ادھورے خواب

تحریر: انور ساجدی
نوازشریف اور مقتدرہ کے درمیان صلح کی پہلی اور بڑی شرط یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم ختم کر دی جائے اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کیا جائے مگر نوازشریف یہ عظیم کارنامہ اس وقت انجام دے سکیں گے جب پارلیمنٹ میں ان کی دو تہائی اکثریت آئے کیونکہ اس کے بغیر آئین میں ترمیم کرنا ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوازشریف دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی خاطر ایم کیو ایم اور جہانگیرترین سے بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر مصطفی کمال نے دو روز قبل سی پی این ای ہاﺅس میں ایڈیٹروں کو وہ ترامیم دکھائیں جو لوکل باڈیز کے اختیارات سے متعلق ہیں۔ان ترامیم کو بھی ن لیگ نے من وعن تسلیم کیا ہے جس کی بنیاد پر دونوں جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ طے پایا ہے حالانکہ ایم کیو ایم کو یاد ہونا چاہیے کہ 1992 میں کراچی آپریشن کے دوران میاں صاحب کی حکومت نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا۔خیر یہ والی ایم کیو ایم بھی نئی جماعت ہے اور اس کا تعلق الطاف حسین والی ایم کیو ایم سے نہیں ہے۔ یہ جماعت ایک خاص منصوبہ کے تحت بنائی گئی ہے درمیان میں یہ گڑ بڑ ہوئی کہ2018 کے انتخابات میں کراچی کی بیشتر قومی اسمبلی کی نشستیں ایم کیو ایم کے بجائے تحریک انصاف کودے دی گئیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ حکومت بنا سکے۔ایم کیو ایم نے تو دو ترامیم دکھائیں لیکن ن لیگ نے 18 ویں ترمیم کے خاتمہ یا اس میں بنیادی تبدیلی کے لئے جو ترامیم تیار کی ہیں وہ سینے سے لگا کر رکھی ہیں تاکہ وقت سے پہلے کسی کو پتہ نہ چل سکے۔بظاہر18 ویں ترمیم کو ختم کرنا ایک مشکل کام ہے اگر یہ مشکل کام کیا گیا تو ملک میں واحدانی طرز حکومت رائج ہو جائے گااور صوبوں کے اختیارات کم اور مرکز کے زیادہ ہو جائیں گے۔مضبوط مرکز تو دیرینہ خواب ہے جسے18ویں ترمیم نے ریزہ ریزہ کر دیا لیکن اس کی یہ توڑ نکالی گئی کہ عملی طور پر سافٹ ٹیک اوور کے ذریعے مرکزنے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔نئی ترمیم پر کبھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا۔ اس کے باوجود بے سکونی اور پریشانی موجود ہے تاوقتیکہ 18ویں ترمیم کا مکمل تیا پانچا نہیں ہو جاتا یہ جون لیگ ہاتھ پیر مار رہی ہے اور جہانگیر ترین جیسے بے قبلہ اور بے سمت شخص کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے یہ ساری پریکٹس دو تہائی اکثریت کے حصول کےلئے ہے۔ حالانکہ ن لیگ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہانگیر ترین خاص بندہ ہے اور وہ حسب ضرورت کسی کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔اگر وہ عمران خان کا نہ ہوا تو ن لیگ کا ساتھ کیسے نبھائے گا۔وہ ادھر کا بندہ ہے جب اشارہ ملے وہ ساتھ چھوڑ دے گا۔یہی پوزیشن موجودہ ایم کیو ایم کی ہے۔اس نے1990 اور1997 میں ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی حتیٰ کہ شہازشریف کی 16 ماہ کی حکومت میں بھی شامل رہی۔ جب اس نے عمران خان کے پیروں پر کلہاڑی ماری تو اس کے پاس اہم وزارتیں تھیں لیکن اشارہ ملتے ہی وہ عمران حکومت چھوڑ کر اس کے خلاف صف آراءہو گئی۔اس کا واحد مقصد سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہزیمت پہنچانا اور صوبائی اختیارات کے بجائے بلدیاتی اختیارات میں اضافہ ہے۔مصطفی کمال نے واضح طور پر کہا کہ ہم آئندہ حکومت کا حصہ بنیں گے یا اس کا ساتھ دیں گے۔
اصل قصہ یہ ہے کہ ایم کیوایم کے زیرک رہنماﺅں کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے۔کراچی میں آبادی کا توازن بدل گیا ہے۔1990نہیں ہے گزشتہ تین عشروں میں پشتونوں کی آبادی چار یا پانچ ملین ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں کراچی مہاجر اکثریت کا شہر نہیں رہا۔اس میں نصف یا اس سے زیادہ آبادی دیگر قوموں سے تعلق رکھتی ہے لیکن ایم کیو ایم ابھی تک اس خوش فہمی میں ہے کہ کراچی مہاجر اکثریت کا شہر ہے۔مستقبل قریب میں آبادی کے توازن میں مزید تبدیلی آئے گی۔کیونکہ دیگر صوبوں اور علاقوں سے لوگوں کی کراچی آمد جاری ہے۔یہ جو حقیقت ہے اسے پیش نظر رکھ کر ہی درست سمت میں جایا جاسکتا ہے اور صحیح فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔
جس طرح ن لیگ سابقہ الیکٹبلز کے لئے مری جا رہی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی جال لئے ان موسمی پرندوں کو پکڑنے کے لئے سرگرداں ہے۔پہلے زرداری سے کہا گیا تھا کہ بلوچستان آپ جس پر وہ بے حد خوش تھے لیکن اچانک فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان ن لیگ کے حوالے کیا جائے گا۔اس لئے اپنے الیکٹبلز کو بڑی تعداد میں ن لیگ کے حوالے کیا گیا اور وہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اپنے کیمپ میں لے گئی۔ن لیگ کو ابھی تک سمجھ نہیں ہے کہ یہ مستعار شدہ مخلوق تو کسی اور کی ہے۔ان کی سرشت میں وفا صرف ایک ہی مقام کے لئے ملتی ہے۔وہ کسی اور کے ہو ہی نہیں سکتے۔ان کی ایما اور طاقت پر جو حکومت بنے گی اس کا حشر وہی ہوگا جو2022میں پی ٹی آئی کی حکومت کا ہوا۔اس کے باوجود زرداری زور لگا رہے ہیں کہ یہ اثاثے ان کے پاس آ جائیں خیر قدوس بزنجو تو آچکے ہیں اور شفیق مینگل کو بھی زرداری صاحب نے دعوت دے ڈالی ہے۔زرداری کی کوشش ہے کہ وہ الیکٹبلز کے ذریعے کچھ نشستیں حاصل کریں تاکہ حکومت سازی کی پوزیشن میں آ جائیں لیکن بڑا مشکل ہے کیونکہ نیشنل پارٹی کا ن لیگ کے ساتھ الائنس ہو چکا ہے اور بی این پی مینگل کے لئے بھی واحد آپشن یہی ہے کہ وہ ن لیگ کے ساتھ الائنس بنائے۔اگر اختر مینگل نے آزادانہ راستہ اختیار کیا تو یہ پرخطرثابت ہوسکتا ہے لیکن انہیں غیر متوقع کامیابی بھی مل سکتی ہے۔بلوچستان کی دو اہم جماعتیں جے یو آئی ایف اور پشتونخواہ میپ باقاعدہ طور پر ن لیگی کیمپ کا حصہ ہیں۔مولانا ایک طرف اپنے لئے صدارت مانگ رہے ہیں جبکہ وہ نواب اسلم رئیسانی کے لئے وزارت اعلیٰ کا امکان بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ جمعیت کو توقع ہے کہ وہ اس بار زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی جس کے بعد وزارت اعلیٰ کا حصول آسان ہو جائے گا۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی جن خوش فہمیوں کا شکار ہیں وہ ایک سراب کی وجہ سے ہیں۔دونوں کو معلوم ہے کہ عمران خان کو زمین بوس کرنے اور انتخابات میں کامیابی وہ اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتے۔اس کے لئے انہیں متعدد سمجھوتے کرنے پڑیں گے اور مصلحت اور مصالحت سے کام لینا پڑے گا۔مقتدرہ کے لئے آسان ہے کہ وہ نوازشریف سے ڈیل کرے لیکن نوازشریف ابہام کا شکار ہیں۔پاکستان روانگی سے قبل انہوں نے جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اورچیف جسٹس نثار کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا پاکستان آنے کے بعد وہ اپنے اس بیانیہ سے دستبردار ہوئے تھے اور لاہور کے جلسہ میں واضح اعلان کیا تھا کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے لیکن دو روز قبل ایک پریس کانفرنس میں وہ اپنے اس بیانیے سے پھر گئے اور دوبارہ مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے حالانکہ یہ بہت ہی مشکل مطالبہ ہے اگر نوازشریف اس پر ڈٹے رہے تو ان پر نظرکرم ہٹ سکتی ہے کیونکہ انہوں نے جن ہستیوں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے وہ غیر معمولی لوگ ہیں ۔آج تک ایسی ہستیوں کا محاسبہ نہیں ہوا۔بھلا اب کیسے ہوگا۔نوازشریف اپنے اس بیانہ کے ذریعے اپنے لاڈلے پن کا اسٹیٹس کھو سکتے ہیں۔ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تاکہ ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحرانوں سے نکالا جا سکے لیکن میاں صاحب سے یہ توقع باندھنا بھی غلط ہے ان کے پاس معیشت کو ٹھیک کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے ان کے لئے الہ دین کا واحد چراغ اسحاق ڈار ہیں جو مسلسل ناکام ہیں۔چنانچہ معیشت ٹھیک ہونے کا امکان نہیں ہے۔سیاسی اعتبار سے جو عدم استحکام ہے وہ بھی ایم کیو ایم اورجہانگیر ترین کی موجودگی میں ختم نہیں ہوسکتا۔اگر18 ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو یہ کالا باغ ڈیم والی صورتحال ہو جائے گی جس سے ملک نئے بحران کا شکار ہوجائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف انتخابات کا بندوبست کیا جائے۔تمام جماعتوں کو حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔تحریک انصاف پر کوئی قدغن نہ لگائی جائے جو نتائج آئیں انہیں دل سے تسلیم کیا جائے تب آگے جایا جا سکتا ہے اوربحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر انتخابات متنازعہ ہوئے تو ریاست 1970 کی دہائی میں پہنچ جائے گی جس کا ازالہ کرنا ممکن نہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں