ہر جگہ مافیا کا راج

تحریر: انور ساجدی
بہت سارے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی واقعات ہیں ،کس کس کا احاطہ کیا جائے، دماغ ماﺅف ہے، پاکستان کی جعلی دو نمبر اشرافیہ کہاں جارہی ہے اور سماج کو کس رخ پر لے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کے ڈی ایچ اے فیز سیون میں ایک 17 سالہ اوباش لڑکے نے ایک فیملی کے چھ افراد کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر ہلاک کردیا۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اہلکار کا بگڑا ہوا صاحبزادہ ہے۔ بڑے بڑے وکیل اس واقعہ میں کود پڑے ہیں۔ لازمی طور پر بااثر لڑکے کو بچا لیا جائیگا۔ عدالتوں میں کوئی گواہی دینے نہیں آئے گا۔ پولیس بھی طاقتور کا ساتھ دے گی اور اس طرح 6لوگ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ چند سال قبل سائیں سکندر جتوئی کے صاحبزادہ شاہ رخ جتوئی بھی دن دہاڑے ایک نوجوان کے قتل کے باوجود اس وقت آزاد گھوم رہا ہے۔ حالانکہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے لانڈھی جیل پر چھاپہ بھی مارا تھا لیکن ان کے ساتھی جج صاحبان نے صلح کی آڑ میں موصوف کی سزا ختم کردی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور مےں ساﺅتھ پنجاب کی ایک خاتون مختار مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، مجرموں کو خود پرویز مشرف نے بھی یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کی خواتین بیرون ملک پناہ حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے ڈرامے کرتی ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور ممیں پنجاب کے ایک گاﺅں میں بااثر افراد نے غریب خواتین کو برہنہ کرکے بازار میں گھمایا تھا۔ یقینی طور پر وہ مجرمان بھی بچ گئے ہوں گے۔ انڈیا میں جب ایک خاتون پھولن دیوی کے ساتھ افسوسناک واقعہ ہوا تھا تو وہ ڈاکو بن گئی اور ایک ایک کرکے دشمنوں سے بدلہ لیا تھا۔ پھولن دیوی پرایک فلم بھی بنی تھی۔ پاکستان اس وقت سیاسی، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے انارکی سے گزر رہا ہے، اس لئے آئے دن افسوسناک واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ لاہور ، کراچی، اسلام آباد، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں لڑکیوں کا گھروں سے نکلنا اور سیکورٹی کے بغیر کالج اور یونیورسٹی تک جانا انتہائی پرخطر ہوگیا ہے۔ کہیں پر بھی قانون کی عملداری دکھائی نہیں دیتی ہے۔ بے شمار جرائم کے پیچھے خود پولیس اہلکار، بااثر افراد اور اعلیٰ اہلکار اور ان کے بچے مادر پدر آزاد ہیں اور وہ قانون کی گرفت سے بہت دور ہیں۔ اس کے نتیجے میں 25 کروڑ عام لوگوں کے لئے زندگی گزارنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ جو تعلیم یافتہ یا پیسے والے لو گ کرسکتے ہیں وہ ملک چھوڑ کر باہر جارہے ہیں۔ پوری ریاست پر مافیاز کا راج ہے ہر جگہ قبضہ گروپ سرگرم عمل ہیں۔ ساری شہری زمینں بلڈر مافیا کے قبضے میں چلی گئی ہیں، دیہات میں بااثر زمیندار غریب ہاریوں کی پانچ ایکڑ زمین بھی نہیں چھوڑتے۔ جہانگیر ترین جو ساﺅتھ پنجاب سب سے بڑے سرمایہ دار اور شوگر مافیا کے سربراہ ہیں وہ ایک چھوٹی سی کنگز پارٹی بھی بنا چکے ہیں جبکہ اپنے منشور میں انہوں نے کم سے کم تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلطان کیا ہے لیکن اس کی فیکٹریوں کے لوگ بروقت تنخواہ نہ ملنے کی دہائی دے رہے ہیں وہ چھوٹے کسانوں کی ہزاروں ایکڑ زمین پٹہ یا طویل لیز کے نام پر ہڑپ کرچکے ہیں۔ شوگر مافیا اتنا مضبوط ہے کہ عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ شوگر مافیا میں کرکٹ کنٹرول کے سربراہ ذکاءاشرف سے لے کر نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور بیشتر ایسے بااثر افراد شامل ہیں جن کی ہمیشہ حکومت رہتی ہے۔
اس وقت بلڈر مافیا جس کا سرغنہ بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض ہیں قدرے تکلیف میں ہے لیکن یہ ملک کا سب سے بڑا غنڈہ فورس ہے اس کے ہر رکن نے درجنوں سینکڑوں مسلح غنڈے پال رکھے ہیںتاکہ ایک پلاٹ 10 افراد کو بیچنے والے مجرموں تک متاثرین رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ ملک ریاض کو حکومت سندھ نے ملیر اور گڈاپ تک 16 ہزار ایکڑ زمین اونے پونے داموں الاٹ کی تھی لیکن اس کے مسلح کارندوں نے درجنوں دیہات و گوٹھ اور بستیوں پر قبضہ کرکے اپنا قبضہ دور دور تک پھیلایا تھا ۔ ملک ریاض اتنے بااثر ہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ سے اس زمین پر قانونی مہر ثبت کروادی، اسے یقین تھا کہ ان سے 460 ارب روپے کوئی بھی وصول نہیں کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض نے منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بھیجنے والے رقم میں سے 190 ملین پاﺅنڈ ہی جمع کروائی باقی رقم دینے سے انکاری ہے۔ بظاہر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس کی این او سی کینسل کی ہے جس کی وجہ سے بحریہ ٹاﺅن دیوالیہ ہوگیا ہے لیکن اگلی بار جب زرداری کی حکومت دوبارہ آئے گی تو یقینی طور پر ملک ریاض اپنا الو سیدھا کرلیں گے۔ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کے نام پر بھاری رشوت دینے کی وجہ سے فی الحال پنجاب کے سپریم لیڈر نواز شریف کے تعلقات ملک ریاض سے کشیدہ ہیں لیکن جونہی نواز شریف جلاوطنی کے بعد دبئی پہنچے تو ملک ریاض ان کے پاس پہنچ گئے۔ لگتا ہے کہ ابھی بات بنی نہیں ہے لیکن ن لیگ چندماہ کے دوران حکومت میں آجائے گی تو ملک صاحب کی بات بن جائیگی۔ ملک ریاض سردست دباﺅ کی وجہ سے دبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ لازمی طور پر انہوں نے کئی ممالک کی شہریت خرید کر رکھی ہے، البتہ اپنے پسندیدہ ملک انگلینڈ جانے سے محروم ہیں کیونکہ وہاں پر ان کی چوری پکڑی گئی تھی جس کے بعد ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ سوشل میڈیا کی افواہوں کے مطابق ملک ریاض جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے دولت مند ہیں اپنی ساری دولت بیرون ملک لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سارے پاکستان میں بلڈر مافیا نے زبردست لوٹ مار کی بلکہ شہروں اور دیہاتوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
ایک اور بڑا مافیا دائمی لوٹوں یعنی الیکٹیبلز کا ہے ، سیاست پر ان کا قبضہ ہے۔ بیشتر الیکٹیبلز وار لارڈ ہیں اور بعض جرائم پیشہ گینگ رکھتے ہیں۔ ان سب کو ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کا وطیرہ ہے کہ اپنے سے طاقتور کے آگے لیٹ جاتے ہیں اور کمزوروں پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں۔
دو صدی قبل بلوچستان کے سرداروں نے سبی میں لاٹ صاحب کی بگھی کھینچی تھی۔ فی زمانہ یہ اپنی گاڑی میں لاٹ صاحب کو بٹھا کر اس کی ڈرائیوری کرتے ہیں۔ ان صاحبان کی کوئی جماعت نہیں ہوتی بلکہ بڑے لاٹ صاحب جو حکم دیتے ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں یہ اس جانب رخ کرتے ہیں۔ اگر پرانا دور واپس آجائے اور انہیں حکم ملے کہ لاٹ صاحب کی بھگی کو ریذیڈنسی سے ریلوے اسٹیشن تک کھینج کر لے جانا ہے تو یہ آج بھی یہ کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ اس وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جس کروفر سے رہتے ہیں جو پرتعیش زندگی گزارتے ہیں یہ سب کچھ بڑے لاٹ صاحب کی مرہون منت ہے ورنہ یہ تو بھوکے مر جائےں۔ لہٰذا اپنے آب و دانہ گزارہ اور حکومتی مراعات سے مستفید ہونے کے لئے یہ حد سے گزر جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں روزنامہ ڈان نے دو مرتبہ تضحیک آمیز کارٹون شائع کئے تھے ۔ پہلی دفعہ شائع ہونے والے کارٹون میں ان ہستیوں کو بھیڑیں ظاہر کیا گیا تھا جنہیں ن لیگ کے سربراہ نواز شریف ہانک کر لے جارہے ہیں۔ دوسرے کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ نواز شریف ایک لانچ میں سوار ہیں اور بے شمار مچھلیاں ان کی لانچ میں لدی ہوئی ہیں جبکہ کچھ دور آصف زرداری حسرت کی نگاہوں سے نواز شریف اور ان کے شکار کو دیکھ رہے ہیں۔ ڈان اخبار چونکہ بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہے اس لئے اسے ڈر نہیں لگتا۔ ورنہ وڈھ اور بارکھان کی جیل میں ایک دن گزارنے کے بعد اس کے مالکان کبھی ایسے کارٹون شائع نہیں کرتے۔ بلوچستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران 40 صحافی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور حال ہی میں ایک صحافی کو نہایت بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
چنانچہ ریاست کی مجموعی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے اور حالات کے ٹھیک ہونے اور قانون کی حکمرانی کے کوئی آثار اور امید نظر نہیں آرہی ہے۔ لگتا ہے کہ طویل مدت تک مافیاز کا راج رہے گا اور کوئی بہتری اور سدھار نہیں آئے گا۔ عام آدمی اسی طرح زندہ درگور رہے گا اور اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔
معاشرہ کس زبوں حالی کا شکار ہے، بلوچستان یونیورسٹی، بہاولپور یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ دو روز قبل چکوال کے ایک دینی مدرسہ کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ پورے معاشرے اور دینی حلقوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اس وقت روئے زمین پر شاید ایسا سماج ہو وہ ہمارا ہے۔ کس کس خرابی کا ذکر کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں