وہ کون؟
تحریر: انور ساجدی
لاہور کے آزاد صحافیوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کا جلسہ اچھا تھا لیکن بہت اچھا نہیں تھا جتنی تیاری تھی جو دعوے تھے ان کے مطابق نہیں تھا۔ن لیگی رہنماﺅں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مینار پاکستان کی جلسہ گاہ میں تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا لیکن یہ دعویٰ باطل ثابت ہوا۔10اپریل 1986 کو بے نظیر کا جو استقبال ہوا تھا اس کا ریکارڈنہ ٹوٹ سکا۔اس زمانے میں لاہور کی آبادی35لاکھ تھی آج ڈیڑھ کروڑ ہے۔آزاد صحافیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر لاہور کے باسیوں نے میاں صاحب کو پذیرائی نہیں بخشی بلکہ شرکاءکا زیادہ تر تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے تھا ۔اس کے باوجود ن لیگ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے پاور شو کو بھرپور کہہ سکیں کیونکہ اس وقت صرف ن لیگ ہی اتنا بڑا جلسہ کر سکتی تھی یا عمران خان2011 جیسا جلسہ کر سکتا ہے لیکن وہ جیل میں ہے اس لئے میدان ن لیگ کے لئے کھلا ہے۔جہاں تک لیول پلینگ کا تعلق ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا سوائے 1970 کے پہلے عام انتخابات کے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا کیونکہ ساری بازی مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے۔اس کی مرضی کہ تین دفعہ لاڈلہ بنا کر نوازشریف کو لائے اس کی منشا کی کس طرح اسے بے عزت کر کے آﺅٹ کر دے اس کی مرضی کہ عمران خان کو آر ٹی ایس فیل کر کے فاتح قرار دے اور اس کی منشا کہ اسے غدار قرار دے کر پابند سلاسل کر دے۔یہ لاڈلہ بدلنا مقتدرہ کا پرانا مشغلہ ہے اور یہ کوئی سادہ عمل نہیں ہے بلکہ کافی پیچیدہ اور سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔عمران خان کو باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت اقتدار میں لایا گیا تھا اور اس کا مقصد داخلی اور خارجی اہداف کو حاصل کرنا تھا داخلی اہداف تو حاصل نہ ہوسکے البتہ امریکہ نے پاکستانی مقتدرہ کی حمایت سے افغانستان سے انخلاءکر کے اور طالبان کو اقتدار میں لا کر اپنا بڑا مقصد حاصل کر لیا۔ عمران خان لاکھ بولتے تھے کہ غیر ملکی مداخلت ٹھیک نہیں افغانستان میں طاقت کا استعمال غلط ہوگا وہ پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی سے بھی مذاکرات کے حامی تھے اور ان کا نکتہ نظر تھا کہ انہیں پاکستان کے اندر لا کر دوبارہ آباد کاری کا موقع فراہم کیا جائے۔اس مقصد کے لئے انہوں نے جنرل فیض حمید کے ذریعے مذاکرات بھی کئے۔ ہزاروں تربیت یافتہ جنگجوﺅں کو واپس لا کر وزیرستان ان کے حوالے کر دیا۔
سیرینا ہوٹل کابل میں جنرل فیض کی ”قہوہ نوشی“ کون بھول سکتا ہے لیکن اس دوران باجوہ اور عمران خان میں اختلافات پیدا ہوگئے جس کے باعث جنرل باجوہ نے اندرون خانہ نوازشریف سے صلح کرلی۔پہلے انہیں باہر بھیجا اور پھر خواجہ آصف کو خصوصی ایلچی بنا کر لندن بھیجا۔
معاملات طے ہونے کے بعد 8 اپریل2022 کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تحریک کا راستہ ہموار کرنے کے لئے آصف علی زرداری کو استعمال کیا گیا لیکن جب ن لیگ کے وارے نیارے ہوئے تو اس نے اور مقتدرہ نے مل کر آصف علی زرداری کو سارے کھیل سے نکال باہر کیا۔باجوہ کے بعد موجودہ مقتدرہ نے بھی اپنی ڈاکٹرائن کے تحت نوازشریف کا انتخاب کیا کیونکہ کئی ایسے کام ہیں جو صرف نوازشریف کرسکتے ہیں۔داخلی طور پر انہوں نے معیشت ٹھیک کرنی ہے لیکن خارجی طور پر بہت بڑے معاملات سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
طالبان کی طرف سے دہشت گردی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے اور فاٹا کے انضمام کی مخالفت شامل ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ پاکستانی مقتدرہ نے خود فاٹا کو کے پی میں ضم ہونے دیا لیکن اب وہ اس فیصلہ کو عملاً تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس کا موقف ہے کہ وزیرستان بہت ہی فلیش پوائنٹ ہے اور کے پی حکومت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ فاٹا کے سات اضلاع کا کنٹرول سنبھال سکے۔چنانچہ آج بھی فاٹا کا بجٹ الگ ہے۔ جرگہ سسٹم آج بھی قائم ہے۔قبائلی ملک صاحبان اور خانوں کو جان بوجھ کر من مانی کی اجازت دی جا رہی ہے۔فاٹا کے انضمام کو تسلیم نہ کرنا اس طرح ہے جس طرح کہ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔اگرچہ آئندہ انتخابات میں کافی وقت ہے اور کھیل کئی مراحل سے گزر کر بدل بھی سکتا ہے لیکن شاہی پروٹوکول سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف کی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اہم مسئلہ درپیش یہ ہے کہ ن لیگ کو کس طرح یک طرفہ طور پر کامیابی دلا کر نوازشریف کے لئے راہ ہموار کی جائے۔اس مقصد کے لئے سارا عتاب اور عذاب تحریک انصاف پر نازل کر دیا گیا ہے اس کے اہم لیڈر غائب ہونے کے بعد پہلے پریس کانفرنس کر کے عمران خان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے تھے لیکن اب نیا چلن یہ نکالا گیا ہے کہ کئی غائب ہونے والے رہنماﺅں کو ٹی وی اسٹیشنوں پر لے جایا جاتا ہے اور وہاں پر ان کا انٹرویو کروایا جاتا ہے۔عثمان ڈار، فرخ حبیب اور تازہ مثال فرزندراولپنڈی اور سابق شیدا ٹلی کی ہے ان کے بارے میں کئی وی لاگرز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں دھکے دے کر علیم خان کے ٹی وی چینل سما پر لایا گیا اور اینکر منیب فاروق سے کہا گیا ہے کہ ان کا انٹرویو یا اعتراقی بیان قلم بند کر دیں یہی شیخ صاحب ہر روز کہتے تھے کہ وہ عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں لیکن 30 دن کا چلہ کاٹنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ریت کی دیوار ہے۔ اگر حالات ایسے رہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ عمران خان جو اب بھی عوام میں پاپولر ہیں انہیں سیاسی اور انتخابیمنظر سے ہٹانے کے لئے اقدامات کہاں تک جائز ہیں اگر ایسے ماحول میں عام انتخابات کروائے گئے اور بلامقابلہ رنگ میں نوازشریف کا ہاتھ اوپر کیا گیا کہ یہ فاتح ہیں تو کون ایسے انتخابات کو تسلیم کرے گا۔نوازشریف کی وطن واپسی سے قبل بڑا دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک جامع پروگرام دیں گے لیکن مینار پاکستان کے جلسہ میں وہ کوئی روڈ میپ دینا بھول گئے ان کے خطاب کا حاصل یہ تھا کہ تمام ریاستی ستون مل کر چلیں تب بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے یعنی وہ مقتدرہ کو پیغام دے رہے تھے کہ میرے ساتھ تعاون کرو مجھے چوتھی بار اقتدار میں لاﺅ تو ملک بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔وہ اپنے پھوں پھاں والے بیانات کے برعکس مفاہمت اور صلح کی درخواست کر رہے تھے ۔ان کی آمد کسی رکاوٹ کے بغیر ہوئی اور انہیں ائیرپورٹ پر کافی پروٹوکول دیا گیا جبکہ عدالتوں کی جانب سے ان کی ضمانت آنے سے پہلے ہی منظور کی جا چکی تھی۔انہوں نے اسلام آباد ائیرپورٹ پر رک کر اپنی سزاﺅں کے خلاف اپیل کے پروانوں پر دستخط کئے یعنی انہیں یقین ہے کہ ان کی سزاﺅں کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔اگرمیاں صاحب کی اپیلوں کا فیصلہ جلد نہ ہوا تو عام انتخابات میں تاخیر یقینی ہوگی اور بلاول کی بات سچ ثابت ہو جائے گی کہ انتخابات کا عمل آئین پر عمل درآمد اور دیگر معاملات کو ایک شخص کی خاطر روکا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب تک نوازشریف کے مقدمات کا مسئلہ کلیئر نہ ہو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ممکن نہیں ہے۔بھلے اس دوران ملک کا جتنا نقصان ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جہاں تک مجموعی معاملات کا تعلق ہے وہ اسی طرح رہیں گے ایک سیکورٹی اسٹیٹ کے جو تقاضے ہیں وہ پورے ہوتے رہیں گے۔ افغانستان اور ٹی ٹی پی کے بارے میں پالیسی جاری رہے گی۔پاکستانی حکومت جان بوجھ کر ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کر رہی تاکہ آزاد سیاسی عناصر سر نہ اٹھا سکیں۔ نوازشریف کو یہ ضرور موقع ملے گا کہ وہ انڈیا اور افغانستان سے بات چیت کا راستہ اختیار کریں لیکن کوشش ہوگی کہ امن کا راستہ نکل نہ آئے اور کشمیر کے مسئلہ کے بغیر امن قائم کرنا مشکل ہے ۔ نوازشریف بھی باجوہ کی طے کردہ ترجیحات یعنی ریکوڈک کی نیلامی پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل کی فروخت پر عمل درآمد کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں آئین پر مل کر چلنے کی جو بات کی ہے وہ ان کے پرانے موقف کا اعادہ ہے اور یہی نکتہ سب سے زیادہ پرخطر ہے۔ماضی میں بھی اسی مسئلہ پر نوازشریف اور مقتدرہ کے درمیان لڑائی ہو چکی ہے اوراسی مسئلہ پر عمران خان گھر بلکہ جیل جا چکے ہیں اسی مسئلہ پر آصف علی زرداری کے لئے پسندیدگی نہیں پائی جاتی۔اگر نوازشریف نے اقتدار میں آ کر اس مسئلہ پر زور دیا تو یقین جانیے کہ عمر کے اس آخری حصے میں ان کا سیاسی کیرئیر اختتام پذیر ہوگا جس کے نتیجے میں انہیں اپنے اصلی گھر یعنی لندن جانا پڑے گاور ایون فیلڈ کے فلیٹ یا نواحی علاقوں میں واقع کسی ایک محل میں باقی ماندہ زندگی گزارنا پڑے گی۔میاں صاحب کے صاحبزادوں کا فیصلہ ہے کہ وہ کبھی پاکستان نہیں آئیں گے۔حسین شریف دبئی تک تو والد کے ساتھ آئے لیکن وہاں سے واپس لندن لوٹ گئے۔اگر نوازشریف نہیں، عمران خان نہیں،زرداری نہیں تو کون ہوگا؟ جیسے کہ میاں صاحب نے لاہور کے جلسہ میں یہ خطرناک سوال کیا کہ وہ کون تھا جس نے رکاوٹیں ڈالیں اور انہیں اپنی والدہ اور اہلیہ کی موت پر آنے سے روک دیا؟۔