میاں نوازشریف اور انقلاب
تحریر: انور ساجدی
ماضی کی عظیم الشان ائیرلائن پی آئی اے گرائونڈ ہوگئی ہے۔اسے چلانا حکومت کے بس میں نہ رہا اگر کسی بین الاقوامی انویسٹر کی منت سماجت کی جائے تو شاید کوئی اسے مفت میں لینے کو تیار ہو۔اس کا واحد قیمتی اثاثہ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل تھا جسے لیز پر فروخت کر دیا گیا ہے۔پاکستان ریلوے کی تقریباً یہی حالت ہے جبکہ واپڈا کافی سالوں سے سفید ہاتھی کہلاتی ہے۔ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔تمام ادارے ڈوب رہے ہیں۔عملی اعتبار سے پاکستان کی معیشت بھی گرائونڈ ہوگئی ہے۔موجودہ نگراں حکومت نے جس طرح کریک ڈائون شروع کیا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ پونے چار سال تک عمران خان اور16 ماہ تک شہبازشریف کی حکومت آنکھیں بند کئے ہوئے تھے۔دونوں حکومتوں نے اصلاحات کو اہمیت نہیں دی۔جس کے نتیجے میں نگراں حکومت گردن تک دھنس گئی ہے۔اس صورتحال کے باوجود حکمران چاہتے ہیں کہ نگراں حکومت مزید کچھ عرصہ چلے تاکہ پوری نیا ہی ڈوب جائے۔ ایک طرف شدید معاشی زبوں حالی ہے تو دوسری جانب ٹی ٹی پی ،داعش اور دیگر گروپ تابڑ توڑ حملے کرر ہے ہیں حتیٰ کہ ایک امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔دو ہفتہ سے چترال کلیئر نہیں ہے۔ وزیرستان برسوں سے دہشتگردوں کی آماجگاہ ہے۔افغان حکومت کے تیور بھی اچھے نہیں ہیں۔تعلقات کا یہ عالم ہے کہ کئی دن سے بارڈر بند ہیں۔بلوچستان میں حالات اس سے بھی برے ہیں۔وہاں حکومت نے اچانک ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والے ہزاروں خاندانوں کو بے روز گار کر دیا ہے۔حکومتی اعلانات کے باوجود کہیں بھی حکومتی رٹ موثر نظر نہیں آرہی ہے۔حالانکہ اس وقت جو الٹرا پاکستانی نیشنلسٹ انوارالحق کاکڑ اور میر سرفراز بگٹی ملک کو چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں تلخ زمینی حقائق کے باوجود حکومت کی ساری توجہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر مبنی ہے۔تحریک انصاف بدترین حکومتی احتساب سے دوچار ہے جبکہ پیپلز پارٹی پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیا ہے۔بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کا جھکائو ن لیگ کی طرف ہے۔نوازشریف کے قریبی بیوروکریٹ فواد حسن فواد کی کابینہ میں شمولیت یہی پتہ دیتی ہے۔ادھر نوازشریف کے پیروکار پارٹی کارکن اور مداح بڑے پرجوش ہیں کہ 21 اکتوبر کو جب میاں صاحب اپنی جلا وطنی یا بھگوڑا پن ترک کر کے واپس آئیں گے تو ایک نئے انقلاب کا آغاز ہوگا۔انقلاب کیسا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔بے چارے کارکنوں کو معلوم نہیں کہ 1990 ،1997 اور2013 میں میاں صاحب جو انقلاب لائے تھے ملک ابھی تک اس کے اثرات سے آزاد نہیں ہوا۔ان کے سمدھی اور نام نہاد ماہر معیشت اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے اتنا سخت معاہدہ کیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔شہبازشریف کے16 ماہ اور موجودو دور میں کئی کروڑ لوگ غربت کی زد میں آئے ہیں۔بجلی کے بل ہزاروں میں پہنچ گئے ہیں جبکہ حکومت نے عوام پر ایک اور پیٹرول بم گرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کے بعد غریب کے لئے نان و نفقہ یا آب و دانہ رفعت ہو جائے گا۔ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ نگراں حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح کاسمیٹک کارروائیاں کر رہی ہے۔بجلی کی چوری روکنے اور ذخیرہ اندوزی کے تدارک کے لئے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ سابقہ ادوار میں بھی کی جا چکی ہیں۔وزیراعظم صاحب شکوہ کناں ہیں کہ ان کی تنخواہ کم ہے جس سے گزارہ نہیں ہو رہا ہے لیکن عمران خان اور شہبازشریف نے دو نمبر جعلی اشرافیہ کو کھربوں روپے کی جو مراعات دی تھیں وہ بدستورجاری ہیں۔کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے سارے سیٹھ اب بھی مزے میں ہیں۔عمران خان نے انہیں3 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم بطور بخشش دے کر مزید موقع دیا کہ وہ عوام کا خون نچوڑیں۔شہبازشریف نے وہ رقم واپس لینے کے بجائے مزید مراعات سے نواز دیا بلکہ ایک بڑا سیٹھ تو کابینہ کا حصہ بھی ہے۔یہ سیٹھ کپاس پر سفید مکھی کے حملہ کا ضرور ناجائز فائدہ اٹھائے گا اور ٹیکسٹائل کے شعبہ کے لئے مزید سہولیات لے گا۔اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف بھی وزیراعظم بن جائیں تو بھی یہ طبقہ مزے میں رہے گا۔ن لیگ اور مقتدرہ کی قربت کیا رنگ لائے گی یہ تو معلوم نہیں لیکن ن لیگ کو جو خوش فہمی ہے کہ نوازشریف کے آنے کے بعد وہ ضرور دور ہو جائے گی۔استاد نصرت جاوید کے بقول حالات ایسے ہیں کہ نوازشریف اپنے پرانے حلقہ گوالمنڈی سے بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔پرانے لاہور میں شریف خاندان کا پرانا یہ ابتدائی گھر تھا جو 120 گز رقبے پر مشتمل تھا جس میں چھ بھائی رہتے تھے۔دعویٰ یہ ہے کہ شریف خاندان جدی پشتی ارب پتی تھا۔ثبوت موجود ہیں کہ امرتسر میں میاں صاحب کا خاندان تنگ دستی کی زندگی گزارتا تھا یہ سارا کمال پاکستان آنے کے بعد ہوا۔خاص طور پر جب مشرقی پنجاب کے مہاجرین نے پنجاب کی سیاست اور معیشت پر قبضہ کیا تو ان کے وارے نیارے ہو گئے۔گجرات کے چوہدری خاندان سے لے کر سیالکوٹ کے خواجہ اور پندی کا شیدا ٹلی تک موجیں اڑانے لگے۔سیالکوٹ سے آخری فرزند زمین ملک ثناء اللہ 1970 میں ایم پی اے منتخب ہوئے تھے اس کے بعد کسی موکل کی باری نہیں آئی۔نوازشریف کی واپسی سے سیاست میں تلاطم ضرور آئے گا لیکن زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔عمران خان کو معزول کرنے کے بعد شہبازشریف حکومت کی جو کارکردگی رہی اس نے اس پارٹی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ادھر وہ اس وقت غیر مقبولیت میں پیپلز پارٹی کے ہم پلہ کھڑی ہے۔میاں صاحب کے آنے سے پہلے بی بی مریم نواز اپنے والد کے کارنامے گنوا رہی ہیں لیکن انہیں بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ کارنامے ہیں کون سے وہ اپنے والد محترم کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کررہی ہیں لیکن حقیقت کیا ہے ؟اگر باالفرض محال میاں صاحب کو حکومت ملی تو جھک کر ملے گی وہ پہلے سرنڈر ہوں گے،سمجھوتے کریں گے اپنے چھوٹے بھائی سے قدم بوسی کا ہنر سیکھیں گے تب انہیں حکومت ملے گی۔ایک بے اختیار امچور حکومت ایک بے بس لاچار وزیراعظم وہ کونسا انقلاب لائیں گے ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ میاں صاحب50 ارب ڈالر اپنے خلیجی دوستوں سے لائیں گے ۔ 2013 میں تو سعودی فرماں رواں نے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کا عطیہ دیا تھا باجوہ صاحب بھی3ارب ڈالر لائے تھے یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں صاحب50 ارب ڈالر لائیں گے۔چین جو سی پیک چلا رہا ہے وہ بھی صرف25 ارب ڈالر دے چکا ہے جو دو تین سڑکوں پر خرچ ہو کر ضائع ہو چکا ہے۔آخر چین بھی تنگ آ جائے گا وہ افغانستان کی طرف زیادہ مائل ہو رہا ہے کیونکہ وہاں پر قیمتی معدنیات بڑی مقدار میں موجود ہیں اور چین ان سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔چین سمیت تمام بڑے ممالک کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا کیونکہ یہاں پر شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے بلکہ جعلی انتخابات کروا کر کوئی ہائبرڈ حکومت مسلط کی جائے گی جس کے نتیجے میں معیشت سنبھل نہیں سکے گی۔بیڈ گورننس اداروں کی شاہ خرچیوں اور کرپشن کی وجہ سے ریاست کی آمدنی اور برآمدات تو بڑھنے سے رہیں۔ چنانچہ قرضوں کے سہارے گزارہ چلتا رہے گا۔اس دوران اگر کچھ قیمتی اثاثے آئوٹ سورس نہیں کئے گئے تو یہ ملک رئوسا اور رولنگ ایلیٹ کے ہاتھ سے نکل کر عراق،شام اور افریقہ کے بعض ممالک کی شکل اختیار کر لے گا کیونکہ صورتحال سے واضح ہے کہ حکمران سنجیدہ نہیں ہیں وہ ملک کو بحرانوں سے نکلنے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں رکھتے۔پرانے تجربات کو دہرایا جا رہا ہے۔اگرنوازشریف کو واپس لایا گیا تو یہ بھی پرانے تجربے کو دہرانے کے مترادف ہوگا۔ جو سسٹم ہے اس کے تحت رول آف لاء کبھی نہیں آئے گا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس بندیال نے اپنے دور کے آخری روز بھی جو فیصلہ دیا وہ اس کے لیڈر عمران خان کے حق میں ہے حالانکہ نیب کے قانون کو کالعدم قرار دینے سے سب سے زیادہ جو شخص متاثر ہوگا وہ عمران خان ہوں گے کیونکہ وہ بھی باقی مانڈہ لیڈروں کی طرح چور اور ڈاکو ثابت ہوچکے ہیں۔جس ملک میں چیف جسٹس انصاف کے بجائے طرف داری کریں تو وہاں پر رول آف لاء کہاں سے آئے گا؟ جس ملک میں ایک سیشن جج یہ فیصلہ لکھ دے کہ اگر جج کی ملازمہ کے دانت ٹوٹے ہیں تو دانت جسم کا حصہ نہیں ہیں اس لئے جج صاحب کی اہلیہ کی ضمانت منظور کی جاتی ہے یہ دنیا کا سب سے انوکھا فیصلہ ہے۔جس ملک میں وزیراعظم اور اس کے ادارے ہزاروں مسلح جنگجوئوں کو واپس بلالیں جس پر ہزاروں افراد کے قتل کا الزام ہے وہاں پر امن کیسے آسکتا ہے؟ بدامنی کی ایک بڑی لہر عام انتخابات کے وقت آئے گی بلکہ جمعیت کے لیڈر حافظ حمد اللہ پر حملہ اس کا ٹریلر ہے۔حافظ صاحب پر حملہ غالباً طالبان اور داعش کی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔پتہ نہیں کہ بلوچستان میں داعش ہے کہ نہیں البتہ سابق ادوار میں مستونگ کے علاقے میں حکومت نے کئی کارروائیاں کی تھیں اور دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہ کارروائی داعش کے خلاف تھی۔ البتہ داعش خراساں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے افغانستان کے بعد پاکستان خاص طور پر بلوچستان میں کئی ولائتیں قائم کی ہیں اگر سیاسی رہنمائوں پر اسی طرح حملے ہوتے رہے تو آنے والا الیکشن خونی ثابت ہوگا۔اگر جمعیت کے رہنما محفوظ نہیں تو اور کون محفوظ ہوگا۔ایسے حملوں کا نشانہ اے این پی، پی ٹی ایم اور این ڈی ایم ہونگے جبکہ یہ پس پردہ قوتیں پیپلزپارٹی کو بھی کھلا میدان نہیں دیں گی۔ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف اور ن لیگ کو رعایت دی جائے کیونکہ ماضی میں یہ مسلح جتھوں کے ہم خیال رہے ہیں۔