50گیدڑ اور ایک شیر

تحریر: انور ساجدی
اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ کے اجلاسوں کا جو رزلٹ نکلا وہ سب کو پہلے سے پتہ تھا یہ اجلاس ’’ نشستند گفتند اور برخاستند‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں تھے۔ ایک اسرائیلی شیر کے آگے سارے اسلامی سربراہ گیڈر بنے ہوئے تھے۔ اجلاس ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف محض اشک شوئی کی حیثیت رکھتے تھے۔ غزہ میں بے گناہوں کے قتل عام پر تنقید تو کی گئی، التجا بھی کی گئی کہ یہ حملے بند کردیئے جائیں لیکن اسرائیل کو ساری حقیقت کا علم تھا اسے پتہ تھا کہ عرب سربراہوں کے دل اور تلواریں دونوں صیہونی ریاست کے ساتھ ہیں، جب اسرائیل غزہ کے اسپتالوں پر بے رحمانہ بمباری کررہا تھا تو سعودی عرب میں امریکہ کے اسلحہ سے بھرے جہاز تل ابیب میں لینڈ کررہے تھے جبکہ امریکہ حوشی میزائلوں سے اسرائیل کو بچانے کے لئے سعودی عرب کی سرحد پر ڈیفنس شیلڈ قائم کررہا تھا اسی طرح متحدہ عرب امارات سعودی عرب سے بھی وہ ہاتھ آگے تھا۔ وہ مسلسل امریکی سپلائی اسرائیل کو پہنچا رہا تھا۔ یہی حال ترکی کے منافق اعظم کا تھا اگر یہ لوگ فلسطینی عوام سے ذرا برابر ہمدردی رکھتے تو اسرائیل سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کردیتے۔ ایک اور منافق دوغلی ریاست آذر بائیجان کی ہے اسرائیل تیل کا بڑا حصہ اس سے خریدتا ہے لیکن یہ ٹس سے مس بھی نہیں ہوا۔ حالانکہ آذر بائیجان کی نسبت اس کی پڑوسی ریاست آرمینیا میں ہزاروں سال قدیم یہودی رہتے ہیں ۔ آرمینیا کو تاریخ میں بڑے بڑے المیوں سے گزرنا پڑا ہے۔ عثمانی ترکوں کے دور میں یہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو قتل کردیا گیا تھا۔ یہ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل سے بھی بڑا اور دہشت ناک اور سفاکانہ قتل عام تھا۔ سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد آذر بائیجان کے وارے نیارے ہوگئے کیونکہ کیسپٹین کے تیل کی بڑی مقدار اس کی ملکیت ہے۔ ایک چھوٹے سے علاقہ نگور کاراباغ کے مسئلہ پر اس کا آر مینیا سے تنازعہ تھا۔ طویل عرصہ تک یہ علاقہ آرمینیا کے قبضے میں رہا ۔ گزشتہ سال اچانک آذر ہائیجان کی مسلح افواج میں جان آئی اور انہوں نے آرمینیا کی افواج کو شکست دیدی۔ پتہ چلا کہ اس کی فتح میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ معلوم نہیں کہ پاکستان نے کنسلٹنٹ بھیجے تھے، اسلحہ پہنچایا تھا یا اپنے دستے بھیجے تھے۔ یہ آذر بائیجان یہودی ریاست کا سب سے قریبی دوست بنا ہوا ہے۔ اس کا تیل ترکی کے ذریعے اسرائیل پہنچتا ہے۔ اگر منافق اردگان عالم اسلام کے اتنے بڑے بطل جلیل ہیں تو اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کیوں ختم نہیں کرتے۔ دراصل یہ شخص بولتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے۔ یہ نیٹو کا رکن ہے امریکہ کا وفادار ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ایک قدم آگے نہیں اٹھاتا ۔ اس کی کمزوری کرد اور علوی شیعہ ہیں جو ترکی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ ترکی نے طاقت کے زور پر ان کے علاقوں اور وسائل پر قبضہ کررکھا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ اگر امریکہ ناراض ہوگیا تو اس کی خیر نہیں ہے۔ ترکی نے اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد صیہونی ریاست کو تسلیم کرلیا تھا وہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے یہ کام کیا تھا۔ اگر قاری مولانا طیب اردگان سچے مسلمان ہوتے تو ان کا عمل دیگر ترک حکمرانوں سے مختلف ہوتا لیکن نہیں وہ اسلام کے دعویدار ہونے کے باوجود وہی کررہے ہیں جو ترک ریاست کا مفاد ہے۔ غالباً ترکی کے دل میں یہ بے قراری اور جذبہ انتقام بھی ہے کہ پہلی جنگ عظیم تک یروشلم قبلہ اول اور مکہ مدینہ اس کی عملداری میں شامل تھے۔ لیکن عربوں نے انگلینڈ سے مل کر اس کی سلطنت کا پارہ پارہ کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کا ماضی میں ہمیشہ جھکائو اسرائیل کی طرف رہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
نیل کا سب سے بڑا ملک مصر تو امریکہ اور یہودیوں کی دائمی غلامی میں ہے۔ جبکہ کاشغر چین کا ایسا غلام ہے جو پنجرے میں بند ہے۔ یہ جو امت کا تصور ہے یہ چکنا چور ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ جو نام نہاد اسلامی سربراہ کانفرنس ہے یہ ایک ناکارہ اور بے مقصد تنظیم ہے۔ جو کسی درد کا مداوا نہیں ہے اسی طرح عرب لیگ امریکہ اور اس کی طفیلی ریاست کا طوق غلامی پہنے ہوئے ہیں ہے یہ کسی عمل اور عملی اقدام سے عاری ہیں۔ گوکہ اسرائیل غزہ میں حماس کی مزاحمت کچلنے میں کامیابی حاصل کرلے گا لیکن یہ وقتی کامیابی ہوگی جبکہ فلسطینی عوام کی مزاحمت بہت دیر تک جاری رہے گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کی عجیب و غریب صورتحال ہے۔ ایران کے بعد پاکستان واحد ریاست ہے جس نے کھل کر اسرائیل کی مذمت کی ہے اور غزہ کے عوام کی حمایت کی ہے۔ لیکن امریکہ سے اس کے تعلقات اس نوع کے ہیں کہ کوئی بھی صورتحال انہیں ختم نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ چین کے گہرے تعلقات نے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ حالانکہ نگران وزیرا عظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ پاکستان کو چین کا اسرائیل سمجھا جارہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے تو ان کا جھکائو چین کی طرف تھا۔ اس وقت چین عالمی برادری میں ’’ یک و تنہا ‘‘ تھا۔ بھٹو نے چیئرمین مائو او چواین لائی سے ذاتی تعلقات قائم کئے اور انہوں نے یہ ’’ اختراع ‘‘ گھڑی کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ چیئرمین مائو اور زیرک کامریڈ چواین لائی کے بعد چین کی پالیسی بتدریج تبدیل ہوتی گئی ۔ خاص طور پر امریکہ نے چین کو تسلیم کرلیا اور اسے ویٹو پاور کی حیثیت دی تو چیزیں بدل گئیں۔ حتیٰ کہ 1990 کی دہائی میں جب ڈینگ زیائو پنگ نے چین کو سرمایہ دار ملک بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کی کایا ہی پلٹ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 30 سال کے مختصر عرصے میں چین دنیا کا نمبر ایک سپر پاور بن گیا ، چونکہ پاکستان اس کا قریب ترین ہمسایہ تھا اور تاریخی سلک روٹ اس سے ہو کر گزرتا تھا اس لئے اس نے ہمیشہ پاکستان سے دوستی کا ثبوت دیا ، اس کی تازہ مثال سی پیک ہے۔ نواز شریف کے دور میں صدر شی اسلام آباد آئے اور 65ارب ڈالر مالیت کے منصوبے کا افتتاح کردیا لیکن پاکستانی حکومت نے یہ منصوبہ بے کار اور فضول منصوبوں پر ضائع کردیا بجائے کہ گوادر کو ترقی دی جاتی اور اس کی بندرگاہ کو ریل اور روڈ کے ذریعے وسط ایشیا سے ملا دیا جاتا، دونوں بھائیوں نے مل کر خطیر رقم پنجاب کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر ضائع کردی نا صرف یہ بلکہ عمران خان نے 2018 میں برسراقتدار آکر سی پیک کو منجمد کردیا کیونکہ امریکہ ایسا چاہتا تھا۔ عمران خان کے زوال کے بعد چین اور پاکستان کے تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جس کی توقع تھی۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ باجوہ سر نے برملا کہا کہ امریکہ کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان کے دفاع کے لئے امریکہ ناگزیر ہے چنانچہ اس طرز عمل کے بعد چین کا بدلنا ناگزیر تھا۔ اگرچہ افواہیں کافی عرصہ سے چل رہی ہیں لیکن طالبان کے آنے کے بعد چین کی افغانستان کی طرف زیادہ توجہ خالی از اسرار نہیں۔ مثال کے طور پر طالبان سے پہلے بلکہ اشرف غنی کے آخری دور میں چین نے واخان کوریڈور بنانے کا فیصلہ کیا جس پر طالبان دور میں کام تیز کردیا گیا ہے ۔ واخان چترال سے شمال کی جانب افغانستان کے کافرستان میں واقع ہے۔ اور اس کی سرحد تاجکستان سے ملتی ہے۔ تاجکستان بھی یہاں سے قریب ہے۔ چین نے اپنی زمین کو واخان سے ملانے کے لئے 220 کلومیٹر لمبی سرنگ کی تعمیر شروع کردی ہے۔ اگر دنیا کا یہ سب سے بڑا منصوبہ مکمل ہوگیا تو چین براہ راست ریل اور روڈ کے ذریعے افغانستان کے ساتھ منسلک ہوجائے گا اور واخان کے ذریعے ایرانی بلوچستان کی بندرگاہ چاہ بہار تک توسیع دے گا۔ اس کے بعد اسے پاکستانی بلوچستان کی گوادر بندرگاہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگرچہ ملکوں کا اس طرح ناراض ہوجانا قرین قیاس نہیں ہوتا لیکن چین کا افغانستان کی طرف مائل ہونا اور عالمی تناظر میں ایران پر بھروسہ کرنا یہ اشارہ دیتا ہے کہ وہ سی پیک پر مزید سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ یہ دراصل ایک سبق ہے کہ ریاستوں کو اپنے مفادات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے لیکن دوغلی پالیسی اور دو عملی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ بے شک افغانستان میں سمندر نہیں ہے لیکن اس کے قدرتی وسائل پاکستان سے زیادہ ہیں اور چین ان وسائل سے فائدہ اٹھا کر ناصرف افغانستان کی قسمت بدل سکتا ہے بلکہ ایک عالمی ساہو کار کی طرح اپنا بھلا بھی کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں