تبدیلیاں کیا کیا؟

تحریر:انور ساجدی

دنیا کی ہر تبدیلی کا آغاز کسی ناخوشگوار واقعہ سے ہوتا ہے۔تاریخ اس سلسلے میں واقعات سے بھری پڑی ہے۔6 اکتوبر کو جب یہودی اپنے مذہبی تہوار”یوم کپور“منا رہے تھے تو حماس نے غزہ کی پٹی سے سوئے ہوئے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جس کی وجہ سے نہ صرف اسرائیل پر قیادت ٹوٹ پڑی بلکہ پہلی بار اس کے ہزاروں افراد ہلاک وزخمی ہوئے۔ظاہر ہے کہ یہودی ریاست نے اس کا بدلہ ہر قیمت پر لینا تھا چنانچہ اس نے فوری طور پر بمباری شروع کر دی۔غزہ شہر22 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اسے حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر قبضہ علاقہ سے کاٹ کر اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہے۔مسلسل بمباری سے اب تک کم ازکم 5ہزار فلسطینی جاں بحق اور 15ہزار زخمی ہوئے ہیں۔حسب توقع امریکہ پہلا ملک تھا جو عملی طور پر اسرائیل کی مدد کو کود پڑا۔حماس کے حملہ سے پتہ چلا کہ صیہونی ریاست کھوکھلی ہوچکی ہے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور غلط ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے امریکی طیارے مسلسل اسلحہ اور جنگی سازوسامان لا رہے ہیں یعنی اسرائیل کے پاس اپنے کو بچانے کے لئے جنگی سازو سامان ناکافی تھا۔اس کے ساتھ ہی امریکہ نے ایک نہیں دو بحری بیڑے بھی علاقائی سمندر میں بھیج دئیے ہیں۔امریکی صدر جوبائیڈن بہت ہی طرف دار ثابت ہوئے ہیں ۔انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ حماس کا وجود مٹانا ضروری ہے۔امریکہ اس حد تک اسرائیل کا عاشق ہے کہ جب منگل کی شب اسرائیل نے غزہ کے قریب واقع مسیحی اسپتال پر بمباری کی جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے اس المناک اور افسوسناک واقعہ کے بعد صدربائیڈن نے اسے اسرائیلی حملہ کے بجائے بارود کا دھماکہ قرار دیا تاکہ دنیا بھر میں اس بیہمانہ اور نسل کشی کے اقدام کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف نفرت نہ پھیلے کیونکہ اپنی خفت مٹانے کے لئے اسرائیل نے فوری طور پر دھماکہ کی کہانی گھڑی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اسپتال کا احاطہ اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔امریکہ کی فریفتگی کا یہ عالم ہے کہ اس نے جنگ بندی کی قرار داد مسترد کر دی تاکہ اسرائیل انسانیت کش بمباری کا سلسلہ جاری رکھے۔اس حمایت کا مقصد غزہ کو خالی کروانا ہے تاکہ اسرائیل اس پر دوبارہ تسلط جمائے یہ بات تو درست ہے کہ پنگا حماس نے لیا تھا لیکن اس کے بعد اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے لیکن امریکہ اور اس کے یورپی حواری آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں حالانکہ جب بوسنیا پر سربیا نے حملے کئے تھے تو اس کے صدر کو ہیگ کی عالمی عدالت نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا اور تاحیات قید کی سزا سنائی تھی۔اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن اسرائیل مغربی ممالک کے لاڈ پیار کی وجہ سے تمام بین الاقوامی قوانین اور پروٹوکول سے مستثنیٰ ہے۔کافی سال پہلے اوسلو معاہدہ کے مطابق لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ کے بعد لگتا تھا کہ دو ریاستی فارمولے کے تحت فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اسرائیل نے کبھی ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اس کی ایک بڑی وجہ حماس ہے۔یاسر عرفات کی قیادت میں شیخ یاسین نے غزہ پر قبضہ کر کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی تھی اگرچہ حماس کا یہ موقف درست ہے کہ اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر قائم ہے اس لئے اس کے وجود کا خاتمہ ضروری ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الہامی کتابوں کے مطابق بنی اسرائیل کی سرزمین یہی ہے جہاں آج اسرائیل قائم ہے۔مصر کا ایک حصہ اور پورا اردن اس سرزمین کا حصہ ہے۔اردن انگریزوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف کارکردگی پر بطور انعام بنا کر شریف مکہ کو دیا تھا یہی صورت عراق کی بھی ہے۔یہ جو یورپی ممالک جمہوریت ،انسانی حقوق،بنیادی حقوق وغیرہ کا راگ الاپتے ہیں یہ محض نعرے ہیں۔انہی ممالک نے دونوں جنگ عظیم اور دیگر جنگوں میں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا ہے جبکہ امریکہ نے6اور9 اگست کو پہلی بار جاپان پر ایٹم بم گرائے اس کے باوجود امریکہ جو ہر جگہ آمروں کی حمایت کرتا ہے وہ انسانیت انسانی اقدار اور جمہوریت کا علم بردار بنا پھرتا ہے۔اسے فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی اور نہ ہی ان لوگوں کی فکر ہے جو جنگ میں شریک نہیں ہیں اسرائیل حماس کے بجائے پوری فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔اسے روکنا والا اس لئے کوئی نہیں ہے کہ تمام عرب ممالک کے سربراہان بے غیرت اور خواجہ سرا بن چکے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جو ایک طرف غزہ پر کارپٹ بمبنگ کے احکامات دے رہا ہے تو دوسری جانب اس کے رابطے عرب امارات اور سعودی عرب سے بدستور قائم ہیں۔ البتہ سعودی عرب نے شرمندگی کی وجہ سے اپنا موقف تبدیل کر کے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔صدر بائیڈن فلسطینی عوام کے قتل عام پر ہدیہ تبریک پیش کرنے کی خاطر اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اگرچہ حماس کے حملوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ خاک میں ملا دیا ہے لیکن بالاخر امریکہ اپنے حواری عرب سربراہوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کی سیکورٹی کی ضمانت دیں۔ بدلے میں امریکہ جھوٹے دعوﺅں کے سوا کچھ نہیں دےگا۔مثال کے طور پر سعودی عرب کی اندرونی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔شاہی خاندان کا اتحاد ٹوٹ چکا ہے وہاں پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔امریکہ اسے بیرونی حملوں کی صورت میں دفاع کی گارنٹی دے سکتا ہے۔شاہی خاندان کے تنازعات میں کوئی رول ادا نہیں کرسکتا۔اسی طرح بحرین سعودی عرب کی حمایت کی وجہ سے آمریت کے شکنجے میں ہے کل اگر آمریت کمزور پڑ گئی تو عوام کی اکثریت غالب آ جائے گی۔اگرچہ عرب امارات نے اپنے دفاع،سیکورٹی اور خوش حالی کے لئے بے شمار منصوبے مکمل کئے ہیں لیکن اس کا استحکام علاقائی استحکام کا محتاج ہے۔وہ پہلے ہی یمن پر فوج کشی کی مہم میں ناکام ہوچکا ہے۔ اگر کل مشرق وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ بڑھ جائے گا تو امارات بھی امن کا جزیرہ ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ایک طرف ایران ہے جو حماس، حزب اللہ،شام اور یمن کے حوثی افواج کی مدد کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب سعودی عرب کا اتحاد ہے جو ناکامی سے دوچار ہے۔امریکہ نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ ایران باز آجائے ورنہ اس کےخلاف کارروائی کی جائےگی یعنی کوئی بھی واقعہ جنگ کا دائرہ پھیلا سکتا ہے اس تمام صورتحال میں پاکستان مزے میں ہے کیونکہ علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں وہ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔لہٰذا وہ کسی قسم کا رول ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔قطر اور ترکی دونوں منافقت سے کام لے رہے ہیں۔پاکستان کے اندرونی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہ باہر کی طرف جھانک نہیں سکتا۔یہاں پر مسئلہ درپیش ہے کہ عام انتخابات جنوری میں کروائے جائیں یا انہیں آئندہ سال تک طول دیا جائے۔معیشت کا وہی حال ہے جو عمران خان چھوڑ کر گیا تھا۔ شہبازشریف اور اسحاق ڈار بھی کوئی کمال نہ دکھا سکے۔لطف کی بات یہ ہے کہ نوازشریف کے آنے کے بعد معیشت دوبارہ اسحاق ڈار کے حوالے کی جائے گی جو ہر بار ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ن لیگ یہ نعرہ بھی لگا رہی ہے کہ نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن کر ملک کو غربت اور بدحالی سے نجات دلائیں گے۔کہا جا رہا ہے کہ ان کے پاس معاشی بحالی کا منصوبہ بھی ہے جس کا اعلان وہ21اکتوبر کو مینار پاکستان کے جلسہ میں کرینگے۔مخالفین کا خیال ہے کہ یہ پلان قرض اتارو ملک سنوارو والا معاملہ جیسا ہی ہوگا لیکن ہنوز یہ طے نہیں ہے کہ واپس آنے پر انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑےگا یا وہ ہیرو بن کر لاکھوں عوام کے استقبالی نعروں کا جواب دینگے اور فاتحانہ انداز میں لاہور میں داخل ہونگے۔اگر وہ گرفتار ہوئے تو ن لیگ کو لینے کے دینے پڑیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں