شمس و قمر اکٹھے
تحریر :انور ساجدی
اگر قیصر بنگالی سیاست میں ہوتے تو اس وقت اٹک قلعہ کے عقوبت خانہ میں سڑ رہے ہوتے اور متعدد مقدمات میں ضمانتوں کے باوجود ان کی رہائی ناممکن ہوتی۔موصوف ایک آزاد معاشی اسکالر ہیں اوپر سے بوہری کمیونٹی سے تعلق ہے۔بنگالی نہیں صرف نام کے بنگالی ہیں۔حال ہی میں وہ اپنی کالی زبان سے ایسی باتیں کر رہے تھے کہ حکمران اور اشرافیہ انہیں سننے کو روادار نہیں۔زمانہ ہوا ان کا موقف تھا کہ رواں پالیسیوں کے تحت پاکستان اسی طرح لنگ و لاش رہے گا اور یہاں پر طویل عرصہ تک بہتری کا کوئی امکان نہیں۔حالیہ تقریب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ30 برسوں تک اکانومی گئی ہائی سیکورٹی گئی۔اس دوران اچھی حکومت وہ کہلائے گی جو زیادہ سے زیادہ قرضے حاصل کرے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کے کام میں آئے۔معیشت اس لئے نہیں سدھرے گی کہ اصلاحات کا سرے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔بطور حکومت کوئی بھی اقتدار میں آئے وہ کچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ اختیارات کا محور کہیں اور ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان تیز رفتار ترقی کے دور میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلا گیا ہے۔2013 کے بعد کوئی صحیح حکومت نہیں آئی۔اگرچہ نوازشریف کی حکومت کو منتخب تسلیم کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنے آخری دور میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے مہنگے پلانٹ لگوائے بجلی کی پرائیویٹ کمپنیاں بھی انہی کی دین ہیں۔ان تاریک اقدامات کی وجہ سے ایک بہت بڑا مالیاتی بحران اور معاشی زبوں حالی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے بعد عمران خان آئے انہیں تو معیشت کی ابجد کا پتہ نہیں تھا۔وہ اسٹرکچرل اصلاحات کی جانب توجہ نہ دے سکے اور جاتے جاتے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی توڑ گئے۔انہوں نے اشرافیہ کو نوازشریف سے بھی بڑھ کر مراعات اور سبسڈی دی اگر ان کے دور میں کرونا نہ آیا ہوتا اور عالمی برادری پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد نہ دیتی تو ملک خان صاحب ہی کے دور میں دیوالیہ قرار پاتا۔خان صاحب نے غضب یہ کیا کہ3 ارب ڈالر کی خطیر رقم مراعات یافتہ جعلی صنعتکاروں اور اشرافیہ میں تقسیم کردئیے۔سینیٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی نے جب اسٹیٹ بینک سے اس کی تفصیلات طلب کیں تو گورنر بینک نے تفصیلات دینے سے صاف انکار کر دیا۔اس طرح ضیاء الحق کے دور سے اب تک لاکھوں ارب روپے کے جو قرضے معاف کئے گئے ہیں ان کی تفصیلات کو بھی طشت ازبام کرنے سے جان بوجھ کر گرز کیا جا رہا ہے اس کے برعکس ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا گیا ہے جبکہ اشرافیہ قرضے معاف کروا کر حکومتی کمیشن لوٹ کر اور دیگر ناجائز ذرائع سے بے تحاشا دولت غیر ممالک میں پہنچا چکی ہے۔یاد رہے کہ یہ اشرافیہ صرف سیاست دان اور کاروباری لوگ نہیں ہیں بلکہ اس میں غیرسیاسی اسٹیک ہولڈرز بھی شامل ہیں۔اس وقت پاکستان کی صورتحال بالکل اسی طرح ہے جو انقلاب آنے سے پہلے فرانس کی تھی لیکن پاکستان میں بوجوہ عوام انقلاب برپا نہیں کرسکتے کیونکہ اشرافیہ کی حفاظت کے لئے بہت ہی موثر قوتیں موجود ہیں۔بجلی کے بلوں اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کے بعد اگرچہ حکمرانوں کے خلاف عام لوگوں کی آنکھوں میں خون نظر آ رہا ہے لیکن حکمران دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک گیر ہڑتال اور مہنگائی کے خلاف احتجاج پیالہ میں طوفان کی مانند ہے۔گو کہ جماعت اسلامی نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی جو کامیاب رہی لیکن جماعت اسلامی بھی اشرافیہ کی طرف دار ہے۔اس کا واحد مقصد پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حصول ہے وہ کوئی عوامی جماعت نہیں جو ایک ملک گیر تحریک استوار کرسکے۔اس وقت جو مہنگائی ہے ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ دار نگراں حکومت نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت ہے جس نے جھک کر اور پیروں میں پڑ کر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا جس کے تحت گمان یہی ہے کہ ڈالر اوپن مارکیٹ میں چار سو روپے تک جائے گا اور تیل کی قیمت بھی کم از کم ساڑھے تین سو روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔قیمتوں میں اس ہوش ربا اضافوں کے بعد لوگ باہر ضرور نکلیں گے لیکن ان کو ایک تحریک کی شکل دینا مشکل ہوگا۔ان تمام خرابیوں اور جماعتوں کے باوجود ن لیگ پرامید ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں وہ فتح حاصل کرے گی ۔ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ میاں صاحب آئیں گے انقلاب لائیں گے۔میاں صاحب تو2007 میں بھی واپس آئے تھے تو کون سا انقلاب لائے تھے۔مشرف کے دور میں بھی وہ لاہور اترے تھے لیکن ائیرپورٹ پر ہو کا عالم تھا وہ آنسوئوں کے چند قطرے گرا کر واپس چلے گئے تھے بھلا اس مرتبہ ایسا کیا ہوگا کہ میاں صاحب کایا پلٹ دیں گے ہاں وہ ضرور نئی صف بندی کریں گے۔سندھ میں انہی قوتوں کو یک جا کرنے کی کوشش کریں گے جو انہوں نے1997 میں کیا تھا۔یہ ایم کیو ایم ،جی ڈی اے اور ہم خیال گروپ ایک بار پھر میاں صاحب کی قیادت میں متحد ہونگے۔نتیجہ کیا نکلے گا اس کا انحصار راولپنڈی کے رویہ پر ہوگا۔بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے کہ 16ماہ کی حکومت کے دروان جو ن لیگ نے زیادتی کی اس کے امیدوار اس قابل نہیں ہوں گے عوام سے ووٹ مانگنے جا سکیں۔اس کے باوجود ن لیگ کی خوش فہمی سمجھ سے بالاتر ہے۔اسی طرح اس بار پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی15سالہ حکومت کے دوران سندھ صحت کو چھوڑ کر باقی معاملات میں ادھر ہی کھڑا ہے جدھر ارباب رحیم اور جام صادق اسے چھوڑ کر گئے تھے۔اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی عوامی غیظ و غضب کا شکار ہوئیں تو یہ حکمرانوں کے لئے آئیڈیل صورتحال ہوگی کیونکہ پھر انہیں موقع ملے گا کہ وہ باپ جیسی جماعتوں کو یک جا کر سکیں۔زیادہ کمزور اور نمائشی حکومت بنوا سکیں۔ حکمرانوں کا ارادہ تو یہی تھا کہ نگراں حکومت کو حسب منشا طول دیا جائے لیکن پھر غور کیا گیا کہ خزانہ میں صرف سات ارب ڈالر جمع ہیں وہ بھی دوسروں کے ہیں اگر نگراں حکومت کو طویل دیا گیا تو یہ ڈالر دو تین مہینے میں ختم ہو جائیں گے اس کے بعد سنگین صورتحال پیدا ہو جائے گی ۔ تیل اور ایل این جی منگوانے کے لئے رقم نہ ہوگی ۔ ادویات کی قیمتیں جو کئی گنا بڑھ چکی ہیں نایاب ہو جائیں گی اوپر سے افغانستان بلیک مارکیٹ سے بچے کھچے ڈالر بھی لے اڑے گالہٰذااچانک فیصلہ کیا گیا کہ عام انتخابات فروری میں کروائے جائیں اس مسئلہ پر حکمرانوں اور صدر علوی کے درمیان آئینی اختلاف اپنی جگہ ہے ۔قانونی ماہرین بھی اس مسئلہ پر تقسیم ہیں بعض کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا کام ہے جبکہ کچھ کہتے ہیں یہ اختیار ترامیم کے بعد الیکشن کمیشن کو منتقل ہوگیا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی پر اس لئے ہاتھ ڈال دیا گیا کہ اس نے90 دن میں انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جبکہ حکمران اب خود کم مدت میں انتخابات کروانے پر مائل ہوگئے ہیں۔بہرحال تمام تر ملکی صورتحال کو پیش نظر رکھا جائے تو حالات نارمل نہیں۔انتہائی گھمبیر ہیں اور روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔اگر کوئی ریلو کٹا منتخب حکومت آ بھی جائے تو اسے کسی قسم کا اختیار نہیں ہوگا۔ جو پارلیمنٹ قائم ہوگی۔اس کی کوئی نہیں سنے گا آئین کی بالادستی تو دور کا خواب ہے قانون کی حکمرانی بھی ناپید ہوگی جو حکمران آئیں گے وہ معصوم اطفال جیسے ہوں گے بے شک وہ نوازشریف ہی کیوں نہ ہو۔داخلی طور پر دہشت گردی مزید بڑھ جائے گی۔بلوچستان کے حالات دگردوں رہیں گے۔جس طرح گلگت میں فرقہ واریت سر اٹھا رہی ہے اس کا دائرہ پھیل سکتا ہے اور جڑانوالہ جیسے واقعات میں اضافہ کا خدشہ بھی ہے۔بلوچستان کے حالات زیادہ سنگین اس لئے ہوں گے کہ اسٹیٹ اورنان اسٹیٹ عناصر تیزی کے ساتھ سر اٹھا رہے ہیں۔مسنگ پرسنز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اور اختر مینگل کے مطالبات اور اس مسئلہ کو انتخابی موضوع بنانے کے باوجود مسئلہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔عمران خان کو لے کر عالمی سطح پر مہم چلانے کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ مزید متاثر ہو گی ۔ چند روز قبل انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر سے سوال پوچھا گیا کہ آج کل آپ لوگ پاکستان کا نام کیوں نہیں لے رہے تو موصوف نے کہا کہ جب کمپنی دیوالیہ ہو جائے تو مارکیٹ میں اس کا تذکرہ کم ہوتا ہے۔غیر ملکی مبصرین واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان موجودہ حالات میں امریکہ کی ضرورت نہیں بلکہ چین کے تناظر میں انڈیا اس کی ضرورت ہے۔ادھر انڈیا کی معاشی پیش رفت کے ساتھ سائنسی عروج بھی جاری ہے۔چاند کے بعد اس نے سورج کی طرف بھی ایک مشن بھیجا ہے لیکن پاکستان اس بات پراکتفا کر رہا ہے کہ زید زمان حامد عوام کا ڈھارس بندھانے کے لئے ضرور کوئی نقطہ لے آئیں گے اور وہ لائے بھی ہیں یعنی انڈیا کا چاند پر جانے کا دعویٰ غلط ہے۔ یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ حالانکہ امریکہ تصدیق کر چکا ہے کہ انڈیا کا خلائی جہاز چاند کے قطب جنوبی پراتر چکا ہے۔ ویسے حالات کا تقاضا ہے کہ زید حامد اوریا مقبول جان ،ہارون رشید اور سعد رضوی کی صلاحیتوں سے مزید استفادہ کیا جائے تاکہ عوام جس مایوسی کا شکار ہیں وہ اقبال کی شاعری پڑھ کر ستاروں پر کمند ڈالنے اور بحرظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے دور کی یادوں میں کھوجائیں کیونکہ صورتحال کا اس کے سوا اور کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔اس کے ساتھ ہی سنسرشپ کو مزید سخت کیا جائے جس طرح مہنگائی کے بارے میں پروپیگنڈا اور گلگت بلتستان کی خبروں کی حساسیت کوکم کر کے دکھایا جا رہا ہے۔اسی طرح انڈیا میں ہونے والی جی20 ممالک کی کانفرنس کو نظرانداز کیا جائے جس میں سعودی ولی عہد کی شرکت متوقع ہے۔