مسیحا یا عطائی
تحریر: انورساجدی
عثمان ڈار کے اقبالی بیان اور سلطانی گواہ بننے کی کہانی میں اصل بات یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف میں دو گروپ ہیں ایک انتہا پسند دوسرا امن پسند اور صلح جو۔انتہا پسند گروپ کی قیادت چیئرمین عمران خان کر رہے ہیں۔ انہی کے حکم پر9 مئی کے واقعات ہوئے۔اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے ذہن میں مائنس عمران خان والا پلان چل رہا ہے۔جسے آئندہ عام انتخابات سے قبل روبہ عمل لایا جائے گا یعنی عمران خان کا گروپ انتخابی عمل سے آﺅٹ ہوگا جبکہ دوسرا گروپ حصہ لینے کا اہل ہو گا ۔ اگر ایسا پلان بن رہا ہے تو یہ سیاسی انجینئرنگ کا بدترین پلان ہوگا جس کے نتیجے میں عام انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے اور دنیا ان کی غیر جانبداری اور ساکھ کو تسلیم نہیں کرے گی۔حکمران چاہتے ہیں کہ عمران خان یا تو جیل کے اندر رہیں یا انہیں نوازشریف کی طرح باہر جانے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔اس مقصد کےلئے ابتدائی گفت و شنید ہوچکی ہے اور عمران خان کے ”دل کا عارضہ“ ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔اگر عمران خان باہر جانے پر راضی ہوئے تو لوگ یہ سنیں گے کہ جیل میں عمران خان کی طبیعت سخت ناساز ہے انہیں دل کا ایسا مرض لاحق ہوگیا ہے کہ جس کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں ہے۔جس طرح نوازشریف کی جیل میں علالت اور پلیٹ لیٹس کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ عمران خان کے دل کا مسئلہ بھی اسی طرح اچھالا جائے گا۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا مقام ایک بار پھر ن لیگ کو دینے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن صورتحال واضح نہیں ہے۔ ن لیگی رہنما کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف مسیحا بن کر آ رہے ہیں حالانکہ پہلے نوازشریف خمینی بن کر آ رہے تھے لیکن سمجھانے پر انہوں نے مسیحا ہونے پر اکتفا کر لیا حالانکہ پاکستان کے عوام ان کی مسیحائی کا مزہ پہلے تین بار چکھ چکے ہیں۔یہ جو88 آئی پی پی ایز کی آفت قہر بن کر ٹوٹ پڑی ہے یہ نوازشریف کی مسیحائی کا نتیجہ ہے۔جب خزانہ خالی ہے تو نوازشریف واپس آ کر کیا کریں گے۔ایک بار پھر خلیج جا کر جھولی پھیلائیں گے اور کینسر کے مرض کے علاج کے لئے اسپرو کی چند گولیاں لے آئیں گے۔اس سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔پہلے تو انہیں کامیابی کےلئے1997 جیسا جھرلو درکار ہوگا کیونکہ عوام ن لیگ پر بھروسہ کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔سونے پہ سہاگہ شہبازشریف کی16 ماہ کی کارکردگی ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ہر روز لوگ غربت اور فاقوں کے باعث بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔نوازشریف اچانک جادو کی چھڑی چلا کر ملک کو فوری طور پر کیسے بحرانوں سے نکالیں گے اس کےلئے کافی وقت درکار ہے جبکہ اوپر کا فیصلہ یہ ہے کہ اختیار کسی کو نہیں دینا ہے۔اگر اقتدار انہیں منتقل نہیں ہوتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر انوارالحق کاکڑ براجمان ہوں یا نوازشریف جلوہ افروز ہوں۔نوازشریف اس وقت عمر کے76 ویں پیٹے میں ہیں اگر وہ اس دفعہ ناکام ہوئے تو یہ ان کی زندگی اور سیاست کا خاتمہ باالخیر ہوگا۔ن لیگ کا بھی وہی حشر ہوگا جو قیوم لیگ،مسلم لیگ کونسل لیگ یا تحریک استقلال کا ہوا۔اگر نوازشریف کو محض نمائشی وزیراعظم بنوانے کے لئے بلایا جا رہا ہے تو یہ ان کےلئے اچھا نہ ہوگا۔انہیں چاہیے کہ وہ پہلے کارآمد مذاکرات کریں اور مکمل اختیار کے بغیر عہدہ یا نام نہاد حکومت لینے سے انکار کر دیں۔بظاہر حالات ایسے ہیں کہ تمام شعبوں پر کامل کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے جو سافٹ ٹیک اوور سے بڑھ کر ہارڈ ٹیک اوور کے برابر ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری سے لے کر جدید زراعت تک تمام شعبے اپنے ہاتھوں میں لے لئے گئے ہیں۔ حکمرانوں کا امیج بڑھانے کے لئے بجلی نادہندگان اور کرپشن کے خلاف زبردست اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ماسٹر ٹائلز کے مالک کے سوا باقی جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ چھوٹے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں کسی مگر مچھ پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا ہے۔اسی طرح افغان مہاجرین سمیت تمام غیر ملکیوں کے انخلاءکا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس فیصلہ کی زد میں بھی عام محنت کش اور غریب مہاجرین ہی آئیں گے۔ نمائشی طور پر چند سو افراد کو واپس بھیج دیا جائے گا جبکہ اکثریت ادھر ہی رہے گی کیونکہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کے دباﺅ پر تمام مہاجرین کو اچانک سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے۔اگر کسی جانب سے مہاجرین کو رکھنے کےلئے نقد رقم کی پیش کش ہوئی تو انخلاءکا فیصلہ ڈانواں ڈول ہوسکتا ہے۔گزشتہ چار برسوں میں ترقی یافتہ ممالک نے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لئے مختلف پاکستانی حکومتوں کو اربوں ڈالر دئیے ہیں یعنی یہ مہاجرین کیش چیک تھے اب جبکہ امداد ملنا بند ہو گئی ہے تو انہیں دھتکارا جا رہا ہے۔اگرچہ لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا بلوچستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے لیکن ریاست نے برسوں تک افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات دے کر بلوچستان میں آبادی کے توازن کو بدلنے کی خاطر استعمال کیا۔1985 سے اب تک کئی افغان مہاجر ایم پی اے،سینیٹر اور وزیر کا عہدہ حاصل کر چکے ہیں۔اب وہ اہم سیاسی جماعتوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ان کی اولاد اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر فائز ہیں۔لہٰذا حکومت کا جلد بازی میں فیصلہ غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس کے نتیجے میں بلوچستان میں آباد 17 لاکھ افغانی واپس نہیں جائیں گے کیونکہ ان لوگوں نے اربوں مالیت کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں اور ان جائیدادوں کو ضبط کرنا اتنا آسان نہ ہوگا۔قانون کی عدم موجودگی میں حکومتی فیصلہ کو عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا جس کے نتیجے میں ان بچوں کو شہریت دینا پڑے گی جو چالیس سال سے یہاں پر مقیم ہیں۔اسی طرح اسمگلنگ کے خلاف حکومتی اعلانات بھی کاسمیٹک کارروائیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ اسمگلنگ کوئی قانونی عمل نہیں ہے بلکہ یہ چوری ہے اور دنیا بھر کے انٹرنیشنل بارڈر پر اس کا سلسلہ جاری ہے۔طویل عرصہ تک سرکاری اہل کار اس میں خود ملوث رہے ہیں سابقہ ادوار میں اہم ملکی ضروریات کے لئے اسمگلنگ کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔خاص طور پر اسلحہ،منشیات اور کرنسی کا ادھر سے ادھر آنا جانا روایت رہی ہے۔ضیاءالحق کے دور میں افغان مجاہدین کو اسلحہ دستاویزات کے بغیر افغانستان اور آزاد علاقوں میں پہنچایا جاتا تھا یعنی یہ اس وقت کی سرکاری پالیسی تھی۔موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے افغانستان کو تمام اشیاءپاکستان سے جاتی تھیں حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر چاول،چینی،گھی اور جانوروں کے پرمٹ جاری کرتے تھے۔یہ عمل طویل سرحدوں پر آئندہ بھی جاری رہے گا اور کیا پتہ کہ آئندہ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے؟۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ طالبان کی موجودہ حکومت اپنے زرمبادلہ کی ضروریات بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید کر پوری کرتی ہے۔اعداد وشمار کے مطابق ہرماہ دو ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان کو منتقل ہوتے ہیں۔ اتنی بھاری رقم اونٹوں، خچروں پر نہیں جا سکتی اس کے لئے ضرور طاقتور لوگ استعمال ہورہے ہوں گے۔جن کی اتنی طاقت ہے کہ رقم محفوظ انداز میں قندھار اور جلال آباد پہنچ جاتی ہے۔اگر تلاش کیا جائے تو ان تمام خرابیوں کی جڑ اور وجوہات پاکستان کے اندر ان کے اپنے طاقت ور لوگوں میں موجود ہے۔نصف صدی سے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ریاست کی کوئی کل بھی اونٹ کی طرح سیدھی نہیں ہے۔معاشرے میں بدعنوانی سرکاری اہل کاروں میں کرپشن اور رشوت اتنی عام ہے کہ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا اس کی وجہ سے ریاستی ڈھانچہ سڑ گل گیا ہے۔اس ڈھانچہ کو ازسرنو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ عام حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہے۔موجودہ بیڈ گورننس کو ختم کرنے کےلئے گریڈ18 اور اوپر کے تمام اہل کاروں کو برخاست کرنا پڑے گا جو کہ عدالتوں کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔سابق چیف جسٹس افتخاراحمد چوہدری کے ریکوڈک کے بارے میں فیصلہ نے پاکستان پر نہ صرف 6ارب ڈالر کا جرمانہ مسلط کیا بلکہ پورا ریکوڈک جس کی مجموعی مالیت سعودی عرب کے تیل سے بھی زیادہ ہے ہاتھوں سے چلا گیا۔پہلے سننے میں آ رہا تھا کہ حکمران25 ارب ڈالر میں سودے طے کر رہے ہیں لیکن جنگ کی رپورٹ کے مطابق یہ سودا گرتے پڑتے 10ارب ڈالر تک آن پہنچا ہے جبکہ سعودی عرب نے گوادر کے بجائے گڈانی میں آئل ریفائنری لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔افتخار چوہدری نے ہی اسٹیل مل کا سودا ناکام بنایا تھا جس کی وجہ سے ریاست کو اب تک کئی کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے۔عجیب بات ہے کہ نگراں حکومت سعودی حکومت سے بڑی ڈیل کرنے جا رہی ہے اور وہ پی آئی اے کو بھی بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ یہ اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس کا کام تو صرف انتخابات کا انعقاد ہے۔ان اقدامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عام انتخابات جلدی نہیں ہونے جا رہے اور ملک کے اعلیٰ حکمران اہم ترین فیصلے کر کے ہی دم لیں گے لیکن حکمران جو بھی کریں جب تک ملک کا سارا نظام تبدیل نہیں ہوگا عارضی اقدامات اور اثاثوں کی نیلامی سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ معاشی بحران دہشت گردی کا عفریت اور دیگر خرابیاں موجود رہیں گی۔ریاست کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت بڑی سرجری کی ضرورت ہے جو کوئی بڑا اور ماہر سرجن ہی کرسکتا ہے۔نوازشریف کو لاکھ مسیحا بنا کر پیش کریں لیکن وہ سرجن نہیں عطائی ہے اور نیم حکیم ہمیشہ خطرہ جان ہی ہوتا ہے۔