ناقابل یقین واقعات

تحریر انور ساجدی

زرداری نے اپنے دور صدارت میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بارے میں جو ریفرنس دائر کیا تھا وہ ان کا درست فیصلہ نہیں تھا کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ اور ہر چھوٹا بڑا لیڈر یہ مانتا تھا کہ بھٹو صاحب کو ضیاءالحق کے قہر آلود مارشل لاءکے دور میں جج صاحبان کو ڈرا دھمکا کر اور دباﺅ ڈال کر پھانسی کا فیصلہ حاصل کیا گیا تھا یہ خوف اور ڈر سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کر چکے تھے۔جب کہ اچھا خاص تاثر قائم تھا تو ایک نیا قضیہ شروع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس ریفرنس کا فیصلہ بھٹو صاحب کے حق میں آئے۔اس بارے میں جسٹس منصور علی شاہ واضح ریمارکس دے چکے ہیں جو حالات ہیں جو صورت حال ہے جس طرح کے معاملات چل رہے ہیں ضیاءالحق اور اسکے فیصلہ کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔عین ممکن ہے کہ چار پانچ کے تناسب سے فیصلہ آ جائے جس کے بعد یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا تھا۔حقیقت یہی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی اقلیت میں ہیں وہ کوئی آزاد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔غالباً یہ عدلیہ کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ اپنے ہی فیصلے کو معطل کردیا گیا ہو۔سویلین افراد کی ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی اجازت دینا معاملات کی درست نشاندہی کے لئے کافی ہے یا ایک بڑی مثال نوازشریف کے مقدمات کی ہے جب انہیں معزول کرنا تھا تو ہر فیصلہ ان کے خلاف آتا تھا اور اب جبکہ انہیں دوبارہ تخت پر جلوہ افروز کرنا مقصود ہے تو ہر فیصلہ ان کے حق میں آ رہا ہے۔وہ آخری بڑے مقدمہ سے باعزت بری ہو چکے ہیں۔صرف نااہلی کا کیس باقی ہے جو یقینی طور پر ان کے حق میں آئے گا۔جس کے بعد اقتدار میں ان کی واپسی لازمی ہے۔
دوسری جانب ہر عدالت کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آ رہا ہے جس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف سیاسی طورپر انہیں سنگل آﺅٹ کیا جائے گا بلکہ پارٹی قیادت بھی ہمیشہ کے لئے چھین لی جائے گی۔وہ انتخابی دوڑ سے تو باہر ہیں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے۔”بلے“ نشان بھی چھن جائے گا۔یعنی عمران خان کو اس مقام پر لاکھڑا کرنا ہے جہاں نوازشریف کو2017 میں کھڑا کیا گیا تھا۔یہ تمام پریکٹس اور جستجو یا محنت شاقہ کامقصد نوازشریف کے گناہوں کو دھونا اور عمران خان کو بدترین شخص ثابت کرنا ہے۔حالانکہ مقتدرہ سابقہ طریقے دہرائے بغیر بھی اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہے لیکن اس کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ایوب خان کے ایبڈوسے لے کر ضیاءالحق کے رجسٹریشن کے قانون اور جنرل مشرف کے آمرانہ طریقہ کار کو من و عن روبہ عمل لایاجا رہا ہے۔اگرچہ عمران خان نے سیاست میں بہت سی خرابیاں روشناس کروائیں ملک کو نظریاتی طور پر زنگ آلود سڑا ہوا قدامت پسندی کے راستے پر لے جانا ان کا سب سے بڑ گناہ ہے۔سیاسی مخالفین پر ناجائز مقدمات قائم کروانا جیلوں میں بند لوگوں کو آزار پہنچانا اور اذیت دینا ان کے قرون وسطیٰ کے آمرانہ ذہن کو ظاہر کرتا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ نوازشریف کے نقش قدم پر چلے گئے۔اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج پاکستان کی بدترین پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے کی ذمہ دارای ضیاءالحق کے بعد ان کے سیاسی جانشین نوازشریف پر عائد ہوتی ہے۔ضیاءالحق کے آمرانہ قوانین کو برقرار رکھنے ،آئین میں اس کی پسندیدہ دفعات 62اور 63اے یعنی صادق اور امین والی شق کو نوازشریف نے نکلنے نہیں دیا۔نیب کے قوانین کی راہ میں بھی وہی حائل رہے۔ملک میں عام عدالتوں کی موجودگی کے باوجود خصوصی عدالتوں کا قیام بھی نوازشریف کا کارنامہ ہے۔ پھر ان میں سے ایک عدالت نے انہیں جنرل پرویز مشرف کے جہاز کے اغواءکے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی اگر جج رحمت علی جعفری مشرف کے زیادہ دباﺅ میں آتے تو نوازشریف کو سزائے موت ملنی یقینی تھا لیکن وہ نہ مانے اس طرح سانحہ اے پی ایس او کے بعد جو عدالتیں بنیں نوازشریف نے اس میں بھی پوری سہولت کاری کی۔انکی غلطیوں کا کیا شمار کیا جائے۔دبئی میں میثاق جمہوریت پر دستخط ثبت کرنے کے بعد انہوں نے میمو اسکینڈل میں مدعی بننا قبول کیا تاکہ مقتدرہ کی خواہش پر اس وقت کے صدر کو غدار قرار دے کر عہدے سے علیحدہ کیا جاسکے۔یہ تو امریکہ تھا کہ اس نے زرداری کی معزولی اور گرفتاری کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اگر2017 میں وہ معتوب بنے تو اس میں ان کی اپنی غلطیوں کا عمل دخل زیادہ تھا۔جیل سے خوفزدہ ہو کر انہوں نے جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا اس فیصلہ سے قبل آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔عمران خان نے نوازشریف اور زرداری کی مدد سے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر کے ہر چیف کی توسیع کی راہ ہموار کر دی۔ نوازشریف کو ہمیشہ یہ توسیع کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا۔ اگرنوازشریف جنرل ضیاءالحق کی جانشینی کا علم بلند نہ کرتے توآج پاکستانی عوام کی یہ حالت نہ ہوتی۔ضیاءالحق کا قائم کردہ نظام پوری قوت کے ساتھ قائم ہے۔سماج کے ہر شعبے پر اس کے اثرات واضح ہیں۔دستور ہو،قانون ہو، سیاسی نظام ہو ہر جگہ سے ضیاءالحق کے مکروہ نظام کی سڑاند آ رہی ہے۔مجاہدین طالبان اور پاکستان کے انتہا پسند ملا صاحبان ضیاءالحق کی وجہ سے اتنے مضبوط ہوئے کہ ہر طرف مدارس کا جال اور مستقل دہشت گردی اس کی وجہ سے دائمی مسئلہ بن گئے۔یہ تو بہت کم ہی ہوا ہے کہ ایک ہی دن ایک ہی واقعہ میں 25 جوان جاں بحق ہوئے ہوں۔جنرل ضیاءالحق کی افغانستان اور جہادی پالیسی نے پاکستان کو جس تباہ کن راستے پر ڈالا اس سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اس وقت ریاست میں جو کچھ ہو رہا ہے کہا جا سکتا ہے کہ برائے نام اور نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹی جا چکی ہے۔آئین موجود ہے مگر اس کی تشریح حسب منشا اور عندالطلب کی جا رہی ہے۔مزدور کسان ٹریڈ یونین کچھ معنی نہیں رکھتے ایک نیا نظریہ پاکستان کھڑا کیا گیا ہے جو جنرل ضیاءالحق کے زرین اور عہد آفرین اصولوں پر مبنی ہے۔اس نظریہ کے تحت پارلیمنٹ کی حیثیت مجلس شوریٰ سے زیادہ نہیں جب ضرورت پڑے اراکین کو بھیڑ بکریوں یا گدھے اور گھوڑوں کی طرح دوسری جانب ہانکا جاتا ہے۔ ریاست کے بیشتر اہم اثاثے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر غیر ملکیوں کو فروخت کر دئیے گئے ہیں۔ ریکوڈک،موٹرویز اور اہم ہوائی اڈوں کے بعد تازہ سودا آئل اور گیس کے شعبہ کا ہے۔جنرل ضیاءالحق نے ریاست کی سمتوں کو جس طرح غلط ملط کر دیا تھا وہ الجھاﺅ مزید بڑھ رہا ہے۔لہٰذا شدید ترین انجینئرنگ اور ہائبرڈ سسٹم کے ذریعے ریاست اور اس کے اداروں کا حلیہ اتنا بگڑنے والا ہے کہ اس کا تصور کرنا محال ہے۔سردست عوام روٹی کے محتاج ہیں لیکن عزائم یہ ہیں کہ 1973 کے آئین کو ختم کر کے اس کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے اس مقصد کے لئے بدقسمتی سے ایسی جماعتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جو ماضی میں جمہوریت اور آئین پرستی کے دعویدار تھیں ایک سونامی اور طوفان کو گھیر کر زبردستی اس ریاست کی طرف لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انصاف یوں سمجھو کہ معدوم ہو چکا ہے۔اس پر کیا موقوف عنقریب ناقابل یقین واقعات جنم لینے والے ہیں جو آوے کا آوا بگاڑ کر رکھ دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں