زرداری کدھر بلاول کدھر

تحریر: انور ساجدی

دو رات قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے حامد میر کو دو گھنٹہ طویل انٹرویو دیا، اس کا مقصد اپنے بیٹے بلاول بھٹو کے اس بیانیہ کو بلڈوز کرنا تھا جس میں انہوں نے 70-70 سال کے بابوں کو سیاست سے کنارہ کشی، مدارس اور گھروں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ خیر سے آصف زرداری خود آئندہ سال 70برس کے ہوجائیں گے۔ باپ بیٹے کے بیانات، نقطہ نظر اور ایک دوسرے کے متضاد انداز تکلم سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک میں بات کرنے کا قرینہ نہیں جبکہ دوسرے میں گفتگو کا سلیقہ نہیں۔ بات تو بلاول کی صحیح ہے کہ نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے لیکن اسے پتہ نہیں کہ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے اور یہ زندگی کا واحد شعبہ ہے کہ اس میں ریٹائرمنٹ کا تصور نہیں۔ اس وقت امریکی صدر جوبائیڈن کی عمر 80 سال سے زائد ہے۔ بھارت کے ایک وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کی عمر منصب سنبھالنے کے وقت 81 سال تھی۔ امریکہ میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ انتخابات میں بھی امیدوار ہیں اگر وہ منتخب ہوگئے تو ان کی عمر بھی 80 سال کے قریب ہوجائے گی۔ چنانچہ عمر کی شرط سیاست اور سیاسی عہدوں پر منطبق نہیں ہوتی۔ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو 27 سال کی عمر میں اسکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر بن گئے تھے۔ جبکہ بلاول کی والدہ 35سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئی تھیں۔ اگر بلاول کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن یہ قبل از وقت ہے۔ پہلے الیکشن کا انتظار کیا جائے جب ان کا انعقاد ہوجائے تب پتہ چلے گا کس جماعت نے اکثریت حاصل کی ہے۔ اکثریت کے بغیر وزیراعظم بننا خام خیالی ہے۔ زرداری نے اپنے بیٹے کو زیر تربیت اور ناتجربہ کار قرار دیا ہے۔ یہ بات انہوں نے 2018 میں بھی کہی تھی آخر یہ کیسی تربیت ہے جو ابھی تک مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ زرداری کی تربیت میں کمی ہے۔ یہ خامی خود زرداری میں ہے جس کا اعتراف کرلینا چاہئے۔ بلاول کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان جن سیاسی، معاشی اور دیگر بحرانوں میں مبتلا ہے اس کی ایک وجہ 70-70 سال کے بابے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اختیار کی اور مقتدرہ کے ہاتھوں باری باری استعمال ہوتے رہے۔ بلاول کے خیال میں یہ آئندہ بھی اپنا جذبہ انتقام ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔
زرداری کی گفتگو کا سلیقہ یہ ہے کہ محسن نقوی کے سوال پر انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن کے بارے میں کہا کہ انہیں کسی چیز کا پتہ نہیں اس طرح اس بے چارے کی درگت بنا دی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن آئے دن کہتے ہیں کہ محسن نقوی ن لیگ کے سہولت کار ہیں لیکن زراری مانتے نہیں ان کا دعویٰ ہے کہ محسن نقوی ان کا بیٹا ہے۔
مونس الٰہی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بوڑھے باپ کو جیل میں چھوڑ کر وہ خود بیرون ملک فرار ہے۔اگر اس میں غیرت ہوتی تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتا۔ قدوس بزنجو کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی پسلی کمزور ہے یعنی انہوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی حامی بھری اور اپنے قول سے پھر گئے۔ زرداری سیاست کے شاہ سوار ہیں لیکن آئندہ انتخابات میں انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا جو ’’ زلزلہ پیما‘‘ مرکز ہے سب کچھ اسی کی مرضی ہے ہوتا ہے۔ فی الحال منصوبہ یہ ہے کہ ن لیگ کو ہر قیمت پر اقتدار میں لایا جائے کیونکہ باجوہ سر نے زیادتی کی تھی اور اس کا ازالہ اداروں کے لئے ضروری ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہے کہ عمران خان کو عام انتخابات سے باہر رکھا جائے جبکہ پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع دیا جائے۔ بھلا زرداری حکومت کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔ اگر ان پر بہت زیادہ مہربانی ہوئی تو سندھ حکومت بخشی جاسکتی ہے جبکہ ارادہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس بار سندھ حکومت بھی نہیں دی جائے گی۔ زرداری کی چالاکی ڈپلومیسی اور سیاسی چالوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ اگر مرکز میں چانس نہیں دینا ہے تو کم از کم سندھ دوبارہ ان کے حوالے کیا جائے۔ جہاں تک بلاول کا تعلق ہے فرماں بردار بیٹا ضرور ہے لیکن ان کی سیاسی اپروچ والد سے مختلف ہے اس لئے یہ سمجھا جائے کہ پیپلز پارٹی میں دو گروپ بن چکے ہیں جو آئندہ جا کر حقیقی روپ اختیار کرلیں گے۔
سیاست کس طرف جارہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کیا آسان طریقہ ہے جاں بخشی کا جیل سے سیدھے کسی ٹی وی سینٹر پہنچو ، انٹرویو ریکارڈ کروائو اور جیل کی بجائے سیدھے گھر جائو۔ جو چھوٹے درجے کے سیاسی ورکر ہیں ان کے لئے کسی پریس کلب جاکر پریس کانفرنس کرنا ہی کافی ہے۔
فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی بھی ٹی وی انٹرویو کے بعد جان چھوٹی۔ ان کی لال حویلی بھی اس انٹرویو کے بعد دوبارہ ان کے حوالے کی گئی چونکہ پرانے شرارتی ہیں اس لئے 72 سال کی عمر میں بھی اسی طرح نٹ کھٹ ہیں۔ باتوں باتوں میں اپنی حراست کو چلہ قرار دیا اور کافی بڑی بات مزاحیہ پیرائے میں کہہ گئے۔ سب سے اہم انٹرویو بشریٰ بی بی عرف پنکی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کا تھا ۔ انہیں چند دن حراست میں رکھنے کے بعد خانزادہ کے حوالے کیا گیا، نا جانے شاہ زیب خانزادہ کیوں گبھرائے ہوئے تھے ورنہ زیادہ تہلکہ خیز انٹرویو ہوسکتا تھا۔ خاور مانیکا ذاتی اعتبار سے ایک مظلوم انسان ہیں۔ بظاہر ان کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ ان کا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا اور سماج میں ان کی کافی بدنامی ہوئی لیکن اس واقعہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے مالی منفعت۔ جب عمران خان اور پنکی کے تعلقات استوار ہوگئے تو عمران خان کے کئی دوستوں نے مانیا پر دبائو ڈالا کہ وہ اپنی اہلیہ کو طلاق دے دیں تاکہ وہ خان صاحب سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں۔ سنا ہے کہ مانیکا نے اس کی کافی بڑی قیمت وصول کی۔ ناصرف اس نے محکمانہ ترقی اور کسٹمز کراچی میں پوسٹنگ بھی حاصل کرلی۔ اپنے علاقہ میں ان کے جو بھی کام تھے وہ فوری طور پر ہونے لگے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کا جو سودا کیا وہ ہنوز ایک راز ہے لیکن کبھی نہ کبھی یہ راز بھی طشت ازبام ہوجائیگا کہ یہ سودا کروڑوں میں ہوا یا اربوں میں ۔ اگرچہ انہیں جو ٹی وی پر عمران خان کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ کے طور پر لایا گیا لیکن کافی تاخیر سے ، اس نے اپنی عزت کا جنازہ تو اس وقت نکال لیا تھا جب بقول ان کے کہ عمران اور انکی اہلیہ بند کمرے میں ملاقات کرتے تھے اور مانیکا صاحب کمرے کے باہر پیچ و تاب کھا رہے ہوتے۔ صرف ایک مرتبہ انہون نے نوکر کے ذریعے خان صاحب کو کمرے سے باہر نکلوایا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پیری مریدی کا انوکھا اور بدنما واقعہ ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام خان صاحب نے اس وقت سرانجام دیا جب ثاقب نثار نے انہیں صادق اور امین کا سر ٹیفکیٹ دیا تھا۔ اس سند کے بعد وہ یہ سمجھے تھے کہ انہیں ہر کام کی مکمل آزادی مل گئی ہے۔ پنکی صاحبہ کا مسئلہ عمران خان کی الفت نہیں تھا بلکہ بے پناہ دولت تھی اس لئے انہوں نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگوایا جس کے بعد انہوں نے سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لیئے اور اپنے پارٹنرز فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کے ذریعے اربوں کمائے، یہ جو القادر ٹرسٹ یا ملک ریاض سے قیمتی تحائف اور اربوں روپے فوائد کا حصول ہے یہ عمران خان کے دماغ کی اختراع نہیں بلکہ پنکی پیرنی صاحبہ کا کمال ہے۔ ملک ریاض نے کیا کچھ کیا وہ بہت جلد خاور مانیکا کی طرح اپنا انٹرویو ریکارڈ کروائیں گے انہوں نے جو دیگر کمالات دکھائے ہیں وہ ایک طرف رکھ دیں گے۔ صرف عمران خان سے متعلق معاملات کے بارے میں انکشافات کریں گے۔ وہ بتائیں گے کہ کس طرح عمران خان نے شہزاد اکبر کے ذریعے برطانیہ سے ملنے والے 190 ملین پائونڈ ملک صاحب کو واپس دینے کی منظوری کابینہ سے لی، وہ القادر یونیورسٹی کی سینکڑوں کنال زمین، بنی گالہ میں دی گئی اراضی، ہیرے جواہرات کی تفصیلات اور نقد نذرانہ کے بارے میں بھی کئی راز بتائیں گے۔ ملک صاحب ان دنوں زیر عتاب ہیں اور دبئی فرار ہیں۔ ایم ڈی اے کی طرف سے بحریہ ٹائون کراچی کی این او سی کی منسوخی کے بعد بحریہ ٹائون کراچی کریش ہوگیا ہے اور مارکیٹ میں لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں بحریہ ٹائون کا گراف کافی نیچے گرا ہے۔ ملک صاحب نے بحریہ ٹائون پشاور کا اعلان بھی کیا تھا لیکن قبائلی تنازعات اور حکومت مداخلت کی وجہ سے یہ منصوبہ بند کرنا پڑا۔ چنانچہ ان واقعات کے بعد ملک صاحب نے ہار مان لی اور خان صاحب کے خلاف سلطانی گواہ بننے پر رضا مند ہوگئے ۔ اس وقت ملک صاحب کوشش کررہے ہیں کہ ٹی انٹرویو کے بغیر دیگر طریقے سے ان کے معاملات سلجھائے جائیں لیکن اس کے بغیر ان کی جان بخشی ممکن نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کے رہنمائں اور متعلقین سے جو کچھ کروایا جارہا ہے اس کا مقصد تحریک انصا ف کو آنے والے انتخابات سے باہر رکھنا ہے۔ ایسے مقدمات موجود ہیں کہ نا صرف عمران خان انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے بلکہ ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے مطابق انہیں بھٹو کی طرح پھانسی کی سزا دلوانے کی کوشش ہورہی ہے۔ پھانسی تو خیر انہیں نہیں ملے گی کیونکہ ان کا ڈومیسائل کافی پاور فل ہے البتہ عمر قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک پاپولر جماعت کو الیکشن سے دور رکھنے کا کیا مطلب ہے یہ تو سراسر ناانصافی اور قبل از الیکشن دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں یہ کوئی انوکھی مثال نہیں ہے۔ صحافی سلیم صافی کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کے ساتھ بھی برا سلوک ہوگا جو کچھ 2018 میں ن لیگ کے ساتھ ہوا تھا اس سے بھی برا سلوک ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی لیڈر پریس کانفرنس کرتے ہیں اس کے فوری بعد وہ جہانگیر خان ترین کی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بے نظیر نے 1990 میں کینگرو کورٹس کی اصطلاح استعمال کی تھی لیکن اس وقت پورا نظام کینگرو بن گیا ہے۔ بے نظیر کا صاحبزادہ بلاول لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ جو الیکشن ہوگا وہ سلیکشن ہوگا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مقتدرہ ہر قیمت پر ن لیگ کو کامیاب کروانا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوچکے ہیں۔ ن لیگ یہ شرط مان گئی ہے کہ وہ 18ویں ترمیم میں تبدیلی لائے گی او راین ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کیا جائے گا۔ مقتدرہ کی شرط کے بدلے ن لیگ نے شرط رکھی ہے کہ اسے دو تہائی اکثریت دلائی جائے کیونکہ اس کے بغیر آئین میں ترمیم ممکن نہیں۔ ن لیگ نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ نواز شریف کو سپریم لیڈر ثابت کرنے کے لئے چترال، پشاور، لاہور اور کراچی سے ایک ایک نشست پر کامیاب کروایا جائے۔ یہ جو بلاول آصفہ کو این اے ون چترال سے الیکشن لڑانے کی بات کررہے ہیں ن لیگ کبھی بھی یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ایک مشکل صوبہ پختونخواہ میں درپیش ہے وہاں پر مولانا صاحب کی پوزیشن کافی کمزور ہوگئی ہے۔ کیونکہ بیشتر ووٹرز پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں، مولانا اس مرتبہ صوبہ کی وزارت اعلیٰ کے خواہاں ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نااہل قرار نہیں دیا گیا تو ن لیگ اور مولانا کے اتحاد کی کامیابی ناممکن ہے کیونکہ اس دفعہ ضلع ہزارہ کے لوگ بھی ن لیگ سے شاکی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ اگر تحریک انصاف کو الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا جیسا کہ منصوبہ ہے تو میدان میں طاقتور ن لیگ اور اس کے اتحادی رہ جائیں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی مدمقابل ہوگی جوکہ بظاہر کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹر ن لیگ کی دشمنی میں پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالیں۔ اگر ایسا ہوا تو پیپلز پارٹی ایک طاقتور اپوزیشن کے طور سامنے آئے گی اور پارلیمنٹ میں ن لیگ ، مولانا، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ وہ 18ویں ترمیم کا تیاپانچہ کرسکیں۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں تو سیاست کب کی رخصت ہوچکی، پارلیمانی سیاست کا بھی برا حال ہے، قوم پرستی کی دعویدار جماعتوں کا کوئی حال نہیں ہے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اس مرتبہ نیشنل پارٹی کی دستگیری کی جائے، گزشتہ دنوں نواز شریف نے اپنے قریبی حلقوں میں ڈاکٹر مالک کی کافی تعریف کی اورپشیمانی کا اظہار کیا کہ انہوں نے معاہدہ مری کو بروئے کار لا کر ڈاکٹر مالک کو ہٹا کر ثناء الہ زہری کو وزیراعلیٰ مقرر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ثناء اللہ زہری قبائلی شخصیت ہیں سیاسی نہیں جبکہ ڈاکٹر مالک ایک بالغ نظر سیاسی رہنما ہیں۔ نواز شریف کی پسندیدگی کا مطلب مقتدرہ کی پسندیدگی ہے لہٰذا جو لوگ اس وقت ڈاکٹر مالک سے کنارہ کش یا دور ہیں انہیں چاہئے کہ وہ دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے قریب آنے کی کوشش کریں۔ ایسے لوگ جو فن قدردانی کے ماہر ہیں وہ ابھی سے ڈاکٹر صاحب کی خوشنودی کے حصول کی کوششیں شروع کردیں۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ زمین پر ڈاکٹر صاحب اور ان کی جماعت کی کیا پوزیشن ہے۔ کچھ نشستیں ملتی ہیں کہ نہیں، اگر وہ اندر سے کمزور ہوئے تو نواز شریف کیا کرسکتے ہیں اور مقتدرہ انہیں کتنے ووٹوں کا فیور دے سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے کیچ اور پنجگور میں کامیابی حاصل نہیں کی تو ان کی حکومت بنانے کا خواب بکھر سکتا ہے۔ ہاں اگر ن لیگ کامیابی کے بعد ڈاکٹر صاحب کو حکومت بنانے کا موقع دے تو یہ الگ بات ہے۔ اگر ہارس ٹریڈنگ ہوئی تو وہ بھی ن لیگ کرے گی کیونکہ ڈاکٹر اس فن کے ماہر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کام پر خرچ کرنے کے حامی ہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کا اصول ہے کہ جو سرمایہ جمع ہے اسے ہاتھ نہ لگایا جائے کیونکہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں