مجبوری، کمزوری یا انکساری
تحریر: انور ساجدی
مجبوری کہیے،کمزوری کہیے یا انکساری کہ نوازشریف 23 سال بعد گجرات کے چوہدری شجاعت حسین کے قدموں میں جا بیٹھے حالانکہ پرویز مشرف کے ساتھ مل کر چوہدری برادران نے ق لیگ بنائی نوازشریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔شریف خاندان کو جلاوطنی کی راہ دکھائی۔ایک بھائی تین ماہ کے لئے وزیراعظم بن گیا دوسرے کوپنجاب کی وزارت اعلیٰ مل گئی۔ن لیگ تتر بتر ہوگئی۔در بدر نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ سب کو معاف کر سکتے ہیں لیکن چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔2008 میں پہلے زرداری نے کہاکہ قاتل لیگ کے سوا سب سے بات ہوسکتی ہے لیکن حکومت بنانے کے بعد اسی قاتل لیگ کے رہنما پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا کر نوازشریف کے زخموں پرنمک چھڑکا ۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب پرویزمشرف نے اعلان کیا تھا کہ وہ وردی اتارے بغیر صدربن جائیں گے تو پرویز الٰہی روز بیان دیتے تھے کہ ہم وردی میں ہزاربار پرویز مشرف کو صدر بنائیں گے۔مشرف کے زوال کے بعد انہوں نے زرداری کی گود میں پناہ لی۔2013 میں مسلم لیگ نے برسراقتدار آنے کے بعد چوہدری برادران کو کوئی گھاس نہیں ڈالی۔2018 کے انتخابات میں مشہور برادران نے عمران خان کے ساتھ اتحاد بنایا لیکن2022 کی تحریک عدم اعتماد میں چوہدری شجاعت نے پی ڈی ایم کا ساتھ دیا جبکہ پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ رہے۔ عمران خان کے زوال کے بعد پرویز الٰہی راندہ درگاہ ہیں اور یاروں نے انہیں قید میں ڈال رکھا ہے۔ان کے ماضی کے پیش نظر کسی کو یقین نہیں آ رہا کہ پرویز الٰہی عمران خان کی خاطر ڈٹے ہوئے ہیں۔سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کے اشارے پر جیل کاٹ رہے ہیں۔وقت آنے پر وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے میںایک منٹ کی دیر نہیں لگائیں گے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اگر نوازشریف 2007 کو جلاوطنی ترک کر کے واپس آنے کے بعد چوہدری شجاعت کو معاف کر دیتے تو2017 میں انہیں اتنی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اسی طرح شیدا ٹلی کوبھی معاف کردینا چاہیے تھا کیونکہ شریف خاندان کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
نوازشریف نے چار سال جلا وطنی میں گزارنے کے بعد یا این آر او ملنے کے بعد ان تمام عناصر سے سمجھوتہ اور مصالحت سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے جو عمران خان کے مخالف ہیں۔ ان کا جذبہ انتقام صرف عمران خان تک محدود ہے ورنہ وہ چوہدری شجاعت کے قدموں میں نہ بیٹھتے۔آگے جا کروہ آصف علی زرداری کے خلاف 1990 والا محاذ دوبارہ کھولیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ان کا سارا بیانیہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے گرد گھومتا ہے۔انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود میاں صاحب اور ن لیگ میں کوئی جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آرہا۔ یا تو میاں صاحب کو بتا دیا گیا ہے کہ انتخابات8 فروری کو نہیں ہوں گے بلکہ آگے جائیں گے۔اس لئے وہ مطمئن بیٹھے ہیں۔سنا ہے کہ درپردہ میاں صاحب اور مولانا کی کوشش ہے کہ انتخابات مزید کچھ مہینے کے لئے موخر ہوں۔ایسا ہوا تو نصف سینیٹ خالی ہو جائے گی جس کی وجہ سے ایوان بالا ختم ہو جائے گا جو آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔خیر پاکستان میں آئین کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں ہے۔پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔مولانا نے تو دو صوبوں پختونخواہ اور بلوچستان کی صورتحال کے باعث انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنا دیا ہے۔مولانا کیا گارنٹی دیں گے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران پختونخواہ اور بلوچستان میں مکمل امن قائم ہو جائے گا جس کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا۔دونوں صوبوں میں اعلانیہ جنگ جاری ہے۔پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی علاقوں میں بغاوت کی سی کیفیت ہے جہاں ٹی ٹی پی ریاست کے ساتھ برسرپیکار ہے۔افغانستان سے تازہ کمک ملنے کے بعد ٹی ٹی پی تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ طالبان اور افغان حکومت ڈیورنڈ لائن کو بھی تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔انہوں نے سرحد پر پاکستان آنے والوں کے لئے خیرمقدمی نعروں ویلکم ٹو پاکستان پر بھی اعتراض اٹھایا ہے چمن میں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے دھرنا جاری ہے اور وہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ وہ آنے جانے کے لئے پاسپورٹ اور ویزے کی پابندیوں کو قبول نہیں کرتے۔اگر طالبان حکومت مستحکم ہو گئی تو وہ فاٹا کی حیثیت اور ڈیورنڈ لائن کے مسئلہ کو باقاعدہ ایشو بنا دیں گے۔جس کی وجہ سے اہم ترین صوبے میں سیاسی بے چینی اور عدم استحکام بڑھ جائے گا۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو یہاں کی صورتحال پرانی ہے۔آبادی کا ایک طبقہ ریاستی کنٹرول اور رٹ کو تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے یا دونوں طرف سے طاقت کا مسلسل استعمال جاری ہے۔ ایک خونی تنازعہ بڑے انسانی المیہ میں بدل چکا ہے۔حکومت کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔بلکہ صرف طاقت کے استعمال کا آپشن ہے۔18 سال کی موجودہ اپرائزنگ سے ثابت ہوا ہے کہ محض طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ایک طرف وفاقی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں اور ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ جرگہ بلا کر بات چیت کی دعوت دے رہے ہیں۔یہ ایک کھلا تضاد ہے۔بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے کشمیر کا کیس کمزور کر دیا ہے اور انڈیا کشمیر پر کامل قبضہ کر کے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔پاکستان کے تین تہائی حصہ میں جو آگ جل رہی ہے اسے بجھانے کی ضرورت ہے اور یہ کام کوئی نگراں حکومت نہیں کرسکتی بلکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعت ہونے کے دعویدار آس لگائے بیٹھے ہیں کہ پنجاب کے مرد آہن میاں نوازشریف حکومت بنائیں گے تو حالات قابو میں آ جائیں گے۔یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ جب ڈاکٹر مالک وزیراعلیٰ تھے اور نوازشریف کے کہنے پر وہ جلا وطن بلوچ رہنماﺅں سے مذاکرات کرنے لندن اورجنیوا گئے تھے تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انہیں شٹ اپ کال دی تھی۔اب ایسا کیا ہوگا کہ نوازشریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے سے یہ مسئلہ حل ہوگا۔ایک اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی پارٹیاں مسئلہ کا سرے سے فریق ہی نہیں ہیں اور نہ ہی جلا وطن رہنما کسی پوزیشن میں ہیں کیونکہ جو نوجوان پہاڑوں میں لڑ رہے ہیں اصل فریق وہی ہیں ان سے راہ و رسم کے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ن لیگی ذرائع کے مطابق میاں نوازشریف نے چند روزقبل کہا تھا کہ ڈاکٹر مالک کا آن بورڈہونا ضروری ہے حال ہی میں انہوں نے فرمایا ہے کہ اختر مینگل کے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔نیشنل پارٹی اور بی این پی دونوں میاں نوازشریف کی اتحادی ہیں۔اس لئے وہ دونوں کو بٹھا کر اس طرح سیٹ ایڈجسٹمنٹ کروا دیں جس طرح مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم ساتھ کی ہے۔جب نیشنل پارٹی اور بی این پی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں تو ان کے درمیان محاذ آرائی اور ناچاقی اچھی نہیں لگتی۔
باقی جو مسنگ پرسنز کا معاملہ ہے وہ جوں کا توں رہے گا۔طاقت کا استعمال واحد آپشن کے طور پر جاری رہے گا۔الیکٹیبلز کی دستگیری اسی طرح جاری رہے گی۔تبدیلی کی تو دور کی بات چہرے بھی تبدیل نہیں ہوں گے۔جس کی بھی حکومت آئے وہی آزمودہ لوگ وزیر اور مشیر رہیں گے۔وسائل کی بربادی اسی طرح جاری رہے گی۔
البتہ یہ طے ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو اس کے بعد ن لیگ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو سینیٹر بنا کر ایوان بالا میں ایڈجسٹ کرے گی اس کے علاوہ بلوچستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔