حماس کے قہر آلود حملے،نتائج کیا ہونگے؟

تحریر: انور ساجدی
حماس کے اچانک اور قہر آلود حملوں کے بعد دنیا بھر کے مسلمان عوام انتہائی شاداں و فرحان ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ کے بادشاہ ڈکٹیٹر اور سربراہان اس حملہ سے اسرائیل سے زیادہ پریشان ہیں۔حماس کے حملے1973 کی جنگ رمضان کی یاد دلاتے ہیں۔ جب مصر کے نیگرو صدر انور سادات نے بہت ہی خفیہ طریقے سے اسرائیل پر حملوں کی منصوبہ بندی کی حتیٰ کہ سی آئی اے اور موساد بھی اس منصوبے سے بے خبر رہے۔6اکتوبر1973 کو اسرائیل کے قومی دن کے موقع پر جب یہودی جشن منانے کی تیاری کر رہے تھے مصر اور شام کی افواج نے اچانک اسرائیل پر حملہ کر دیا۔حملہ کے ابتدائی چند گھنٹوں میں اسرائیلی جنگی طیارے تل ابیب اور حیفہ کے اڈوں پر تباہ ہوگئے۔ان حملوں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دوست شام کے صدر حافظ اسد کو پائلٹ فراہم کئے تھے۔جنہوں نے کمال دکھایا۔”یوم کپور“ کی یہ جنگ جسے جنگ رمضان بھی کہا جاتا ہے25 دن جاری رہی اگر امریکہ بروقت امداد نہ پہنچاتا تو اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خطرہ تھا۔امریکہ نے ایک طرف جنگی سازوسامان برق رفتاری کے ساتھ اسرائیل کو فراہم کیا تو دوسری جانب سیاسی اور سفارتی کمک بھی پہنچائی۔صدر سادات نے1967کی جنگ کا بدلہ لے لیا تھا تاہم وہ صحرائے سینائی ،غرب اردن اور یروشلم کو اسرائیلی قبضہ سے آزاد نہ کرواسکے جن پر اسرائیل نے تمام عرب ممالک کو شکست دے کر قبضہ کرلیا تھا تاہم1982 میں کیمپ ڈیوڈ کانفرنس ہوئی جس میں مصری صدر انورسادات اسرائیلی وزیراعظم منہم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر نے شرکت کی۔اس کانفرنس کے بعد وائٹ ہاﺅس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں مصری علاقوں کی واگزاری پر اتفاق کیا گیا اس کے علاوہ اوسلو میں طویل مذاکرات کے بعد ایک اور کیمپ ڈیوڈ کانفرنس ہوئی جس میں پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات،اسرائیلی وزیراعظم اسحاق ربین اور امریکی صدر نے شرکت کی۔اس دوران جو معاہدہ ہوا اس میں اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کیا گیا جبکہ فلسطینیوں کوداخلی خودمختاری دی گئی۔پہلے کیمپ ڈیوڈ سمٹ کے بعد انور سادات اور اسحاق ربین قتل ہوئے جبکہ دوسرے سمٹ کے اثرات بھی کچھ اچھے نہ نکلے۔درحقیقت یاسرعرفات جریکو کے علاقے میں ایک قیدی کی حیثیت سے وقت گزار رہے تھے۔اس کے بعد بتدریج فلسطین کا مسئلہ الجھتا گیا کیونکہ اسلامی تنظیم حماس نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر کے اپنی عمل داری قائم کر دی جبکہ پی ایل او صرف چند علاقوں پر قابض تھی۔اسی دوران اسرائیل نے مظالم کا سلسلہ بڑھا دیا۔اس نے پورے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر کے یہودی بستیاں بنائیں غزہ اور دریائے اردن کے مغربی علاقے میں نئی بستیاں تعمیر کیں۔وہ مسلسل ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے تھا۔حماس کے بانی شیخ یاسین اور یاسر عرفات کی موت کے بعد اسرائیل مسلسل حملے کرتا رہا جبکہ شیخ یاسین کی موت کے بعد جدید تعلیم یافتہ شخصیت اسماعیل ہنیہ حماس کے لیڈر بن گئے۔ان کی قیادت میں 6اکتوبر کو یہودی مقدس دن یوم کپورکے موقع پر اچانک اسرائیل پر 8 ہزار میزائل داغے گئے۔فلسطینی فدائین مختلف ذریعوں سے اسرائیل کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔48 گھنٹے تک دوبدو جنگ رہی۔جس میں پانچ سو یہودی مارے گئے یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کا جانی نقصان ہوا تھا اور یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اس کے دفاع کے پرخچے اڑگئے تھے اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے باطل ثابت ہوئے تھے۔حماس کے حملوں کے بعد جو ردعمل آیا دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔امریکہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش تھے جبکہ ایران کی قیادت میں بیشتر اسلامی ممالک نے حملوں کو اسرائیلی مظالم کا نتیجہ قرار دیا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جائے اور ان کی آزاد ریاست کے حق کو تسلیم کیا جائے۔حماس کے بعد لبنان کی حزب اللہ نے بھی جنگ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ سعودی عرب جو کہ مشرق وسطی کا اس وقت اہم کھلاڑی ہے حیران و پریشان ہے کیونکہ اس نے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دیدی تھی لیکن حماس کے حملوں نے نہ صرف اس عمل کو تاراج کر دیا بلکہ امریکہ نے انڈیا سے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک اربوں ڈالر کی لاگت سے جو کاریڈور بنانے کا اعلان کیا تھا وہ بھی بحیرہ روم کی تہہ میں غرق ہو گیا اگر مشرق وسطیٰ یا فلسطین اسرائیل کا تنازعہ مزید آگے بڑھا تو نہ صرف سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے منصوبے سے پسپا ہو جائے گا بلکہ اس کے بے شمار دیگر منصوبے بھی خاک میں مل جائیں گے۔ایک نئی کشمکش اور تنازعہ کا آغاز ہوگا جسے امریکہ سنبھالنے کی بھرپور کوشش کرے گا لیکن یہ طے ہے کہ ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے آئیں گے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کافی عرصہ سے کہہ رہا ہے کہ وہ ایران پر غیر روایتی حملہ کرے گا بلکہ کئی بار سعودی عرب نے سرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنائے جو کہ ممکن نہیں ہے کیونکہ خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی بلکہ عالمی امن واستحکام بھی ختم ہو جائے گا۔حماس کے حملوں نے دنیا کو احساس دلایا ہے کہ فلسطینیوں کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا؟چنانچہ اسرائیل پر دباﺅ آئے گا کہ وہ دو ریاستی حل کی طرف آئے اگر اسرائیل نے انکار کیا تو خطے میں وہ کچھ ہوگا کہ جس کا تصور تک کرنا محال ہے۔
امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نازک ترین صورتحال سنبھالے اور اسرائیل کی یکطرفہ حمایت ترک کر دے ورنہ اس کی اپنی حیثیت اور عالمی لیڈر کارول متاثر ہوگا۔فلسطینی عوام کی مزاحمت ان تمام قوموں کے لئے تقویت کا باعث ہے جو اپنی آزادی اور بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔حالیہ حملوں نے اسرائیل کو وحشی ضرور بنا دیا ہے لیکن اس سے اس کو مزید نقصان ہوگا کیونکہ فلسطینی عوام کے پاس کھونے کےلئے کچھ نہیں ہے جبکہ اسرائیل کے پاس کھونے کےلئے بہت کچھ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں