مائنس ون سے کیا ہوگا؟

اداریہ
پاکستان کے عوام کی سمجھ میں یہ معمہ نہیں آرہا کہ بجٹ کی منظوری میں 160ووٹوں کی اکثریت والی حکومت جیتی یا119ووٹ کے ساتھ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک اپوزیشن فتحیاب ہوئی؟یہ سوال عوام کے غیر اہم ہے کہ بجٹ کی منظوری کتنے ووٹوں سے ہوئی،عوام یہ جانتے ہیں کہ اپوزیشن کی تمام تر توقعات دم توڑ گئیں۔مسلم لیگ(ق)نے وزیر اعظم کے عشائیہ میں شرکت نہیں کی بلکہ اپنے عشائیہ میں حکومت سے ناراض پارٹیوں کو دعوت دی۔جی ڈی اے کے رہنماء دونوں عشائیوں میں شریک ہوئے۔قاف لیگ نے ناراضگی کے باوجود ووٹ حکومت کو دیا۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کو 172ووٹ نہیں ملے اس طرح وہ 51فیصد ووٹ لینے میں ناکام رہی حکومت کادعوی ہے کہ اسے اپوزیشن کے مقابلے میں 41ووٹ زیادہ ملے۔اس لحاظ سے دونوں فریق سچے ہیں۔ عام آدمی کے لئے یہ بحث فضول ہے کہ حکومت نے کتنے ووٹ لئے؟ وہ پوچھ رہے ہیں بجٹ منظور ہو گیا ہے؟ یانہیں؟ اگر منظور ہوگیا ہے تو بحث وقت کا زیاں ہے کہ حکومت کے پاس کتنے ووٹ تھے؟ یہ مائنس ون کا مطالبہ بے وقت کی راگنی ہے۔سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی مطالبہ کر رہے ہیں: عمران خان اعتماد کا ووٹ لے کر دکھائیں۔ پی پی پی کے چیئرمین کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے سوا کوئی بھی ہو۔انہیں قبول ہے۔نون لیگی رہنماخواجہ آصف کا کہنا ہے حکومت کے پاس اکثریت نہیں، جانتے ہیں 160 ارکان کیسے لائے؟ اگر اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومت کے پاس ایوان میں سادا اکثریت نہیں رہی تو اسے چاہیئے اپنی پہلی فر صت میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئے،تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
وزیر اعظم نے ایک روز پہلے ایوان کو بتایا تھا کہ اس وقت روئے زمین پر ان کا متبادل موجود نہیں لیکن اپوزیشن کی جانب سے استعفیٰ دو اور مائنس ون قبول ہے جیسے مطالبات سن کر دوبارہ ایوان میں آئے اور کہا کہ کبھی نہیں کہا کہ کرسی مضبوط ہے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ حکومت نہیں جارہی۔ فیصلہ صرف اللہ کرتا ہے، ہم آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔ اصلاحات نہ کیں تو برا وقت آئے گا، سب کو قانون کے نیچے لانا میرا مشن ہے۔نظریے پر کھڑے رہے تو ہماری حکومت کوئی نہیں گرا سکتا، اگر میں مائنس ہو گیا میری جماعت سے آنے والا بھی اپوزیشن والوں کو نہیں چھوڑے گا۔عام آدمی نجی محفلوں میں کہتا ہے کہ نواز شریف کو مائنس کرنے کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا نواز شریف پاکستان کی سیاست سے مائنس ہو گئے؟کیا مسلم لیگ (نون) آرمی ایکٹ کی منظوری سمیت کوئی بھی سیاسی فیصلہ کرتے وقت نواز شریف سے ہدایت نہیں لیتی؟ کیا شہباز شریف پلس ون ہو سکے ہیں؟گلی میں چلتے کسی بھی شخص سے پوچھیں جواب نفی میں ملے گا۔ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد نیچے ہو جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔عدالتیں ان کی میڈیکل رپورٹس دیکھ کر حکومتی وکیل سے پوچھتی ہے:”کیا آپ ضمانت دے سکتے ہیں کہ نواز شریف پیر تک زندہ رہیں گے“؟وزیر اعظم جواب دیتے ہیں:”ضمانت تو میں اپنی زندگی کی نہیں دے سکتا،اٹارنی جنرل نواز شریف کی زندگی کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں“؟دنیا جانتی ہے نواز شریف لندن میں پلیٹ لیٹس کا علاج کرائے بغیر صحت مند ہیں،اور اپنے خاندان کے ساتھ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں، چائے پیتے ہیں۔انہوں نے عدالت کو ایک میڈیکل رپورٹ بھی نہیں بھیجی حالانکہ وہ عدالت کو یقین دلا کر گئے تھے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے کرپشن زدہ ملک میں قانون کی حکمرانی کیسے قائم کی جائے۔آٹا، چینی اورپیٹرول مافیاز سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ عام آدمی بجلی کو ترس رہا ہے جون کی زبردست گرمی میں 8،8اور10،10گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتا ہے۔ گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں گندے پانی کے دریا بہہ رہے نہیں اور پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ غریب عوام کہاں جائیں؟کس سے فریاد کریں؟
پاکستان سمیت دنیا کورونا جیسے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ کہنے کو یہ زکام جیسی ایک بیماری ہے مگر اصل میں اس نے دنیا بھر کی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ٹرانسپورٹ (بری، بحری اور فضائی) مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔عبادت گاہوں میں گنجائش کے صرف 30فیصد کو عبادت کی اجازت دی جاتی ہے وہ بھی ایس او پیز کی پابندیوں کے ساتھ!اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔پاکستانی سیاست دان مائنس ون جیسی فضول بحث میں اپنا اور عوام کا وقت برباد کر رہے ہیں۔عدم اعتماد لانے کی سکت نہیں وزیر اعظم کو للکار رہے ہیں:
”اعتماد کا ووٹ لے کر دکھائیں“
حکومت لاکھ انکار کرے مگرسب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے مشیروں اور معاونین کی صورت میں مافیاز نے انہیں گھیرے میں لے رکھا ہے۔احتساب کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر احتساب کہیں ہوتاہوا نظر نہیں آتا۔نواز شریف پاکستان کی جیل سے نکل کر لندن کے متنازعہ گھر میں مقیم ہیں جہانگیر ترین چارٹرڈ طیارے میں اڑ کر لندن میں پناہ لئے بیٹھے ہیں۔ قانون کی حکمرانی منہ چھپائے بیٹھی ہے۔ اپوزیشن مائنس ون کے نعرے لگا رہی ہے عوام کے مسائل، عوام کی مشکلات کی کسی کو فکر نہیں۔ یہ احمقانہ روش زیادہ دن نہیں چلے گی۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر جو نئی صورت حال جنم لے رہی ہے آج نہیں تو کل یہ شعلوں میں تبدیل ہوگی کیا سیاست دان اس کے مثبت یا منفی اثرات سے بچ سکیں گے؟انہیں یہ لاتعلقی مہنگی پڑے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں