور تائیوان کو فروخت کئے جائیں تو کئی ارب ڈالر کی آمدنی ہوسکتی ہے۔
جوں جوں معاشی حالات بگڑتے جارہے ہیں 1973ءکے آئین کو ایک طرف رکھ کر صوبائی خود مختاری کو پس پشت ڈال کر ریاست کو وحدانی طرز میں بدلا جارہا ہے یہ کام اس قت مکمل ہوگا جب جلدیابدیر 18 ویں ترمیم کا خاتمہ کردیا جائے گا اگر یہ ترمیم ختم ہوگئی تو ملک میں عملاً دوبارہ ون یونٹ کا نظام قائم ہوجائے گا این ایف سی ایوارڈ کو منسوخ کرکے تمام وسائل وفاق اپنے تصرف میں لے گا اور صوبوں کو عطیات یا خیرات کے طور پر کچھ رقم دے گا کافی عرصہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں اس بات پر اتفاق ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی موجودگی میں وفاق نہیں چل سکتایہی وجہ ہے کہ ایک طرف وزیرستان دوسری جانب سندھ کے علاقہ تھرپارکر اور تیسری طرف بلوچستان کے معدنی وسائل کو اپنے ہاتھ میں لیا جارہا ہے حالانکہ 1973ءکے آئین کے مطابق جملہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں تھرپارکر میں اس وقت کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ چل رہا ہے جس میں سندھ حکومت پارٹنر ہے لیکن جو دیگر منصوبے آرہے ہیںوہ وفاق اور غیر ملکی پارٹنرز کی ملکیت ہونگے اسی طرح کارونجھر کے گرینائٹ کے عظیم ذخائر کو بھی بڑے پیمانے پر مارکیٹ کرنے کا منصوبہ ہے آئین میں حالیہ ترامیم کے بعد 1973ءکا آئین عملاً معطل ہے اور وفاق اس پر عملدرآمد سے انکاری ہے یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں صوبائی اسمبلی کے احکامات صادر کئے لیکن وفاق نے یہ احکامات رد کردیئے آرمی ایکٹ کے تحت سویلین پر مقدمات کے معاملہ میں بھی ایسا ہوا اب جبکہ آر می ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم ہوگئی ہیں تو ان کی وجہ سے آئین میں دی گئی بنیادی حقوق معطل ہوگئے ہیں اس سے قبل پیمرا کے ایکٹ میں تبدیلی اور اس میں پیکا کی دفعات کے باعث آزادی صحافت ختم ہوگئی ہے بنیادی ترامیم کے بعد اس وقت پاکستان بہ حیثیت ریاست ایک دو راہے پر کھڑا ہے یعنی وہ نہ جمہوری نہ پارلیمانی اور نہ آئینی ریاست ہے ایک ایسا ملاجلا نظام ہے کہ اس میں سویلین بالادستی ختم ہوگئی ہے بدقسمتی سے آئین میں اس طرح کی ترامیم میں پیپلز پارٹی نے خاص تابعداری دکھائی ہے جو 1973ءکے آئین کی خالق ہے جبکہ 18 ویں ترمیم آصف علی زرداری کی کاوشوں کا حاصل ہے نہ جانے ایسا کیا ہوگیا؟ کہ پیپلز پارٹی نے جو درخت لگایا تھا اپنے ہاتھوں سے اس کی بیخ کنی کررہی ہے حالیہ ترامیم کا نتیجہ تمام سیاسی جماعتوں اور قوتوں کے خلاف نکلے گا اور کوئی دن آئے گا جب یہ جماعتیں مل کر دوبارہ آئین کی بحالی کا مطالبہ کریں گی اور ان کی بات سننے والا کوئی نہیں ہوگا سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد بنیادی حقوق شہری آزادیوں اور اظہار رائے پر ایسے حملے ہونگے جو ضیاﺅالحق کے سوا کسی نے نہیں کئے تھے حالانکہ ملک کو مضبوط بنانے کےلئے یہ قوانین ضروری نہیں کیونکہ اصل خرابی اس نظام اور نام نہاد اشرافیہ کی پالیسیوں میں ہے جو ملک کی ہڈیاں تک کھارہے ہیں۔
یہ جو ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کےلئے حکومتی منصوبے ہیں سب دعاگو ہیں کہ یہ کامیاب ہوجائیں لیکن معاشی ماہرین کے بقول فی الحال ان کی حیثیت شیخ چلی کے خوابوں کے سوا کچھ نہیں جب 75 سالہ ریاستی ڈھانچہ زمین بوس ہوگیا ہے تو ایسے لوگ اور ماہرین کہاں سے آئیں گے جو مستقبل کے عظیم منصوبوں کو کامیاب کرکے پاکستان کو ایک خوشحال ریاست بنائیں گے اتنا سرمایہ کہاں سے آئے گا جو زیر زمین دولت کو باہر نکالنے کا موجب بن سکے۔
یہ ہوشربا رپورٹ غوروفکر کا متقاضی ہے کہ ملک کے کلرکوں نے سیٹھوں سرمایہ داروں اور اشرافیہ سے چار گنا زیادہ ٹیکس دیا ہے بھلا غریب کلرکوں کی قلیل آمدنی سے اتنی بڑی ریاست کیسے بحرانوں سے باہر آسکے گی جو عناصر کینسر کے باعث ہیں آپریشن ان کے خلاف ہونا چاہئے ریاست کا مرض ناسور بن چکا ہے اس کا علاج اسپرین سے ممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں