ریکوڈک سعودی عرب اور بھارت ویٹو پاور

تحریر: انور ساجدی
ایک بھارتی تبصرہ نگار نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے ریکوڈک میں اپنے50 فیصد شیئرز سعودی عرب کو25 ارب ڈالر میں فروخت کرنے کی پیش کش کی ہے۔آزاد ذرائع اور دونوں ممالک کی جانب سے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے تاہم اگر خبر درست نکلی اور سعودی عرب نے 25 ارب ڈالردے دئیے تو پاکستان کا سیاسی نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گااگر رقم انتخابات سے پہلے ملی تو حکمران کوشش کریں گے کہ انتخابات کی نوبت نہ آئے اگر بعد میں ملی تو اس بات کا اہتمام کیا جائے گا کہ ایسا ہائبرڈسسٹم لایا جائے کہ تمام معاملات اعلیٰ حکمرانوں کے کنٹرول میں رہیں۔اس حوالے سے 25ارب ڈالر کی خبر اچھی نہیں ہے۔پاکستان میں جہاد اور آزاد عسکری جتھوں کے ترجمان اوریا مقبول جان سے یہ بیان منسوب ہے کہ مشرقی پاکستان میں شکست کے باوجود یحییٰ خان 16دسمبر1971 کی رات کو ایک عبوری آئین لانے کا فیصلہ کر چکے تھے جس کے تحت یحییٰ خان نے غیر معینہ مدت تک ملک کا صدر بننا تھا۔آج کل یحییٰ خان کی سوچ کے مطابق کام ہو رہا ہے۔بعض عناصر1973 کے آئین کی جگہ ایک نئے صدارتی آئین کی تدوین میں مصروف ہیں جس کے تحت موجودہ پارلیمانی نظام ختم کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ طاقت ور صدارتی نظام لایا جائے گا۔اگرچہ اس آئینی منصوبہ کے خدوخال پوشیدہ ہیں اور شاید جہادی جتھوں سے وابستہ صحافیوں ہارون رشید اور اوریا کو ہی اس کی تفصیلات کا علم ہوگا۔یہ منصوبہ کب اور کیسے روبہ عمل آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا البتہ یہ بہت ہی مشکل اور بظاہر ناممکن عمل لگتا ہے۔سنا ہے کہ اس منصوبہ کہ درپردہ ایم کیو ایم،جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی،تحریک انصاف پارلیمنٹرین اور باپ پارٹی کی حمایت حاصل ہے لیکن منصوبے کا سارا دارومدار ن لیگ کے تعاون اور طرز عمل پر ہوگا۔ایک نیا آئین لانے کےلئے1973 کے متفقہ آئین کو منسو خ کرنا پڑے گا۔ یہ تنسیخ کیسے ہوگی یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ پارلیمان اور اعلیٰ عدالتوں کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔اس کی واحد صورت یہ ہوگی کہ کسی طرح آئین سے ماورا کارروائی سے کام لیا جائے جس کے بعد نیا آئین بزورقوت نافذ کر لیا جائے یا ایسی ہائبرڈ پارلیمنٹ منتخب کروائی جائے جس میں دوتہائی اکثریت ایسے لوگوں کی ہو جو نئے آئین کی راضی خوشی منظوری دے دیں۔مبینہ یا مجوزہ منصوبے کو آگے چل کر جماعت اسلامی تحریک لبیک اور کئی دیگردینی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس وقت ن لیگ مقتدرہ کی پسندیدہ جماعت بن گئی ہے اور آنے والے انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کی جائے گی۔اگر ایسا ہے تو کن شرائط پر، کیا ن لیگ کو راضی کر لیا جائے گا کہ وہ ایک نئے آئین کی منظوری میں تعاون کرے۔
نیا نظام آئے نہ آئے اس وقت ن لیگی زعما کے گردنوں میں سریا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔اس جماعت کے لوگ الیکشن سے پہلے خود کو حکمران سمجھنے لگے ہیں اور ان کا غرور قابل دیدنی ہے۔حالانکہ ساری دنیا میں تحریک انصاف کے کارکن شریف خاندان کے خلاف بھرپور مظاہرے کر رہے ہیں۔دو روز قبل وائٹ ہاﺅس کے باہر ایک بڑا مظاہرہ ہوا جس میں شریف خاندان چور ہے کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔اسی طرح کا ایک بڑا مظاہرہ لندن میں نوازشریف کے گھر کے باہر بھی ہوا جس میں تحریکی کارکن سارا ٹبر چور ہے کا نعرے لگا رہے تھے۔ن لیگ کی طرف سے یہ دعویٰ کہ میاں نوازشریف واپس آ کر جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور پل بھر میں ملکی بحران حل ہو جائیں گے۔شیخ چلی کا خواب لگتا ہے کیونکہ معاشی، سیاسی،آئینی اور معاشرتی بحران اتنا بڑھ چکا ہے کہ دس نوازشریف بھی اکٹھے ہو جائیں تو یہ فوری طور پر حل نہیں ہوسکتے۔
ایک طرف تو ن لیگی زعما بہت بڑی خوش گمانی میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب اہم ترین افراد پر مشتمل تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ آئین اور موجودہ انتظام میں نہ صرف پاکستان کو بحرانوں سے نہیں نکالا جا سکتا بلکہ معاشی مسائل بڑھ گئے تو ملکی سلامتی کو بھی بچانا مشکل ہوگا۔وہ سوچ و بچار کر رہے ہیں کہ کن راستوں پر چل کر پاکستان کی وحدت کو بچایا جا سکتا ہے۔اس وقت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بقول وزیراعظم ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور دیگر گروپوں کے پاس پاکستانی فوج سے زیادہ جدید اسلحہ ہے۔چند روز قبل بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ امریکی اسلحہ سندھ کے ڈاکوﺅں کے پاس پہنچ گیا ہے۔اگر فاٹا، چترال،سوات اور دیگر علاقوں پر ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہے تو اس کے تدارک کے لئے پاکستان کو ایک بڑی جنگ میں جانا پڑے گا جبکہ معاشی سیاسی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔پاکستان اس وقت یکہ و تنہا ہے۔تمام دوست ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔سعودی عرب ریکوڈک کے مالکانہ حقوق کے بدلے میں چند ارب ڈالر دینے کی شرط عائد کر رہا ہے جبکہ ولی عہد نے انڈیا جا کر مودی کے ساتھ ایک سو ارب ڈالر کے معاہدے کر ڈالے۔اسی طرح یو اے ای متنازعہ علاقہ کشمیر میں 80 ارب ڈالر کے منصوبے شروع کر رہا ہے۔حال ہی میں جو جی20 کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی تو کانفرنس ہال کے اندر انڈیا کے نقشے میں جموں اور کشمیر کو اس کا حصہ دکھایا گیا تھا کسی مندوب نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔چنانچہ اہم ترین افرادپر مشتمل تھنک ٹینک کثیر الجہتی تجاویز پر کام کر رہا ہے جس میں سے اہم ترین صدارتی نظام کا نفاذ ہے۔راولپنڈی میں یہ گہرا تاثر موجود ہے کہ موجودہ وفاقی نظام ملک کی وحدت کو کمزور کررہا ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے مطابق وفاق اورصوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم ایسا زہر قاتل فارمولہ ہے کہ وفاق تہی دست اور قلاش ہوگیا ہے۔اس سوچ کے مطابق صوبوں کو ملنے والے وسائل ضائع ہو رہے ہیں اور صوبے تمام فنڈز فضول منصوبوں اور ایم پی اے حضرات کو خوش رکھنے پر خرچ ہو رہے ہیں۔یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر1973 کے آئین کو چھیڑا گیا تو پھر کبھی متفقہ آئین نہیں بن سکے گا۔اگر صدارتی نظام لایا گیا تو عوام اور صوبے اسے مسترد کر دیں گے اگر مجوزہ نظام لاٹھی گولی کے ذریعے لایا گیا تواس کا انجام بھی ایوب خان کے نظام کی طرح ہوگا۔اس کے باوجود مہم جوئی کی گئی تو کئی نئے فتنے سر اٹھائیں گے۔ سیاسی تنازعات اور کشمکش میں اضافہ ہوگا۔ٹکراﺅ اتنا بڑھ جائے گا کہ پاکستان میں ہمیشہ کے لئے برما، مصر اور شام والا نظام نافذ کرنا پڑے گا۔پھر بھی ملک کی سلامتی قائم رہنے کی گارنٹی نہیں ہوگی۔اگر سعودی عرب نے ریکوڈک کے مالکانہ حقوق کے بدلے میں25 ارب ڈالر دئیے تو حکومت کی ایک ٹرم پوری ہو جائے گی۔اس دوران ہاتھ پیر مار کر مزید ذرائع تلاش کرنا پڑیں گے تاکہ معاشی صورتحال بہتر ہو جائے۔ کمزورمعیشت کے ساتھ ملک کو جو دیوہیکل بحران درپیش ہیں ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ایسا نہ ہو کہ دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ اقتصادی طورپر دیوالیہ ملک اپنے ایٹمی اثاثوں کو کیسے سنبھال کر رکھ سکتا ہے۔ امکانی طور پر نریندر مودی اس مسئلہ پر کام کر رہے ہوں گے تاکہ پاکستان کی پوزیشن کو مزید کمزور کیا جا سکے۔آج کل امریکہ نے دوبارہ پاکستان کی جانب اسی خاطر رجوع کیا ہے کہ کہیں ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کی دسترس میں نہ آئیں۔نریندر مودی پاکستان کے سابق مسلم اتحادیوں اور اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک کو اپنی معاشی ترقی کی سحر انگیزی میں لا کر سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے اگر یہی حالات رہے تو سعودی عرب ،یوا ے ای ،مصراور دیگر ممالک انڈیا کی حمایت کرسکتے ہیں۔اگر بھارت ویٹو پاور بن گیا تو یہ ایک بڑی شکست ہوگی بہت بڑی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں