کابلی والا

تحریر: انور ساجدی
کابلی والا ہندوستان کے شہرہ آفاق شاعر،ادیب اور نوبل انعام یافتہ دانشور رابندر ناتھ ٹیگور کی مشہور کہانی ہے جو اس نے1913 میں لکھی تھی۔یہ کہانی پختونوں کے تناظر میں لکھی گئی ہے جو انسانوں کے درمیان پیار محبت اور انسانیت کی کہانی ہے۔ہوسکے تو اس کہانی کو نیٹ پر نکال کر پڑھا جائے تو بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جائے گی۔یہ کہانی اس لئے یاد آ گئی کہ آج کل ان افغان مہاجرین کو پاکستان بدر کیا جا رہا ہے جو بہت ہی غریب،نادار اور افتادگان خاک ہیں۔جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔سستی مزدوری کر کے پیٹ پالتے تھے جن کے بچے سڑکوں پر کاغذ اور کچرہ چن کر پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔کئی بچے ایسے بھی دیکھے گئے جو کچرہ دانوں میں پڑے گلے سڑے کھانے اور پھل بھی نکال کر کھا رہے ہوتے تھے یہ اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس جعلی کاغذات تیار کرنے اور شناختی کارڈ بنانے کے پیسے نہیں تھے ورنہ جو صاحب ثروت افغان مہاجرین تھے انہوں نے کب کے شہریت کی دستاویزات تیار کر رکھے تھے اور وہ پاکستانی کی حیثیت سے نہ صرف کاروبار اور اور تجارت کرر ہے ہیں بلکہ مختلف شہروں کے پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔کوئی افسر کوئی پولیس اور سرکاری اہل کار ان کی طرف جانے کی جرات نہیں کرتا۔اللہ جھوٹ نے بلوائے 1981 میں آئے ہوئے کم از کم تین افغان مہاجر بلوچستان اسمبلی اور پاکستانی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں اور انہوں نے وزارتوں کے مزے بھی لوٹے ہیں۔اس بات پر تو کسی کو اعتراض نہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جائے لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ قانون کا اطلاق یکساں نہیں ہے اور انصاف سارے عمل میں مفلوج اور مفقود دکھائی دیتا ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے افغان مہاجرین کی واپسی بہت خوشی کی بات ہے کیونکہ ان لوگوں کی موجودگی میں اچھی خاصی ڈیمو گرافی تبدیل ہو چکی ہے۔کوئٹہ سے لے کر جنوبی وزیرستان کے ویرانوں تک انسانی آبادی بہت کم دکھائی دیتی ہے لیکن افغان مہاجرین کی وجہ سے آبادی کے ایک حصہ کو کافی غلبہ حاصل ہے۔چنانچہ مقامی لوگ اس خوف میں مبتلا تھے کہ اگر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ نہ روکا گیا تو مستقبل میں آبادی کا توازن مکمل طورپر بگڑ جائے گا کیونکہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کی ابتداءمیں تو چار ملین مہاجرین بلوچستان آکر پناہ گزین ہو گئے تھے ان کی اکثریت ضیاءالحق کی مہربانی سے یہیں کے ہو کر رہ گئے اور بہت کم لوگ واپس گئے۔بعد ازاں کابل پر نام نہاد مجاہدین کے قبضہ،قتل عام اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جو مہاجرین آئے انہیں کبھی رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ان کی غالب اکثریت بھی بلوچستان اور پشتونخواہ میں مقیم ہے جبکہ 2سال قبل افغانستان سے امریکی انخلاءکے بعد سے مہاجرین کے جو تازہ جتھے آئے ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔پاکستان کی مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کل17لاکھ افغان مہاجرین رجسٹر ڈ ہیں اور جو غیر قانونی طورپر مقیم ہیں ان کے صحیح اعداد و شمار نہ وفاق کے پاس ہیں اور نہ ہی صوبوں کے پاس۔یعنی پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس کا جب جی چاہے وہ یہاں کا رخ کرے سکون سے رہے کاروبار کرے ڈاکہ مارے چوری کرے منشیات بیچے کوئی پوچھنے والا نہیںہے۔ پاکستانی مقتدرہ نے پہلی بار ہوش مندی کا فیصلہ کیا ہے جس سے بلوچستان کے لوگ مطمئن ہیں لیکن اس عمل میں کوئی توازن کوئی پختگی اور انصاف نظر نہیں آتا جس سے ایک انسانی المیہ نے جنم لیا ہے۔عجیب بات ہے کہ پختون اور شمالی افغانستان کے لوگوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا جا رہا ہے لیکن ہزارہ جات سے آنے والے لوگوں کو افغان شہری شمار نہیں کیا جاتا اور گورنرموسیٰ ایک حکم نامے کے تحت انہیں لوکل سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے۔ہزارہ کی پرانی آبادی تک تو بات ٹھیک ہے لیکن ہر روز آنے والوں کو لوکل قرار دینا اور انہیں کسی تحقیق کے بغیر پاکستانی شہریت ودیعت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ہزارہ ایک پڑھی لکھی کمیونٹی ہے۔جنرل موسیٰ کے بعد1980 کی دہائی میں بلوچستان کے سرکردہ قوم پرست لیڈر میر غوث بخش بزنجو نے اپنی پارٹی کے لیڈر سینیٹر حسین ہزارہ کا ہاتھ اونچا کر کے قرار دیا تھا کہ جس طرح غوث بخش بزنجو لوکل ہیں ہزارہ بھی اسی طرح لوکل ہیں۔انہوں نے تو نیک نیتی سے کام لے کر اپنا فیصلہ دیا تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس فیصلہ کا انتہائی ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ہزارہ جات سے آنے کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو کوئٹہ کے مقامی لوگ اقلیت میں چلے جائیں گے اور چند سالوں کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کی اکثریتی آبادی یہی لوگ ہوں گے۔اس وقت ان کے پاس دونشستیں بھی ہیں چند سالوں میں کوئٹہ کی مکمل نمائندگی ان کے پاس ہوگی لہٰذا یہ قدیم ہزارہ برادری کا اپنا فرض ہے کہ وہ انصاف سے کام لے اور1966 کے فیصلہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا سلسلہ بند کر دے۔مہاجرین کے انخلاءکا سب سے بڑا انسانی المیہ یہ ہے کہ بیمار، نادار اور بھوکے ننگے کمسن بچے اس کی زد میں آ رہے ہیں جبکہ انہیں یہ موقع فراہم نہیں کیا گیا کہ صاحب جائیداد لوگ اپنی جائیدادوں کو فروخت کر کے جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن،محسن داوڑ اور دیگر رہنما یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سرکار جانے والوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر رہی ہے جو کہ ناانصافی ہے۔حکومت کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی جا چکی ہے ہوسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کوئی منصفانہ فیصلہ کرلے۔یہ شاباشی کی بات ہے کہ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ جو کہ خود زمانہ ہوا افغان باشندہ تھے اور بلوچستان کے وزیر اطلاعات جناب جان اچکزئی جن کے قبیلہ کی اکثریت سرحد کے اس پار آباد ہے اور اچکزئی سے مراد افغان شہری لیا جاتا ہے وہ دلیری کے ساتھ اقدامات کر رہے ہیں لگتاہے کہ دونوں اکابرین سچے پاکستانی بن چکے ہیں اور ایک طرح سے جو عمل کر رہے ہیں وہ الٹرا نیشنلسٹ پاکستانی ہی کر سکتے ہیں۔پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دادا قاضی جلال دین افغانستان سے ریاست قلات آئے تھے اور ریاست کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے جس کے بعد یہ خاندان مستقل طور پر پشین میں آباد ہوگیا جبکہ قاضی عیسیٰ بانی پاکستان کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی شہریت کے قانون میں کوئی سقم ہے جس میں یہ طے نہیں ہے کہ کوئی شخص کتنا عرصہ اس ملک میں مقیم ہونے کے بعد شہریت کا حقدار ہو جائے گا۔مغرب کے کافر ممالک میں یہ دستور ہے کہ جو بچہ جس ملک میں پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود شہری بن جاتا ہے جبکہ بعض ممالک میں تو6سال مقیم رہنے کے بعد متعلقہ ملک کی شہریت کی درخواست دی جا سکتی ہے۔بدقسمتی سے دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں اگر کوئی تین نسل بھی گزارے پھر بھی شہریت کا اہل نہیں ہوتا۔چنانچہ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ شہریت کے قانون میں تبدیلی لائیں تاکہ آئندہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوسکے۔
حسب دستور بلوچستان کے سیاسی پرندوں نے ہوا کے رخ پر پرواز شروع کر دی ہے یہ مخلوق جو کہ مقتدرہ کی منقولہ اثاثہ ہے انہوں نے مسلم لیگ ن کی طرف منتقلی شروع کر دی ہے۔
یہ مخلوق تو ہمیشہ سے موجود تھی لیکن 1985 میں جنرل ضیاءالحق نے پورا بلوچستان ان کے حوالے کر دیا تھا تب سے یہ لوگ یا ان کی باقیات ہر اس جماعت کی زینت بن جاتے ہیں جن کے اقتدار میں آنے کا امکان ہوتا ہے۔یہ مخلوق1985 میں جونیجو لیگ2002 میں ق لیگ2008 میں پیپلز پارٹی اور2018 میں تحریک انصاف اور خودساختہ باپ پارٹی کا حصہ تھے۔ان کی ایک غالب اکثریت مسلم لیگ ن کی زینت بننے والی ہے کیوں کہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ آئندہ باری ن لیگ کی ہے۔چنانچہ ایک درجن کے قریب ان آزمودہ کارگرگ باراں دیدہ الیکٹیبلز نے سابق اسپیکر ایازصادق سے ملاقات کر کے ن لیگ میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ایسے فیصلوں سے ن لیگ کی تجربہ کار قیادت پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے یعنی وہ جمہوریت ووٹ کو عزت دو وغیرہ کے جو نعرے لگا رہے ہیں وہ سب ڈھکوسلہ ہے۔