درد کا رشتہ

تحریر: انور ساجدی
پاکستانی سیاست سرکس کی مانند ہے اس میں زیادہ تر ایکٹ کرنے والے”جوکر“ یا مسخرے ہیں۔کئی سال پہلے سردار عطاءاللہ خان مینگل نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ لیاقت علی خان کے بعد کبھی کسی وزیراعظم کو اختیار نہیں ملا۔ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں ایک ”توا“ رکھا ہے جو بھی سیاست دان اندر جاتا ہے اس توے کی سیاہی اپنے چہرے پر مل کر واپس آ جاتا ہے۔
اپنی برطرفی،بے عزتی اور گرفتاری کے بعد یہی بات نوازشریف نے لندن میں جا کر کہی تھی مگر افسوس کہ انہوں نے ملک کے ماضی اور خود اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔لندن سے واپسی پر وہ دوبارہ 1990 والا کھیل کھیل رہے ہیں۔
الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد انہوں نے اقتدار میں آنے کے لئے وہی طور طریقے اختیار کئے ہیں جو انہوں نے1990،1997اور2013 میں اختیار کئے تھے یہ دراصل سیاست برائے اقتدار کا کھیل ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کی پوزیشن اچھی ہے لیکن اگر میدان میں کوئی مقابلہ نہ ہو تو ۔اگر تحریک انصاف موجود ہو تو ن لیگ کے لئے مقابلہ جیتنا اتنا آسان نہ ہوگا۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ امپائرز کو ساتھ ملا کر کھیلتی ہے ورنہ اسے بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ صرف ن لیگ پر موقوف نہیں تحریک انصاف زیرعتاب ہونے کے باوجود رحم کی طالب اور صلہ رحمی کا مطالبہ کر رہی ہے۔زرداری صاحب ہر روز اعلان کرتے ہیں کہ وہ بلاول کو ضرور وزیراعظم بنا کر دم لیں گے حالانکہ یہ بات قبل از وقت ہے۔یہ تو الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ شاید زرداری کو معلوم ہے کہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے اس لئے زرداری ادھر ادھر تاڑکر نئے سیٹ اپ یا آئندہ حکومت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں لیکن نظر نہیں آرہا ہے کہ ان کو کوئی مناسب حصہ ملے گا بلکہ ن لیگ کوشش کر رہی ہے کہ سابقہ ادوار کی طرح سندھ کو پیپلز پارٹی کی گرفت سے آزاد کروایا جائے اس مقصد کےلئے اس نے ابتدائی طور پر ایم کیو ایم سے مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ن لیگ اور ایم کیو ایم اس خوش فہمی میں ہیں کہ تحریک انصاف کا کراچی سے بوریا بستر گول ہوا ہے اس لئے مال غنیمت ان کے ہاتھ لگنے والا ہے۔اسی طرح ن لیگ جی ڈی اے اور دیگر پی پی مخالف عناصرکو یکجا کر کے سرپرائز دینے کی کوشش کر رہی ہے ن لیگ کو چونکہ تازہ تازہ این آر او ملا ہے اس لئے اس کا خیال ہے کہ پنجاب میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں ہے لیکن سرکس کے ماسٹر عین موقع پر کیا کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔چونکہ یہ حوادث کا ملک ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں حالانکہ بظاہر الیکشن کے التواءکا کوئی امکان نہیں ہے لیکن دہشت گردی جس طرح سر اٹھا رہی ہے اور اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جہاں تک ممکنہ یا متوقع وزیراعظم نوازشریف کا یہ کہنا کہ وہ چند ماہ بعد برسراقتدار آکر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے سیاسی بڑھک بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔میاں صاحب نے پہلی بار یہ نعرہ1990 میں لگایا تھا لیکن اسی دوران سنگاپور ملائیشیا اور انڈونیشیا معاشی دیو بن گئے جبکہ پاکستان نحیف و نزار ہوکر بلی بن گیا۔اب جبکہ معاشی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اسے ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ صرف انتخابی نعرہ ہے۔1990 سے لے کر اب تک بوجوہ نوازشریف خود معاشی اعتبار سے ٹائیگر بن گئے اگرچہ ان کی دولت کا شمار نہیں لیکن تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ وہ ملک کے دولت مند ترین شخص ہیں صرف یوکے میں ان کی ساڑھے تین سو جائیدادیں ہیں جو کہ آف شورکمپنیوں کے نام پر ہیں۔میاں صاحب تو میاں صاحب ان کے متعلقین اور لواحقین بھی ارب پتی بن چکے ہیں۔مثال کے طور پر وطن واپسی سے قبل نوازشریف نے دبئی کے جس عالی شان محل میں قیام کیا وہ ان کے سمدھی اسحاق ڈار کی ملکیت ہے جو ان کے بیٹے کے نام پر ہے۔ یہ برخوردار میاں صاحب کے خوش نصیب داماد ہیں۔ میاں صاحب نے جب سے جدہ کے شاہی محل میں قیام کیا ہے اس کے بعد سے چھوٹے موٹے مکانات میں رہنا انہیں اچھا نہیں لگتا۔رائے ونڈ کی اسٹیٹ کو دیکھئے18سو ایکڑ پر مشتمل یہ دنیا کا سب سے بڑا رہائشی علاقہ ہے۔چوتھی بار وزیراعظم بن کر انہیں اسلام آباد میں ایک محل بنانے کی ضرورت ہے۔ شاید انہوں نے اسلام آباد میں اس لئے کوئی محل نہیں بنایا تھا کہ یہاں پر وزیراعظم ہاﺅس واقع ہے اور انہوں نے سمجھا تھا کہ وہ ہمیشہ اس محل میں رہیں گے لہٰذا انہیں الگ سے رہائش گاہ کی ضرورت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چھانگلہ گلی میں عظیم الشان محل بنوایا ہے۔پاکستان آمد کے بعد انہوں نے چند دن اس خوبصورت محل میں قیام کیا جہاں کے نظارے لندن سے زیادہ محصور کن ہیں۔اس مقام پر کئی دیگر شخصیات کے محلات بھی ہیں جن میں شاہد حامد بھی شامل ہیں جو کہ مسلم لیگی لیڈر قاضی محمد عیسیٰ کے برادرنسبتی ہیں۔1990 میں جب نوازشریف وزیراعظم بنے تھے تو وزیراعظم ہاﺅس زیرتعمیر تھا اس لئے انہوں نے کافی عرصہ چوہدری شجاعت کے گھر قیام کیا تھا جو بظاہر ایک ایکڑ پر مشتمل ہے لیکن وہ سلسلہ آہنیہ کے بانی میاں نوازشریف کے شایان شان نہیں ہے۔
پاکستان کے مالی حالات اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ نگراں حکومت نے دوست ممالک سے پانچ ارب ڈالر قرضہ یا عطیہ حاصل کرنے فیصلہ کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان حالات کو نوازشریف آناً فاناً کیسے تبدیل کریں گے اور چہ جائیکہ وہ اسے ایشین ٹائیگر بنا دیں۔میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ پہلے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بارے میں سوچیں پاکستان کو جس معاشی بدحالی کا سامنا ہے اس کی موجودگی میں یہ ریاست کبھی معاشی ٹائیگر نہیں بن سکتی۔اس کے لئے ریاست کو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی ضرورت ہے اور آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ریاستی اداروں کے ٹکراﺅ کی موجودگی میں وہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے جو میاں صاحب اور دیگر سیاسی لیڈر چاہتے ہیں۔بلوچستان حکومت کے سینئر وزیر یا ڈپٹی چیف منسٹر جان اچکزئی روز پریس کانفرنس کرتے ہیں وہ ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں صوبہ کے دیگر نگراں وزیر عمومی طور پر خاموش رہتے ہیں اس لئے حکومت کی ترجمانی کا فریضہ جان اچکزئی ادا کر رہے ہیں کیا معلوم کہ وہ نگراں حکومت کے تمام امور بھی چلا رہے ہوں وہ جدید دور کے ڈیجیٹل میڈیا کے ماہر ہیں اور باہر رہ کر انہوں نے پبلسٹی کا فن خوب سیکھا ہے۔تھوڑے ہی عرصے میں وہ سارے ملک میں مشہور ہوگئے ہیں بلکہ اپنے وزیراعلیٰ سے زیادہ شہرت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔اگر جان اچکزئی الیکشن کے بعد ملک سے باہر نہ گئے تو وہ کسی بھی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں البتہ اس کے لئے انہیں اپنا حلقہ انتخاب بنانا ہوگا جس کے بعد وہ منتخب نمائندے کی حیثیت سے زیادہ فعال کردار ادا کرسکیں گے۔