سعودی عرب کا حج منسوخ کرنے پر غور

اداریہ
کورونا وائرس کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہونے پر سعودی حکومت نے رواں سال حج منسوخ کرنے پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے ، باضابطہ فیصلہ ایک ہفتے میں کر لیا جائے گا۔کورونا ایسی وباء ہے جس نے لوگوں سے عبادت گاہیں خالی کرا لی ہیں۔سبب جانتے ہیں۔ہر صاحب استطاعت مسلم پر حج فرض ہے ۔ دنیا بھر سے 20لاکھ سے زائد مسلم ہر سال فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب پہنچتے ہیں ۔ سعودی حکومت کو اس موقع پر خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے۔عمرہ کرنے والے زائرین اس کے علاوہ ہیں۔ سعودی حکام اس حوالے سے باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیںاور مختلف پہلوؤں پرغور کیا جارہا ہے۔کورونا کے پیش نظر مارچ میں تمام ممالک سے کہہ دیا تھا کہ وہ حج پلان کے حوالے سے توقف کریںاور عمرہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اگر حج منسوخ نہ کیا گیا تب بھی حاجیوں کی تعداد انتہائی محدود ہوگی یہ معمول کی تعداد کا زیادہ سے زیادہ 20فیصد تک ہو سکتی ہے۔اور اس کے لئے بھی ایس او پیز کی پابندی لازمی ہوگی۔عمر رسیدہ افراد پرپابندی ہوگی انہیں رواں سال حج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یاد رہے کہ حج کی ادئیگی کے لئے دن مقررہیںان تاریخوں کو آگے پیچھے نہیں کیا جا سکتا۔کورونا سے بچاؤکی اہم اور بنیادی شرط دو افراد کے درمیان کم از کم 6فٹ فاصلہ رکھنا ہے۔ اس پر عملدرآمد اسی وقت ممکن ہے جب حجاج کی تعداد معمول سے بہت کم ہو۔سعودی عرب کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں مگر کورونا کسی شخص کو اپنی لپیٹ میںلیتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا مذہب کیا ہے؟ یا اس کی نیت کیا ہے؟وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ کس نے ایس او پیز پر عمل کیا ہے اور جہاں اسے کوئی کمی نظر آتی ہے وہ حملہ کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا۔ایران میں بھی کورونا نے دوبارہ سر اٹھایا ہے لاک ڈاؤن کا امکان ہے۔
پاکستان میں بھی کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظراگلے روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے میڈیا کے توسط سے عوام کو آگاہ کیا ہے کہ اگر موجودہ رفتار میں کمی لانے کی کوشش نہ کی گئی تو جولائی میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 12لاکھ تک ہو سکتی ہے۔یہ صورت حال ہر لحاظ سے خطرناک سمجھی جانی چاہیئے،حکومت سندھ نے قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگانے کے اجازت نامے منسوخ کر دیئے ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ کورونا سے بچاؤ اور معیشت اور روزگار کا پہیہ دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہے۔انہوں نے عوام کو ایک بار پھر مشورہ دیا ہے کہ ماسک پہنیں اس سے کورونا سے بچاؤ کے امکانات50 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہوگا لیکن ایس او پیز پر عمل درآمد کے لئے سختی کی جائے گی جہاں کیسز زیادہ ہوں گے وہ علاقے سیل کر دیئے جائیں گے۔رواں ماہ روزانہ ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ٹیسٹ ہو جائے گی۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی پاکستان میں کورونا ٹیسٹ کی قلیل تعداد پر خبردار کیا گیا تھا۔یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ عوام نے ابھی تک کورونا کو ایک خطرناک وباء کے طور پر نہیں لیا۔کچھ اسے پروپیگنڈا سمجھتے ہیں بعض کہتے ہیں جنگلی جڑی بوٹیاں کھائی ان کا قہوہ پیئیںان کا سوکھا پاؤڈر بنا کر کھا لیں ۔الغرض عوام سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ماسک پہننا انہیں گوارہ نہیں۔جس ملک کے عوام اس حد تک غیر سائنسی سوچ کے مالک ہوں وہاں سب کچھ ،بلکہ بدترین منظر بھی سامنے آ سکتا ہے ۔’’اَللہ میرے منہ میں خاک‘‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔کورونا اس ذہنیت کو پہلے اذیت ناک صورت سے گزارتا ہے اور پھر تہہ خاک پہنچا کر دم لیتا ہے، اور جنازے میں بھی کوئی شریک نہیں ہوتا۔احتیاط ضروری ہے آسان ہے،سستی ہے لیکن کورونا کی لپیٹ میں آگئے تو لواحقین کوآکسیجن سلنڈر کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کے علاوہ ہزاروں روپے بھی خرچ کرنے ہوں گے، اسپتال کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔کورونا کے معاملے میں جاہلانہ رویہ درست نہیں۔
امریکی سیاست اور معیشت کے علاوہ نسلی فسادات کا بے قابو ہونا عوام اپنے سامنے رکھیں۔کورونا نے سماجی رویئے اور ہیلتھ کیئر سسٹم کے حوالے سے کئے جانے والے تمام دعوے بھی بے نقاب کر دیئے ہیں۔ پاکستان میں کورونا سے بچا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے اپنی دقیانوسی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا ۔ اب تو سعودی عرب حج منسوخ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔یہ بلاوجہ نہیں سعودی عرب میں کورونا متأثرین کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہے۔حقائق کو جھٹلانا نقصان دہ رویہ ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ مفاد عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ان فرسودہ خیالات کے حامل افراد سے سختی سے پیش آئے۔ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اگرلو اور سردی سے بچنے کے لئے اگر منہ ڈھانپا جا سکتا ہے تو ہلکے پھلکے ماسک کا پہننا کوئی دشوار کام نہیں۔جیسے ہی ماسک کے بغیر گھروں سے نکلنے والے شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے گھر واپس جانے پر مجبور کرتے نظر آئیں گے لوگ ماسک پہننا شروع کر دیں گے۔حکومت معذرت خواہانہ انداز گفتگو ترک کرے کھل کر دو ٹوک الفاظ میںحکمنامہ جاری کرے،خلاف ورزی کرنے پر کسی سے رعایت نہ برتی جائے ۔ یہ عوام کی زندگی بچانے جیسا بنیادی فرض ہے اس سے آنکھیں چرانا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے اس پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے کوئی لاپروائی نہ کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں