جنریشن گیپ

تحریر: انور ساجدی
چند دن کی غیر حاضری کے دوران کئی اہم واقعات رونما ہوئے جن کا تعلق ریاست اور بلوچستان سے ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے اہم ترین واقعہ سانحہ تربت ہے جس میں بالاچ کا ماورائے عدالت قتل ہوا اور تربت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا پرامن احتجاج ہوا کہ اس کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ احتجاج میں مرد و خواتین کی یکساں شرکت قابل غور ہے۔ پھر اس کے جنازہ میں بلا تخصیص عقیدہ ہزاروں افراد کی شرکت بھی نظر انداز کردینے والی چیز نہیں۔ خواتین نے جنازہ میں شرکت کرکے اور صفت و ثنا یعنی چوگان گا کر اسے تدفین کے مقام تک پہنچایا۔ اس تمام مرحلے میں بلوچ قومی تحریک کے سرخیل مولانا عبدالحق بلوچ کے فرزند شاہ جی نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ مولانا صاحب نے اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر ہونے کے باوجود تحریک کے بارے میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا جو بلوچستان کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔ ان کی تقلید کرتے ہوئے ان کے فرزند نے بالاچ کے جنازہ کے بارے میں ایک اور فتویٰ جاری کیا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
اسی دوران یا کچھ عرصہ قبل بانک نسیمہ نے سینیٹ میں پوائنٹ آف آرڈر پر بلوچستان کی صورتحال کو غزہ کی صورتحال سے مماثل قرار دیا۔ اگرچہ میڈیا نے اس دو منٹ کی گفتگو کو اہمیت نہیں دی لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ کے فورم پر ایک خاتون نے وہ بات کہہ دی جو وہاں پر موجود مرد حضرات نہ کہہ سکے۔ بی بی نسیمہ کا یہ چھوٹا سا کلمہ حق شاید ان کے شوہر نامدار کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ثابت ہوسکے کیونکہ انہوں نے شاید ہی کبھی حق اور سچ کی وکالت کی ہو۔ اس وقت عجیب صورتحال ہے ایک طرف الیکٹیبلز جنہیں عام لوگ لوٹے کہتے ہیں ممکنہ حکمران جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لئے قطار اندر قطار منتظر کھڑے ہیں۔ درجنوں شامل ہوچکے ہیں اور باقی اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ جب میاں نواز شریف گزشتہ ماہ کوئٹہ تشریف لائے تھے تو باپ پارٹی کے بیشتر سابق اراکین پارلیمنٹ اس جماعت کی ایک بار پھر زینت بن گئے تھے ۔ ان اصحاب بلکہ مرد و خواتین میں مکران کی ایک خاتون مینا مجید بلوچ بھی شامل تھیں لیکن زرداری کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران وہ ن لیگ سے مستعفی ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئیں۔ موصوفہ کون ہیں؟ میری کم علمی ہے کہ میں نہیں جانتا۔ کافی عرصہ سے سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے ذریعے ان کی افکار عالیہ پڑھنے کو ملتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مکران جیسے اہم سیاسی علاقہ میں ریاست کے قوی اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے کہ ماضی میں محترمہ زبیدہ جلال بھی قومی اثاثہ تھیں وہ تادم باپ پارٹی میں ہیں اور اس پارٹی کے جو بچے کھچے لوگ ہیں جن کی قیادت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب کررہے ہیں بڑی امید میں ہیں کہ آنے والے انتخابات میں ان کی کوئی نہ کوئی جگہ بنے گی۔ بلوچستان کے جملہ الیکٹیبلز چونکہ قومی اثاثہ ہیں۔ اس لئے ریاست اپنے ان اثاثوں کی ادھر سے ادھر منتقلی کی مشق جاری رکھے ہوئے ہے۔ محترمہ مینا بلوچ کا اپنے علاقہ اور سیاست میں کیا کردار ہے، غالباً کئی لوگ اس سے واقف ہیں۔ خاص طور پر میر ظہور بلیدی ضرور جانتے ہوں گے کیونکہ ان کی اپنی حیثیت بھی قومی اثاثہ کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معزز الیکٹیبلز کو کبھی ایک جماعت میں رہنے نہیں دیا جاتا۔ مثال کے طور سید احسان شاہ کئی تجربات کے بعد بی این پی مینگل کے کیمپ میں چلے گئے ہیں لیکن ان کی بنیادی ذمہ داری وہی ہوگی جو سونپ دی جائیگی۔ زمانہ ہوا بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام میر غلام قادر سے صحافیوں نے پوچھا تھا کہ آپ لوگ بار بار پارٹیاں کیوں تبدیل کرتے ہیں تو جام صاحب نے جواب دیا تھا کہ ہم پارٹیاں تبدیل نہیں کرتے بلکہ پارٹیاں ہمیں تبدیل کرتی ہیں۔جام صاحب کا مسلمہ موقف تھا کہ پاکستان میں صرف ایک جماعت ہے اور ہم اس کے مستقل رکن ہیں۔ برسوں پرانی بات اب سچ ثابت ہوگئی ہے یہ پارٹی دراصل لارڈ سنڈیمن نے بنائی تھی جو لسبیلہ میں آکر فوت ہوگئے تھے۔ انہوں نے انگریزی حکومت کی حمایت کے بدلے سرداری نظام کو موروثی شکل دی تھی اور سردار صاحبان کے چولہوں کو انگیخت دینے کے لئے سالانہ وظائف بھی مقرر کئے تھے شاید اسی وظیفہ کا کمال تھا کہ اس نے سردار صاحبان کو سبی میں لاٹ صاحب کی بگھی کھینچنے پر مجبور کردیا تھا۔ شکر ہے کہ آج کل کے لاٹ صاحبان بگھی میں نہیں آتے بلکہ بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہوتی کہ کوئٹہ ایئرپورٹ پر اگر موجودہ کسی لاٹ صاحب کی گاڑی خراب ہوتی اور الیکٹیبلز سے کہا جاتا کہ گاڑی کاندھوں پر اٹھا کر شہر پہنچانا ہے تو اتنے لوگ اپنی خدمات پیش کرتے کہ عقل حیران رہ جاتی۔
الیکٹیبلز نئے انتخابات کے انتظار میں بے چین ہیں کیونکہ ان سے چند ماہ بھی حکومت، کرسی اور سرکاری خزانہ کے بغیر نہیں کٹتے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے لئے 8فروری کی تایرخ مقرر کی ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک طے نہیں ہے کہ الیکشن مذکورہ تاریخ کو ہوں گے۔ امکان ففٹی ففٹی ہے کیونکہ تیاری مکمل نہیں ہے۔ ابھی عمران خان کو مائنس کیا گیا ہے جبکہ پروگرام یہ ہے کہ تحریک انصاف میں جو عمران خان کے وفادار ہیں ان سب کو الیکشن سے آﺅٹ کردیا جائے۔ نااہلی سے بچنے اور بلے کے نشان کو بچانے کے لئے پارٹی نے جلد بازی میں نام نہاد انتخابات کروا کر چوہدری اعتزاز احسن کے معاون یا سیاسی برخوردار بیرسٹر گوہر خان کو صدر منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن اس انتخاب کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے یہ انتخاب تسلیم نہیں کیا تو پوری تحریک انصاف آﺅٹ ہوجائے گی۔ یہی بات ن لیگ چاہتی ہے۔ ن لیگ کو پتہ ہے کہ تحریک انصاف کی موجودگی میں ان کے لئے پنجاب میں الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس کی خواہش ہے کہ اس کا مقابلہ کسی سے نہ ہو یعنی میدان یا رنگ میں صرف ن لیگ ہو اور اسے بڑے حکمران فاتح قرار دیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ان پر جو مہربانیاں کی جارہی ہیں اس کے پیش نظر بلاول نے میاں صاحب کو لاڈلے کا خطاب دیا ہے۔ بلاول اور اس کے والد محترم نے پیپلز پارٹی 56 واں یوم تاسیس کوئٹہ میں منایا۔ انہوں نے ایوب اسٹیڈیم میں ایک عدد جلسہ کا اہتمام بھی کیا جو پیپلز پارٹی کے لحاظ سے کامیاب جلسہ تھا لیکن بی این پی مینگل کا اصرار ہے کہ جلسہ میں بندے کم اور جھنڈے زیادہ تھے۔ بلاول اور زرداری کے کوئٹہ میں قیام کے دوران یہ واقعہ بھی ہوا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کے پرانے رہنماﺅں کو ملاقات کے لئے بلایا گیا لیکن تین گھنٹہ انتظار کے بعد یہ لوگ بے نیل و مرام واپس لوٹ گئے۔ حالانکہ ان لوگوں نے انتہائی نامساعدہ حالت میں بلوچستان جیسے مشکلات علاقہ میں پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ 70-70 سال سے زیادہ عمر کے ان بابوں میں سید جاوید شاہ سابق صوبائی صدر مسٹر جمال جوگیزئی سابق جنرل سیکریٹری آغا نصیر احمد بنگلزئی، سابق صوبائی نائب صدر مسٹر عبدالرحیم ظفر سابق معاون ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر شامل تھے۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے بانی میر امان اللہ گچکی ہیں ان کے ساتھ ذکاءاللہ لودھی ، طاہر محمد خان، ملک باز محمد مہترزئی، عبدالباقی آخوند، جہانگیراوستو ڈاکٹر احمد حسین پندرانی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محمد بخش مجاہدنے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ 70-70 سال کے بابوں کو ٹھکرانے کے بعد پیپلز پارٹی ایک نئی جماعت بن گئی ہے، اس میں جو لوگ شامل ہیں وہ اس جماعت اس کے بانی اور اس کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ وہ بلاول اور زرداری کو جانتے ہیں یا انہوں نے محترمہ بے نظیر کے کارنامے سن رکھے ہیں۔ یہ نئی نسل ایک اور مخلوق ہے اس میں جیالا پن نہیں ہے۔ میرے خیال میں تین بابے صابر علی بلوچ، صادق عمرانی اور سید اقبال شاہ وہاں پر موجود تھے اور انہوں نے کوشش نہیں کہ پرانے بابوں کو ملاقات کے لئے بلایا جائے۔ اگرچہ رواں ماہ میں خود زرداری بھی 70 سال کے بابے ہوجائیں گے لیکن بلاول برملا کہتے ہیں کہ اس عمر کے لوگ گھر بیٹھ جائیں۔ بات تو ان کی صحیح ہے لیکن پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کے لئے بلاول کو ایک نیا سیاسی میثاق بنانا ہوگا۔ اپنے عوام کے ساتھ نئے عہد و پیمان کرنا ہوں گے ورنہ جس طرح پرانے بابے ختم ہوگئے ہیں یہ پارٹی بھی اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ بلاول نے جو مسئلہ اٹھایا ہے وہ دراصل جنریشن گیپ ہے۔ یہ خلا کیسے پر ہوگا۔ بلاول کو بابو ںکے بغیر یہ گر کوئی نہیں بتائے گا اور آخر میں شکر ہے کہ میں پرانے بابوں کے ساتھ سیرینا ہوٹل نہیں گیا ورنہ رات گئے انتظار کے بعد واپس آنا پڑتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں