حال دل
تحریر: انور ساجدی
انوارالحق کاکڑ باپ پارٹی کے حقیقی بانی بلوچستان میں ریاست کے اہم ترین ستون ہیں۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جنہیں اجاگر کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔وہ لندن سے واپسی پر ریاست کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔اس مسئلہ پر انہوں نے کافی غور وفکر کیا ہوگا اور اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ ریاست کے بغیر آگے بڑھنا سیاست میں قدم رکھنا اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچنا ناممکن ہے چنانچہ ریاست کے ساتھ جانے کے شعوری فیصلے کے بعد وہ کافی کارآمد ثابت ہو گئے کیونکہ لندن میں قیام کے دوران انہیں پاکستانی طرز سیاست کا عمیق طریقے سے جائزہ لینے کا موقع ملا تھا۔انہوں نے بطور پہلی جماعت ق لیگ کا انتخاب کیا تھا لیکن یہ جماعت آخری دموں پر تھی اور ریاست نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔اس لئے انوارالحق کاکڑ اس کے ٹکٹ پر انتخاب نہ جیت سکے۔وہ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ انتہائی اہم شخصیات کو سیاست پر ان کی گفتگو اور لیکچرز بہت بھاتے تھے جب ان کی صلاحیتیں زیادہ اجاگر ہوئیں تو انہیں بلوچستان کے بارے میں غیر سرکاری مشیر بنایا گیا کیانی کا توپتہ نہیں لیکن اس کے بعد آنے والا شاید ہی کوئی آرمی چیف ہو جو انوارالحق کاکڑ کی رائے اور تجاویز سے مستفید نہ ہوا ہو۔جنرل باجوہ پہلے سربراہ تھے کہ انہوں نے کاکڑ صاحب کی علمیت ، سیاسی فکر اور دیگر صلاحیتوں کو بھانپ کر ان کی قدر کی۔ باپ پارٹی کو اسلام آباد تک لے کرجانے، سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے اور بلوچستان حکومت کی تشکیل میں کامیابی سب کچھ کاکڑ صاحب کے کمالات ہیں۔بے شک پنجاب کے عام لوگ انہیں زیادہ نہ جانتے ہوں لیکن بلوچستان کا ہر شخص ان سے واقف ہے۔ان کے دادا نورالحق صاحب پہلے باقاعدہ ڈاکٹر تھے جو سول اسپتال قلات میں تعینات ہوئے۔قلات کے آخری باضابطہ خان احمد یار خان ان کے زیرعلاج رہے تھے اور وہ ان کے دانتوں کی صحت کا خیال رکھتے تھے۔اس طرح ان کے قریبی تعلقات قائم ہوگئے وہ قلات میں شاہی خاندان کے رکن کی حیثیت رکھتے تھے۔انوار الحق کے والد لوپروفائل میں رہے لیکن اپنے صاحبزادے کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کر دیا۔اگرچہ ان کے پاس ڈگریاں عام ہیں لیکن دیگر صلاحیتیں ڈگریوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ انوارالحق کی ضرورت ریاست کو اس لئے پڑی جب 2005 میں بلوچستان کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے خاص طور پر2006 کے بعد جب ریاست کو ایک نئی ڈاکٹرائن کی ضرورت پڑی تو انوارالحق کاکڑ اس مقصد کے لئے زیادہ کارآمد شخصیت تھے۔جو بھی ریاستی پلان بنے ان کے خالق انوارالحق کاکڑ ہی تھے کیونکہ وہ نہ صرف بلوچستان کو اچھی طرح جانتے تھے بلکہ ”حال دل“ سے بھی واقف تھے شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کاکڑ صاحب نے کتابوں کی جنت لندن میں قیام کے دوران گوریلا تحریکوں کے بارے میں ہر کتاب پڑھ ڈالی تھی۔ انہوں نے ان حکمت عملیوں کا تجزیہ بھی کیا تھا جن کے ذریعے دنیا کے متعدد ممالک نے انسرجنسی اور گوریلا کارروائیوں کا سدباب کیا تھا۔آج بھی کاکڑ صاحب کے گھر میں کتابوں کا جوذخیرہ موجود ہے وہ سیاست،قومی ریاستوں،آزادی کی تحریکوں اور اس طرح کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔انہوں نے فلسطین کی جنگ آزادی، تامل ٹائیگرز کی جنگ پر بھی کافی مطالعہ کیا ہے۔اگرچہ اپنے دادا کی طرح انوارالحق کا بھی عملی زندگی میں بلوچوں سے گہرا تعلق رہا ہے لیکن اس تعلق کو انہوں نے کبھی مثبت انداز میں نہیں دیکھا البتہ ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ جب وہ ریاست سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے اپنی وابستگی کو کبھی چھپایا نہیں اور انہوں نے کبھی دوغلی پالیسی اختیار نہیں کی۔وہ بلوچوں کی حالیہ مسلح تحریک کے مخالف ہیں تو برملا مخالف ہیں۔معلوم نہیں کہ یہ ریاست سے ان کا عشق ہے یا جنون۔وہ اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے رہے۔ یہ غالباً ان کا ہی پلان ہے کہ ایک طرف سیاسی طریقے استعمال کیے جائیں تو دوسری جانب ریاست قوت کا مظاہرہ کرے ۔مثال کے طور پر وہ مسنگ پرسنز کی تعداد کا جو دعویٰ ہے اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو بلوچ گوریلے ہیں ان کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں ہے جبکہ ریاستی فورسز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔یعنی ان کا فلسفہ یہ ہے کہ بڑی مسلح قوت چھوٹی قوت پر غلبہ پاتی ہے جیسے کہ سری لنکا میں ہوا ۔
سیاسی ڈاکٹرائن کے تحت انہوں نے ریاست کو مشورہ دیا کہ ایک لوکل سیاسی جماعت قائم کی جائے تاکہ حکومت ایسے لوگوں کو منتقل کی جائے جو بوجوہ ریاست کے وفادار اداروں کے طرف دارہیں۔باپ پارٹی اسی تخیل کا نتیجہ ہے۔عمران خان کے بعد جب فیصلہ ہوا کہ باپ پارٹی کو ختم کیا جائے تو انوارالحق کاکڑ آڑے آئے حالانکہ کہہ دیا گیا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے ایک کا انتخاب کرو۔ باپ پارٹی کے کئی لوگ پیپلز پارٹی میں چلے گئے جبکہ خود انوارالحق کاکڑ،جام صاحب کو لے کر مریم نواز اور شہبازشریف سے ملنے چلے گئے۔اسی دوران وہ طاقتور حلقوں کو قائل کرتے رہے کہ اگر باپ پارٹی ختم کی گئی تو بلوچستان کی حکومت ایسے لوگوں کے پاس چلی جائے گی جو ریاست کے حقیقی وفادار نہیں ہیں۔بالآخر ان کی رائے تسلیم کی گئی انوارالحق کی پہلی سیاسی جہت اس وقت کامیاب ہوئی جب 2018 میں وہ سینیٹ کے چیئرمین کے امیدوار بن گئے تاہم آصف علی زرداری کی مداخلت کی وجہ سے انوارالحق کے بجائے صادق سنجرانی چیئرمین بن گئے۔صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو بھی انوارالحق نے اپنے مقتدر دوستوں کے ذریعے مل کر ناکام بنایا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ میر حاصل خان بزنجو کی اکثریت کو بھی انہوں نے ہی ناکامی سے دوچار کر دیا تھا۔بلوچستان میں جو ریاست کے وفادار شخصیات ہیں۔ صلاحیت کے اعتبار سے میرٹ پر انوارالحق کاکڑ کو اولیت حاصل ہے۔اس لئے نہایت مشکل اور پرآشوب دور کے لئے انہیں نگراں وزیراعظم مقرر کر دیاگیا ہے۔ان کا نام شہبازشریف کے بجائے راجہ ریاض کو دے دیا گیا تھا جو اس سے پہلے انوارالحق کو کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ اگرچہ انہیں جو ذمہ داری ملی ہے وہ عام انتخابات کے انعقاد کے لئے ہے لیکن یہ شبہات موجود ہیں کہ شاید نگراں حکومت کو طول دیا جائے کیونکہ اب معاملات سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اب نہ نوازشریف کی مرضی چلے گی اور نہ ہی زرداری کی۔
اقتدارپر ڈائریکٹ کنٹرول قائم ہوگیا ہے۔اس ڈائریکٹ کنٹرول کو صوبہ سندھ اور بلوچستان تک پھیلا دیا جائے گا کچھ لمحات اور گھنٹوں کے بعد جب سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہوگا تو زرداری کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے کیونکہ یہ طے ہے کہ آئندہ انتخابات میں زرداری کو کھلا میدان نہیں دیا جائے گا اگر ان پر زیادہ رحم نہیں کیا گیا تو سندھ کا آئندہ وزیراعلیٰ جام صادق علی جیسا ہو گا۔پختونخواہ میں دوبارہ ایم ایم اے والی پوزیشن لائی جائے گی۔
تمام تر صورتحال میں سردار اختر مینگل واحد لیڈر ہیں جنہوں نے انوارالحق کاکڑ کی تقرری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے مسلم لیگ ن کی ایک اور بے وفائی سے تعبیر کیا ہے۔انہوں نے نوازشریف کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ اس تقرری کے ذریعے ان پر سیاست کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ان کا اشارہ غالباً میر شفیق مینگل کی جانب ہے جو انوارالحق کاکڑ کے ہم خیال ساتھی ہیں۔جیسے کہ سرفراز بگٹی ہیں۔راجہ ریاض نے یہ انکشاف کیا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لئے انہوں نے دوسرا نام سرفراز بگٹی کا دیا تھا۔اصل میں غلطی ن لیگ کی نہیں اختر مینگل کی اپنی ہے جب ن لیگ نے1998 میں ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا تھا اس کے باوجود ایک بار پھر ن لیگ اور نوازشریف پر اعتبار کرنا ایک فاش غلطی ہے۔جو صورتحال بن رہی ہے وہ اس طرح ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان انتخابات کے لئے نااہل ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ذریعے میاں نوازشریف بھی آﺅٹ ہیں۔زرداری کا بھی الیکشن سے پہلے بندوبست کیا جا رہا ہے یعنی تمام بڑے سیاسی کھلاڑی میدان سے باہر ہوں گے۔جس کے بعد مرکز اورچاروں صوبوں میں مخصوص طرز کی حکومتیں قائم ہوں گی۔
جہاں تک یہ دعویٰ کرنا کہ انوارالحق کاکڑ کو وزیراعظم بنانے سے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہوگا محض سیاسی نعرہ ہے جب 2002 میں میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تھے تو یہی کہا گیا تھا اب جبکہ وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور16 ستمبر کو چیف جسٹس کا تعلق بھی اس صوبہ سے ہوگا تو اس دعوے کو مزید اچھالاجائے گا لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وفا داروں اور طرف داروں کو انتخاب کرے۔اس کا بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ باپ پارٹی کے پانچ سالہ دور میں اراکین اسمبلی کو سات کھرب روپے سے زائد فنڈز ملے۔معلوم نہیں یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔باپ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔اس نے بلوچستان کے حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی۔چنانچہ گمان یہی ہے کہ آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے بعد بھی یہی صورتحال جاری رہے گی۔ریاست اپنے وفاداروں کو صلہ کے طور پر کھربوں روپے کا تاوان جنگ ادا کرے گی۔لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے بلوچستان کی صورتحال پر کیا مثبت اثرات پڑیں گے۔یہ بدقسمت علاقہ اسی طرح جلتا رہے گا۔یہ جو بدامنی اور جنگ کے حالات ہیں یہ ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو اس جنگ کے تاوان کے بینیفشری ہیں۔انوارالحق کاکڑ کو چاہیے کہ وہ کچھ بہتر حکمت عملی تشکیل دینے کے لئے اپنی سابقہ ڈاکٹرائن بدل دیں۔