قومی اثاثے میاں صاحب کے حوالے

تحریر: انور ساجدی
سنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈر تین دفعہ کے سابق وزیراعظم اور چوتھی دفعہ کے متوقع امیدوار بہت جلد کوئٹہ تشریف لے جارہے ہیں۔ جہاں مقتدرہ کے ان اثاثوں کو یا امانتوں کو میاں صاحب کے حوالے کیا جائیگا جو ن لیگ کو ایک بار پھر زینت بخشنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ قومی اثاثے 1985 کے غیر جماعتی اور بعد کے حالات کی پیداوار ہیں ان کا کام ہر اس جماعت می شمولیت اختیار کرنا ہے جسے مرکز یا صوبوں میں برسراقتدار آنا ہو۔ یہ موسمی پنچھی ہوا کے رخ پر چلتے ہیں اور ان کا بسیرا ٹھیک اقتدار کی شاخوں پر ہوتا ہے۔ فی زمانہ اس مخلوق کو الیکٹبلز کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے اپنے علاقوں کے معززین ہوتے ہیں، ان میں بعض سردار، بعض نواب، کچھ میر، کچھ گزیر ، چند خان اور ہر طرح کا طبقہ شامل ہوتاہے ۔ یہ جو مخلوق ہے اس کی جان اقتدار کے طوطے میں بند ہے کیونکہ یہ حکومت اور وزارتوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کا سفر بڑے بڑے سرکاری قافلوں میں ہوتا ہے۔ یہ پروٹوکول کے شدید عادی ہوتے ہیں اور عمومی طور پر اپنے گھر کھانا نہیں کھاتے بلکہ ہر روز مفت کی دعوتیں اڑاتے ہیں۔ یہ جب بڑی بڑی گاڑیوں کا قافلہ لے کر چلتے ہیں تو دیکھنے والے غریب اور مفلوک الحال عوام کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ایم پی اے بن کر ان کی پانچوں گھی میں اور وزارت مل جاتے تو سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔ یہ کہنے کو تو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں لیکن سال کا سارا ترقیاتی بجٹ ہڑپ کرجاتے ہیں اور عوام کے لئے صرف تسلی اور ہمدردی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ نیچے نہیں اوپر دیکھتے ہیں، نیچے والی مخلوق کو وہ کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں جبکہ اوپر والے ان کے لئے بھگوان کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی آشیر باد کے بغیر انہیں کامیابی نہیں مل سکتی، اپنی طویل زندگی میں ان کے کرنے کا واحد کام سوشل میڈیا پرتعریفی اور توصیفی بیانات جاری کرنا ہوتا ہے۔ ان کے منشی یا سیکریٹری ایک ہی بیان اپنے پٹارے میں رکھتے ہیں جو نام بدل کر ہر حکمران کی حمایت میں ہوتا ہے ان میں سے کئی لوگ اپنی گاڑیوں کے پیچھے اپنے القابات بھی لکھ ڈالتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ اپنے کو نواب، نوابزادہ، سردار اور خان اعظم کہلوانے پر خوش ہوتے ہیں کچھ ٹرکوں کے پیچھے بھی ان کی تصاویر اور تعارفی جملے درج ہوتے ہیں۔
الیکٹیبلرز تو ہر دور اور ہر صوبے میں ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی بات ہی الگ ہے کیونکہ اسے ابھی تک پورے صوبے کا درجہ نہیں ملا اس لئے یہاں عام انتخابات کی بجائے قرعہ اندازی سے کام لیا جاتا ہے۔ انتخابات سے پہلے ایک فہرست تیار کی جاتی ہے جس کی باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے، این او سی ملنے کے بعد پولنگ کے دن فہرست میں درج ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد وفاداری بطور شرط استواری قرعہ فال میں ان کے نام وزارتیں نکلتی ہیں۔ جو جتنا زیادہ وفادار انعام میں اتنی بڑی وزارت، بڑی وزارت سے مراد وہ محکمہ جس میں فنڈز زیادہ ہوں۔ جو ٹیم بنتی ہے اس کا کپتان بھی بنتا ہے ، کپتان کا انتخاب اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ کسی کام میں بھی چوں چراں نہ کرے بلکہ اہم فائلوں کو پڑھے بغیر بلکہ آنکھیں بند کرکے دستخط کردے۔ ایسے تابعداد اور فرماں بردار بچوں کو مزے سے حکومت کرنے، حکومت کیا بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے لئے زاد راہ جمع کرنے کا پورا حق اور اختیار دیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں صرف ایک انتخاب غلط ثابت ہوا وہ تھے جام کمال خان عالیانی وہ نہ صرف اپنے ایم پی ایز حضرات کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے بلکہ وزراءکو بھی ملاقات کے لئے پیشگی وقت لینا پڑتا تھا۔ انہوں نے فنڈز کا اجراءبھی روک رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ سب نے مل کر ان کا دھڑن تختہ کردیا۔ ان کی جگہ میر عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر لایا گیا وہ بہت ہی موزوں شخصیت تھے کیونکہ اکثر وہ محو خواب رہتے تھے۔ دن کے بیشتر اوقات ان کا عملہ فراغت میں ہوتا تھا جبکہ رات کو وہ رت جگا کرتے تھے ان سے واحد کام ریکوڈک کی ڈیل پر انگوٹھا حاصل کرنا تھا لیکن وہ ہوشیار اتنے تھے کہ انگوٹھا مفت میں نہیں لگایا ہوگا۔ عمران خان اور باجوہ سر نے ضرور اتنے بڑے کام کے عوض بچے کو اچھی خاصی بڑی شاباشی دی ہوگی انہیں باپ پارٹی کا سربراہ بھی اسی مقصد کے لئے بنایا ہوگا کہ کام نکلنے کے بعد وہ بے نیل مراد واپس لوٹ گئے اور ابھی تک ان کا علاج جاری ہے۔ قدوس بزنجو اور ساتھیوں نے آصف علی زرداری کو پکی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی کو زینت بخشیں گے لیکن بڑوں کے منع کرنے پر وہ پسپاہوگئے، نہ صرف یہ بلکہ بڑوں نے فیصلہ کیا کہ باپ پارٹی کو زندہ رکھا جائیگا یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کو بھی ن لیگ میں جانے سے منع کردیا گیا بلکہ پوری حکومت انہیں دیدی گئی۔ چونکہ میاں صاحب کی واپسی کے بعد فضا بدل گئی ہے تو باپ پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے الیکٹیبلز مسلم لیگ ن میں جارہے ہیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار اس جماعت کو رونق بخش چکے ہیں اور بے وفائی کرنے میں بھی کوئی دیر نہیں لگائی۔ اس کے باوجود میاں صاحب کو انہیں ایک بار پھر لینے میں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ بڑے قیمتی لوگوں کے اثاثے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہونے والی ہے کہ نوابزادہ خالد خان مگسی کی سربراہی میں ن لیگ اور باپ پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد قائم ہوگا جس طرح کا اتحاد سندھ میں ن لیگ اور ایم کیو ایم کے درمیان طے پایا ہے اور بہت جلد جی ڈی اے بھی اس اتحاد کا حصہ ہوگا۔ کوئی بعید نہیں کہ پنجاب میں ن لیگ استحکام پاکستان پارٹی اور پختونخواہ میں پرویز خٹک کی جماعت سے الیکشن اتحاد قائم کرلے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی قیادت میں کس نوع کی حکومت قائم ہوگی اور وہ کیا کیا کارنامے انجام دے گی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے ہر قیمت پر چوتھی دفعہ وزیراعظم بننا ہے کیونکہ اس کے بعد انہیں کبھی اس کا موقع نہیں ملے گا۔
میاں صاحب 1990 سے 2022 تک تین دفعہ حکومت میں رہے ہیں، ہر دفعہ ان کی مقتدرہ سے لڑائی ہوجاتی تھی اور انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑتا تھا لیکن غالباً اس مرتبہ وہ سابقہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے بلکہ اپنی حدود و قیود میں رہ کر اپنا وقت پورا کریں گے تاکہ یہ ریکارڈ قائم ہوجائے کہ میاں صاحب 80 سال کی عمر میں بھی وزیراعظم رہے۔ کام تو خیر ان سے بھی کوئی نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ سی پیک کے تحت مہنگے داموں وہ سکھر سے حیدر آباد تک موٹر وے بنا لیں گے، چینی کمپنیوں کے ذریعے دنیا کے چند مہنگے پاور پلانٹ قائم کریں گے اور بعض اہم ترین ملکی اثاثے بیچ کر معیشت کو عارضی طور پر چلائیں گے۔ جہاں تک پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات ہے تو یہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ جس طرح میاں صاحب اندر سے جانتے ہیں کہ وہ اصلی ٹائیگر نہیں اسی طرح وہ جانتے ہیں کہ ہماری معیشت ایشین ٹائیگر نہیں بن سکتی۔ بس دعا کیجئے کہ 8 فروری تک کا وقت خیر و عافیت سے گزرے صرف ایک شعبہ کے لئے میاں صاحب کی آمد باعث خیر و برکت ہوگی اور وہ ہے پرنٹ میڈیا۔ عمران خان نے اس پر جو جان لیوا حملہ کیا تھا اسے موجودہ نگران حکومت نے انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی بچت صرف اس صورت میں ہوگی کہ میاں صاحب اقتدار میں آجائیں پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ تحفتاً سندھ اور پختونخواہ کی حکومت بھی انہیں عنایت کی جائے تو مقابلہ یکطرفہ ہوگا اور حکومت کسی رکاوٹ کے بغیر چلے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں