قاتلانہ عزائم

تحریر: انور ساجدی
موجودہ نگران حکومت کے زعما اور اکابرین اس بات پر مصر ہیں کہ وہ آئینی حکومت ہیں یعنی وہ اپنے لئے لفظ نگران کو پسند نہیں کرتے حالانکہ ازروئے آئین ان کی حیثیت نگران حکومت کی ہے۔شاید ان کا جی چاہتا ہے کہ ان کا دور اقتدار کچھ مزید عرصہ طول کھینچ جائے اور وہ کرسی کے جاہ وجلال کے چند مہینے اور لطف لے لیں۔اگرچہ اسلام آباد کا خدوخال بگڑتا جا رہا ہے اور حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے شہر ضلع اٹک تک پھیل گیا ہے جبکہ اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی وسعت نے اس پانہ تخت کو بہت بڑی وسعت دی ہے۔یہ ائیرپورٹ شہر کے مرکز سے30کلومیٹر دور ہے۔راستے میں پرائیویٹ ہاﺅسنگ اسکیموں کی بھرمار ہے جو اس کے حسن کو تیزی کے ساتھ گرہن لگا رہے ہیں۔اس کے باوجود یہ اب بھی پاکستان کا سب سے خوبصورت اور دنیا کے حسین ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔یہاں پرموجود وزیراعظم ہاﺅس ایوان صدر کے پیچھے مرگلہ پہاڑ کے دامن پرواقع ہے۔یہ ایک وسیع و عریض مرغزار ہے ہر طرف دلکش نظارے دکھائی دیتے ہیں جبکہ راول جھیل کا منظر محو حیرت کر دیتا ہے۔اس جگہ آکر کوئی یقین نہیں کرتا کہ یہ پاکستان جیسے غریب ملک کا وزیراعظم ہاﺅس ہوسکتا ہے۔ شاید دنیا کے کسی بھی ملک کا وزیراعظم ہاﺅس ایسا نہ ہو مثال کے طور پر انگلستان نے ساری دنیا پر حکومت کی لیکن 10ڈاﺅننگ اسٹریٹ پر واقع اس کا وزیراعظم ہاﺅس ہمارے وزیراعظم ہاﺅس کے اصطبل سے بھی کمتر ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم کی رہائش گاہ3کمروں ، ہال اوراسٹاف کے چند کمروں پر مشتمل ہے اگر یہاں کے وزرائے اعظم چاہتے تو بکنگھم جیسا عظیم محل بھی تعمیر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنا نہیں سوچا عوام کا سوچا۔اگرچہ فی زمانہ برطانیہ معاشی اعتبار سے ایک طاقتور ملک نہیں ہے لیکن ماضی میں وہ دنیا کی سب سے بڑا سپرپاور تھا۔آج بھی اس کا شمار چھ بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔چند سال قبل اس کا سابق غلام انڈیا نے درجہ بندی میں اپنے آقا کو پیچھے چھوڑ دیا جبکہ پاکستان کا شمار دنیا کے آخری پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔اس کے باوجود اس کے حکمرانوں کے نخرے ساتوں آسمانوں پر ہیں۔ان کی پرتعیش زندگی اس قوم غریب کی استطاعت سے بڑھ کر ہے۔اتنے بڑے محلات اور لاﺅ لشکر کا بوجھ پاکستان کے غریب عوام اٹھانے کے قابل نہیں ہیں لیکن آج تک کسی بھی حکمران کو اپنے عوام پررتی برابر بھی رحم نہیں آیا جو طور طریقہ بحیثیت نام نہاد چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کا تھا وہی نوازشریف کا تھا اور بعد میں آنے والے ہر ایک وزیراعظم نے شاہانہ لائف اسٹائل میں کوئی تبدیلی نہیں کی حالانکہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیں گے لیکن وہ اپنے اس وعدے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔انہوں نے تو گورنر ہاﺅس کو بھی ختم کر کے انہیں تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا نعرہ لگایا تھا لیکن شواہد بتا رہے ہیں کہ رات بنی گالا میں گزارنے کے باوجود انہوں نے اپنا معیار زندگی مزید بلند کر دیا اور اخراجات میں کمی کے بجائے اضافہ کر دیا۔موصوف تو سات کلومیٹر سفر کے لئے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے جو ان کا روز کا معمول تھا۔نوازشریف تو ویسے بھی ”سلسلہ آہینیہ“ کے فرماں روا تھے۔اس لئے ان کے ناز نخرے سب سے سواتھے۔ہم نے جتنے وزرائے اعظم دیکھے ان میں سے کنجوس ترین شاہد خاقان عباسی تھے جو مہمانوں کو تیز مرچوں والے پکوڑے پیش کرتے تھے جبکہ موجودہ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ وہ سادگی اپنائے ہوئے ہیں اس لئے چائے کے سوا کسی کو کچھ پیش نہیں کیا جاتا۔انوارالحق کاکڑ کا چونکہ اسلام آباد میں کوئی گھر نہیں ہے اس لئے وہ زیادہ تر وقت وزیراعظم ہاﺅس میں گزارتے ہیں ۔میاں صاحب کے دور میں انواع واقسام کے کھانے یہاں موجود ہوتے تھے وہ لاہور کے پسندیدہ ریستوران سے بھی کھانے منگواتے تھے جبکہ کم شہرت کے حامل راجہ پرویز اشرف سب سے زیادہ مہمان نواز واقع ہوئے تھے اس غریب کا نام ن لیگ نے راجہ رینٹل رکھا تھا۔اس نے تو 6 آئی پی پی پیز رینٹ پر حاصل کئے تھے جبکہ میاں صاحب نے 80 کمپنیاں مدعو کیں جس کی وجہ سے پاکستان پر کھربوں روپے چڑھ چکے ہیں۔انہی واجبات کی وجہ سے پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔واپڈا کے سربراہ لنگڑیال صاحب نے سی پی این ای کے وفد کو ایک طویل بریفنگ دی جس میں ہوش ربا انکشافات تھے۔اگرچہ انہوں نے نوازشریف کا نام نہیں لیا تاہم کہا کہ اگر پاکستان نے ان معاہدوں سے روگردانی کی تو نتیجہ ریکوڈک والا نکلے گا۔گویا کھربوں روپے کے واجبات ہر قیمت پر دینے پڑیں گے اور کم از کم 30 سالوں تک دینا لازمی ہے۔یہی ن لیگی نعرہ لگا رہے ہیں کہ 21 اکتوبر کو جب میاں صاحب4سال کی خودساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آئیں گے تو اپنے ساتھ عوام کی تقدیر بدلنے کی تدبیر بھی لائیں گے۔جس کی وجہ سے پاکستان ایک خوشحال ملک بن جائے گا۔میاں صاحب اس وقت سعودی عرب میں ہیں اور چند دن میں یو اے ای ،اسلام آباد اورپھر لاہور جانے کا پروگرام ہے۔ابھی یہ معلوم نہیں کہ وطن واپسی پر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد آئینی ماہرین کے مطابق پہلے انہیں جیل جا کر اپنی سزا شروع کرنا پڑے گی اس کے بعد ان کی اپیل اور ضمانت کی درخواستیں اعلیٰ عدالتوں میں دائر ہوں گی لیکن اپیل اور نظرثانی کے راستے بند ہوچکے ہیں۔ دارالحکومت کے بعض سازشی یہ تک کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو پھنسانے کے لئے گرین سگنل دیا گیا ہے۔ انہیں دام قید میں لایا جا رہا ہے اگر وہ انتخابی مہم تک آزاد نہ ہوئے تو ن لیگ کے ساتھ بہت برا ہوگا۔اس لئے مطالبے شروع ہو جائیں گے کہ الیکشن کو طول دیا جائے یہی بات حکمران چاہتے ہیں۔سی پی این ای کے وفد نے انوارالحق کاکڑ سے پوچھا کہ نوازشریف کے بارے میں ان کی حکومت کی کیا پالیسی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے اس کا فیصلہ قانون کر دے گا۔ان سے پوچھا گیا کہ سعودی عرب جانے کے موقع پر ہیتھرو ائیرپورٹ پر پاکستانی ہائی کمشنر نے انہیں کیوں رخصت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تین دفعہ کے وزیراعظم ہیں اس لئے سفیر نے سوچا ہوگا کہ انہیں عزت دی جائے۔دو گھنٹہ طویل خطاب میں انوارالحق کاکڑ نے سب سے زیادہ بھڑاس میڈیا پر نکالی اور نصیحت کی کہ پرنٹ میڈیا کو اپنا بزنس کا طریقہ کار تبدیل کر دینا چاہیے کیونکہ ٹیکنالوجی بدل چکی ہے اورمیڈیا کی طرف سے سرکاری اشتہارات کا انتظار ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے جتایا کہ جب میڈیا اشتہار مانگے گا تو اس کی کوئی بالادستی نہیں رہے گی حالانکہ اس سے پہلے سیکریٹری اور پی آئی او سے ایڈیٹر حضرات نے کہا کہ حکومت اخبارات کی جگہ خرید کر اپنے اشتہارات شائع کر رہی ہے لہٰذا اگر حکومت اشتہار نہیں دینا چاہتی تو بے شک نہ دے لیکن وہ اپنی تشہیر کے لئے بھی میڈیا سے رجوع نہ کرے اور خبروں کی اشاعت پر بھی پابندیاں عائد نہ کرے۔وزیراعظم نے نیویارک ٹائمز کی مثال دی اور کہا کہ ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے اس اخبار کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ یہ اخبار نہ صرف چل رہا ہے بلکہ مزید ترقی کر رہا ہے۔کسی نے وزیراعظم سے نہیں کہا کہ امریکہ اپنے لوگوں کےلئے ایک جمہوری ملک ہے وہاں پر حکومت اپنی خبروں کی اشاعت اور مخالفین کی خبریں روکنے کے لئے کوئی دباﺅ نہیں ڈالتی اور نہ ہی مخالف صحافیوں کو اچانک غائب کیا جاتا ہے۔اگر پاکستان میں یہ طور طریقہ ختم ہو جائے تو ایس تہلکہ خیز رپورٹس آئیں گی کہ ایک ایک خبر کولاکھوں لوگ دیکھیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں سرکاری اشتہار نہیں چلتے یہ بات تو صحیح ہے لیکن وہاں پر نہ محکمہ اطلاعات ہے نہ ہی پی آئی ڈی ہے اور نہ ہی اے بی سی نام کا کوئی ادارہ ہے۔سارا امریکہ وائٹ ہاﺅس کا ترجمان چلاتا ہے وہاں پر پریس ایڈوائس کا بھی کوئی رواج نہیں ہے۔جہاں تک اخبارات کے بزنس ماڈل اور خبروں کے پیٹرن کا تعلق ہے تو انہیں واقعی بدلنے کی اشد ضرورت ہے لیکن جس طرح کہ پاکستان کا ہر ادارہ ناکام ہے یہاں پر کوئی بھی طریقہ کار کامیاب نہیں ہوسکتا عرصہ ہوا حکومتی اکابرین پرنٹ میڈیا کو مارنا چاہتے ہیں پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے۔غالباً یہ لوگ چاہتے ہیں کہ روس،چین، ترکی،ایران کی طرح صرف حکومتی پرنٹ میڈیا چلے۔ حکومتوں کی یہ خواہش اپنی جگہ ہے لیکن اعلان ہونا چاہیے کہ پاکستان میں کنٹرول ڈیمو کریسی ہے جو حکمران طبقات کے لئے ہے جس میں آزاد پریس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔بہرحال حکومتی پالیسیوں سے پرنٹ میڈیا مشکلات کا شکار ہے۔اس کی لاگت سو روپے اور آمدنی30 روپے ہے تاہم اگر اسے نقصان پہنچا تو بالآخر لوگوں کو محسوس ہوگا کہ ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جسے جھوٹ سے بھرا ہوا سوشل میڈیا پر نہیں کرسکتا۔اگرچہ بیشتر اخبارات ڈیجیٹل دور میں داخل ہوچکے ہیں لیکن یہ عمل اس حد تک نہیں پہنچا کہ اخبارات لاکھوں سبکرائبرز کے ذریعے خودکفالت حاصل کرلیں ۔اس سلسلے میں عوام اور باالخصوص نوجوان یہ قدم اٹھا سکتے ہیں کہ مقابلہ کے موجودہ قاتلانہ دور میں پرنٹ میڈیا کو کیسے زندہ رکھاجاسکتا ہے اور اس کی افادیت میں کیسے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔