منزل سے بہت دور

تحریر: انور ساجدی

چند دنوں سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شازیہ مری کے گھر سے چھاپے کے دوران96 ارب روپے کیش برآمد ہوا ہے۔دوسری خبر کے مطابق اس سے کچھ کم رقم سابق وزیر مکیش چاﺅلہ کے گھر سے بھی برآمد ہوئی ہے۔دونوں خبروں کی تصدیق ہونا باقی ہے۔لیکن سوال اٹھتا ہے کہ 96 ارب روپے رکھنے کے لئے بہت بڑی جگہ درکار ہے۔اتنی بڑی رقم بینکوں سے نکالنا اور محفوظ طریقے سے کسی گھر پہنچانا بھی بہت مشکل کام ہے اور دل مانتا نہیں کہ ایسا ہوا ہے یا ایسا ہو سکتا ہے۔حالیہ ادوار میں بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے تھے لیکن انہیں گننا اتنا مشکل تھا کہ کئی بینکوں سے نوٹ گننے والی مشینیں لانا پڑی تھیں۔ سو96 ارب روپے گننے کےلئے تو سینکڑوں مشینیں درکار ہوتی ہیں لہٰذا اس خبر کو افواہ اور کردار کشی کے پیرائے میں دیکھنا چاہیے۔اگرچہ مالی اعتبار سے پیپلز پارٹی کی ساکھ اچھی نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ اور غیرمعروف لوگوں پر مشتمل نگراں حکومت کے قیام کے بعد ایسے اقدامات ہو رہے ہیں جو ایک انجینئرنگ کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔اس انجینئرنگ کا مقصد آنے والے انتخابات میں سندھ میں ایسے گروہوں کی تشکیل ہے جو پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی میں رکاوٹ بن جائیں تاکہ اس صوبے میں ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوسکے جو غلام اسحاق خان کے دور میں جام صادق علی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ارباب رحیم کی صورت میں سامنے آئے تھے۔یہ تو معلوم نہیں کہ آگے کیا ہوگا لیکن ایسا لگتا ہے کہ بچی کھچی ایم کیو ایم اس منصوبہ کا خاص حصہ ہے جبکہ جی ڈی اے کو بھی اہم رول دینا مقصود ہے۔کافی دنوں سے ایم کیو ایم کرپشن کے معاملہ کو اچھال رہی ہے حالانکہ یہ جماعت مشرف کے دور میں سندھ میں آنے والے اربوں روپے ہڑپ کر چکی ہے اس کے باوجود اس کی جانب سے پیپلز پارٹی پر کرپشن کا الزام سوچا سمجھا منصوبہ ہے حالانکہ کرپشن کے حمام میں دونوں جماعتیں ننگی ہیں۔سندھ میں اچانک گماشتہ ادارہ نیب کو سرگرم کر دیاگیا ہے۔پہلا مقدمہ مکیش چاﺅلہ پر قائم ہوا ہے۔ زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹ کا معاملہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ سناہے کہ اس کیس میں سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور آصف علی زرداری کو بھی گرفت میں لایا جائے گا۔ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو خوش فہمی ہے کہ کرپشن کے الزامات میں پیپلزپارٹی کی بیشتر قیادت یا تو جیلوں میں ہوگی یا انتخابی دائرے سے باہر ہوگی جس کے بعد اس کے وارے نیارے ہونگے لیکن ایم کیو ایم بھول چکی ہے کہ وہ الطاف حسین کا دور تھا جو ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے جبکہ ان کے مقابلہ میں خالد مقبول صدیقی اور ان کے ساتھیوں میں کوئی دم خم نہیں ہے۔اگر پیپلز پارٹی کرپشن میں ملوث ہے تو اس کے خلاف لازمی طور پر کارروائی ہونی چاہیے لیکن ماضی میں زرداری،شرجیل میمن اور قائم علی شاہ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔سب کو یاد ہوگا کہ عمران خان کے دور میں شرجیل میمن پر6 ارب روپے کرپشن کا الزام لگا تھا بلکہ یہی کہا گیا تھا کہ وزیر کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے ہیں اسی دوران یہ افواہ بھی پھیلی تھی کہ سندھ کے وزراءنے مل کر ڈالروں سے بھری ایک کشتی دبئی روانہ کی تھی لیکن آدھے راستے میں اس پر قبضہ ہوگیا اس پروپیگنڈا کے باوجود کچھ ہاتھ نہ آیا لیکن اس مرتبہ بات بالکل مختلف ہے۔باپ پارٹی کو مرکز اور بلوچستان میں نگراں حکومتیں دینے سے صاف ظاہر ہے کہ مستقبل کا عنوان یہی ہے کہ ممکنہ عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور چاروں صوبوں میں اس طرح کی حکومتیں قائم کی جائیں تاکہ بے قابو کرپشن کو قابو میں لایا جا سکے۔اگر اس مقصد کے لئے ساری انجینئرنگ ہو رہی ہے تو یہ بے سود ہے۔ اگر چاروں صوبوں میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو آﺅٹ کر کے متبادل سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لایا جائے تو دنیا اس اقدام کو تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی پاکستان کے عوام ایسا نظام ماننے کو تیار ہوں گے۔مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکمران آزادانہ اور شفاف انتخابات کروا کر جو بھی جماعت یا جماعتیں کامیابی حاصل کریں اقتدار انہیں منتقل کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔معاشی دیو قابو سے باہر ہو جائے گا اور پاکستان کا ڈیفالٹ کرجانا لازمی ٹھہرے گا۔
میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جو جرمنی میں بنائی گئی ہے ایک جگہ پر افغانستان کے لوگ بیٹھے ہیں ان کے ہاتھوں میں روپیہ اور افغانی کرنسی ہے اور وہ پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں یعنی پاکستان کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ افغانی کرنسی روپیہ سے 27 گنا زیادہ مستحکم ہے۔ افغانستان جس کی ساری سپلائی پاکستان سے جاتی ہے وہاں پر مہنگائی کی شرح 9فیصد اور پاکستان میں28 فیصد ہے۔طالبان کو آئے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے لیکن اس کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے جبکہ پاکستانی معیشت ایسے زوال کا شکار ہے جو اس وقت دنیا کے کسی ملک کی معیشت نہیں ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرق گورننس کا ہے۔افغانستان میں سارے اختیارات طالبان حکومت کو حاصل ہیں وہاں پر بیورو کریسی کی کوئی وقعت نہیں ہے جبکہ امیر المومنین اخوندزادہ کا حکم حرف آخر ہے۔وہاں کوئی دستور اور قانون نہیں ہے لیکن پھر بھی قانون کی حکمرانی ہے اس کے مقابلے میں 76 سالہ پاکستان ہر شعبہ میں انارکی کا شکار ہے۔پولیٹیکل انجینئرنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
باجوہ نے 2017 میں نوازشریف کو بھونڈے طریقے سے نکال باہر کیا جس کی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔اس موصوف نے2022 میں اپنے انتخاب عمران خان کو ذلیل وخوار کر کے اقتدار سے باہر پھینکا کسی نے آج تک باجوہ سے یہ نہیں پوچھا کہ حضور آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کس وجہ سے ملک کو اتھاہ تاریکیوں میں ڈال دیا۔ان سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کی گئی کہ آپ کی دولت12 ارب روپے تک کیسے پہنچی جب عمران خان برسراقتدار تھے تو پاپا جونز کا اسکینڈل سامنے آیا لیکن موصوف نے جنرل عاصم سلیم باجوہ کو بخش کر سی پیک کے سربراہ کے طور پر کام جاری رکھنے کی اجازت دی ۔کوئی ان سے پوچھتا کہ کوئٹہ کا کور کمانڈر رہ کر آپ نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد رقم کیسے اکٹھے کی اور اپنے خاندان کے لئے امریکی شہریت کیسے حاصل کی البتہ سیاستدانوں سے سوالات پوچھنا ان پر نیب کے کیسز بنانا اور انہیں جیل میں ڈالنا بہت آسان ہے۔سیاست دانوں کی کردار کشی کے لئے گماشتہ میڈیا بھی ہر وقت تیار رہتا ہے۔
ایک اینکرپرسن کامران خان جنہوں نے زرداری کے پچھلے دور میں غضب کرپشن کی کہانیاں چلائی تھیں جب تک باجوہ عمران خان کے ساتھ تھے تو کامران خان ان کی توصیف میں زمین آسمان ایک کر دیتے تھے جونہی باجوہ صاحب غائب ہوگئے تو خان صاحب بڑے بڑے مالی و سیاسی اسکینڈل سامنے لے آئے ۔عمران خان کے بعد وہ مسلسل شہ دے رہے تھے کہ تمام مسائل کا حل مارشل لاءہے۔آج کل محترم کو دوبارہ سندھ میں غضب کرپشن نظر آرہی ہے۔اپنے ایک حالیہ پروگرام میں انہوں نے بات کی ہے کہ آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر نے کراچی اور لاہور کی اہم کاروباری شخصیات سے 5گھنٹہ طویل نشست کی ہے اور یقین دلایا کہ 6 ماہ کے اندر معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔80 ارب کے قریب غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔اسمگلنگ، ڈالروں کے انخلاء،تیل کی غیر قانونی آمد اور سندھ میں کرپشن کے خاتمہ کے لئے اہم اقدامات اٹھائے جائیں گے۔کامران خان نے اپنے تبصرہ میں سندھ کا نام ضرور ڈالا ہے جیسے کہ باقی صوبوں میں صوفیائے کرام اور قطب حضرات کی حکومت تھی اور وہاں پر ایک آنے کی کرپشن بھی نہیں ہوئی حالانکہ مرکز سے لے کر چاروں صوبوں تک ہر جگہ کرپشن ہی کرپشن تھی اس کے سوا کچھ نہ تھا۔
خود وفاق کا برا حال تھا جبکہ اوپر سے نیچے تک ہر ادارہ ہر جگہ اور ہر مقام پر کرپشن عروج پرتھی۔قیصر بنگالی کے مطابق کرپشن اصل بیماری نہیں ہے اصل بیماری غلط منصوبہ بندی اور غلط گورننس ہے۔غلط گورننس اس لئے ہے کہ2013 سے اب تک ہائبرڈ رجیم قائم کئے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کو زبردستی انتخابات چرا کر اقتدار میں لایا جاتا رہا ہے ایک مرتبہ عمران خان کو بھی لایا گیا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔آرمی چیف نے جن سیٹھوں کو بٹھا کر مرض کا علاج پوچھا یہ سیٹھ حضرات خود موجودہ بحران کے اسباب میں سے ایک ہیں۔یہ گزشتہ 35برسوں میں کھربوں کے قرضے لے کرمعاف کرواتے رہے ہیں انہوں نے آخری چھکا عمران خان کے وقت میں اس وقت مارا جب کرونا فنڈز میں سے 3 ارب ڈالرز کی خطیر رقم امداد کے نام پر ہڑپ کر لی تاکہ وہ برآمدات بڑھا سکیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے وہ برآمدات خاک بڑھاتے بہرحال اپنا الو سیدھا کرگئے۔یہ مسلسل سبسڈی لے رہے ہیں اور اس مشکل صورتحال میں بھی سبسڈی لینے کے چکر میں ہیں۔ ان کی دسترس حکومت کے علاوہ بینکوں سے لے کر منی چینجرز تک ہے۔یہ اربوں ڈالر راتوں رات ادھر سے ادھر کر دیتے ہیں۔ڈالر کی پرائیویٹ شرح میں اضافہ کے بعد یہ طبقہ ہنڈی کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کی رقومات وصول کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آنے والی رقومات کم ہو رہی ہیں۔اگر موجودہ حکمران مخلص ہیں تو وہ ان سیٹھوں اور ایسے تمام افراد کے گھروں میں چھاپے ماریں جن پر شک ہے کہ انہوں نے اپنے تہہ خانوں میں اربوں ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسی چھپا کر رکھی ہے۔اگر حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا چاہتی ہے تو غیر قانونی طور پر چھپائی گئی دولت کو ہر قیمت پر ضبط کرنا ہوگا۔حکومت اور کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم ملک بوستان کو بلا کر وہ گر پوچھے جس کے ذریعے ڈالرز کی بلیک مارکیٹ میں خرید وفروخت ہو رہی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ موجودہ عارضی حکومت پولیٹیکل انجینئرنگ کے بجائے معقول اقدامات کرے ورنہ ایسی تباہی آئے گی کہ کوئی بھی اسے کنٹرول نہیں کرسکے گا کیونکہ معاملات بہت دور چلے گئے ہیں اور انہیں واپس لانا ناممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں