الیکشن کا سندیسہ

تحریر: انور ساجدی
اگر 8 فروری کو انتخابات ہوئے تو وہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مذاق ہوں گے، بعض مبصرین کے مطابق یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے اور قرعہ اندازی کے ذریعے کامیاب امیدواروں کے نام بیلٹ باکس سے باہر نکالے جائیں گے۔ بظاہر دو بڑی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مدمقابل ہوں گی۔ جبکہ تحریک انصاف کو دیوار سے لگایا جائیگا۔ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے زیرو رزلٹ لائیگی جبکہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ن لیگ اس وقت غیر مقبولیت کی معراج پر ہے اس لئے وہ سرپرائز دے گی۔ اس طرح کے بیانات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں کیونکہ الیکشن انجینئرڈ ہوں گے، سلیکشن مخصوص ہوگی تو اس طرح کے دعوے بے معنی ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں حالات دگردوں ہیں پھر بھی وہاں پولنگ ہوسکتی ہے لیکن کوئٹہ سے لے کر مند تک بلوچستان کے ایسے حالات ہیں کہ وہاں پولنگ کا امکان کم ہے۔ شاید اس طرح کی پولنگ ہوجب عبدالقدوس بزنجو 544 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔ جب آدھے پاکستان میں یہ صورتحال ہو تو جو الیکشن ہوگا اسے کون تسلیم کرے گا۔ اگر واقعی الیکشن مقصود تھے تو نگران حکومت کچھ تو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتی۔ آدھی کابینہ ن لیگ کی ہے اور جو وزراء مستعفی ہورہے ہیں وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں جبکہ خود وزیراعظم ن لیگ کا سینیٹر بننے کے خواہاں ہیں۔ یہ تو نگران حکومت کا وزن ہے جبکہ اصلی تے وڈے جو حکمران ہیں ان کے ارادے ابھی تک معلوم نہیں۔ بس تاثر یہی جارہا ہے کہ ان کی ہمدری، توانائی اور سہولت کاری ن لیگ کے ساتھ ہے۔ اپنے تئیں نواز شریف نے وزیراعظم کے حلف کے لئے نئی شیروانی سلوا لی ہے کیونکہ لندن میں قیام کے دوران ان کا وزن بھی خاصا بڑھ گیا ہے اس لئے پرانی شیروانیاں تنگ پڑ گئی ہیں۔ جب آصف علی زرداری نے یہ دیکھا کہ ”ونڈ“ میں زیادہ حصہ ن لیگ کو جارہا ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا اور انہیں یہ طفل تسلی دی گئی کہ سندھ آپ کا اور آدھا بلوچستان بھی آپ کا، لیکن اصل صورتحال تو 8فروری کی رات گئے معلوم ہوگی کہ قرعہ اندازی میں کس کے کتنے نام نکلے ہیں۔ بلوچستان میں تو اچھی خاصی افراتفری دیکھنے میں آرہی ہے۔ بی این پی مینگل کے لیڈر سید احسان شاہ نے تربت میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیشگی اعلان فرمایا ہے کہ بلوچستان میں بی این پی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی حکومت بنے گی۔ انہوں نے فہرست سے نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ کا نام نکال دیا ہے۔ حالانکہ بلوچستان کی روایت ہے کہ یہاں پر کافی عرصہ سے کل جماعتی حکومت بنائی جاتی ہے۔ اگر نیشنل پارٹی اور پختونخواہ میپ کی کم نشستیں بھی آئیں تو بھی انہیں کل جماعتی حکومت میں شامل ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ احسان شاہ کو چاہئے تھا کہ وہ پیشگوئی بھی کردیتے کہ آئندہ وزیراعلیٰ کون ہوگا آیا ان کے علاوہ بھی کوئی امیدوار ہے کہ نہیں۔
زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کا بہت برا حال ہے۔ پنجاب جسے ن لیگ اپنا قلعہ سمجھتی تھی بظاہر ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ صرف زبردست جھرلو ہی ن لیگ کو کامیابی دلاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ ن لیگ کا روایتی ووٹ بینک جی ٹی روڈ بھی ساتھ نہیں ہے۔ یہی حال جے یو آئی کا پختونخواہ میں ہے۔ البتہ بلوچستان میں اس کی پوزیشن بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی لاکھ دعویٰ کرے وہ ماضی کی عوامی حمایت کھو چکی ہے۔ یہی حال چھوٹی جماعتوں کا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کا ان جماعتوں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی کے بعد بھی ان کی کارکردگی صفر رہے گی کیونکہ ان کا نظام کنٹرول یا ریمورٹ کنٹرول کہیں اور پر ہے۔ جو بھی جماعت حکومت بنائے یا لمبی چوڑی مخلوط حکومت بن جائے تو اسے اختیارات نہیں ہوں گے، وہ ڈھنگ کی فارن پالیسی نہیں بنا سکے گی اور وہ ایسا اکانومک آرڈر نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی جو کہ ملک کو معاشی زبوں حالی سے نکال سکے۔ زرداری کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت بن گئی تو کچھ ہی عرصہ بعد ان کی لڑائی شروع ہوجائے گی۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ زرداری کو پھر سے موقع ملا تو وہ بہترین تابع فرمان ثابت ہوں گے۔ وہ اپنے رستے پرچلیں گے کہ کسی کو نہیں چھیڑیں گے۔ وہ صلح اور آشتی کے ساتھ اپنا دورانیہ مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک اور بات ابھی واضح نہیں کہ نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل ہیں کہ نہیں، یہ بات اس وقت پتہ چلے گی جب وہ کاغذات نامزدگی داخل کریں گے۔ ان پر اعتراض ہوگا کہ وہ تاحیات نااہل ہیں اس لئے الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں چنانچہ انہیں اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے وقت ان کے ہاتھوں سے نکل جائیگا۔ اگر ایسا ہوا تو قرعہ فال شہباز شریف کے نام نکلے گا جو پہلے تو صرف جھکے تھے لیکن مستقل وزیراعظم بننے کے بعد لیٹ کر حکومت چلائیں گے۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو عمران خان کے بعد اس کی کوئی مؤثر لیڈر شپ نہیں ہے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں بلے کا نشان ملے گا کہ نہیں۔ تنظیمی طور پر یہ جماعت بہت کمزور ہے اور اس کے لئے تو پاکستان کے تمام حلقوں سے امیدواروں کا چناؤ بھی مشکل ہے۔ حالانکہ عوامی مقبولیت میں وہ دیگر جماعتوں سے آگے ہے۔ الیکشن کے موسم میں اس کے خلاف انتقامی اور انتظامی کارروائیاں جاری ہیں۔ اس کے امیدواروں کے لئے آزادانہ الیکشن لڑنا ممکن نہیں ہے اگر یہ صورتحال جاری رہی تو کنٹرول اور جھرلو الیکشن کو کوئی نہیں مانے گا۔ تحریک انصاف کے بعض لیڈر اپنے حامیوں کی ڈھارس بندھانے کی خاطر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر کوئی نام نہاد حکومت بن بھی گئی تو اس کا حال سری لنکا کی گزشتہ حکومت جیسا ہوگا اور عوام عمران خان کی کال پر سارے ملک میں تحریک چلا کر راجہ پکسے کی طرح حکومت کا تختہ الٹ دیں گے لیکن یہ محض ایک خام خیالی اور خوش فہمی ہے کیونکہ عمران خان کو کئی سنگین مقدمات کا سامنا ہے، اگر عدالتوں نے ریلیف نہیں دیا تو ان کی عمر قید پکی ہے، ان کی غیر موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ عوام سڑکوں پر آکر انقلاب لا سکیں۔
ویسے تو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت 8فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے لیکن اگر کوئی حیران کن واقعات ہوئے تو الیکشن آگے جاسکتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ الیکشن کا سندیسہ امریکہ بہادر سے آیا ہے۔ اس نے واضح کہا ہے کہ اسے پاکستان میں عام انتخابات اور ایک منتخب حکومت درکار ہے۔ چنانچہ 8فروری کے انتخابات جو لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے تقریباً ملتوی ہوگئے تھے سپریم کورٹ کے حکم سے واپس ہوگئے۔ اگرچہ بظاہر الیکشن پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ماضی میں انٹرنیشنل مقتدرہ مداخلت کرتی رہی ہے۔ انٹرنیشنل مقتدرہ کیا ہے ظاہر ہے کہ امریکہ تو مائی باپ اس کے بعد سعودی عرب، یو اے ای اور برطانیہ کا عمل دخل بھی ہوگا۔ کسی کے بقول نواز شریف اور آصف زرداری کو لے کر عالمی مقتدرہ تقسیم ہے۔ سعودی عرب اور امارات کا جھکاؤ نواز شریف جبکہ امریکہ اور برطانیہ کا جھکاؤ زرداری کی طرف ہے۔ زرداری نے گزشتہ برسوں میں امریکہ میں بڑی لابی کی ہے۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ زرداری کو پسند کرتی ہے تاہم اصل فیصلہ تو اندر کے حکمران کریں گے۔ کیونکہ پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اسے آئندہ سال 25ارب ڈالر قرضوں کے لئے درکار ہیں۔ فارن پالیسی بھی نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے یا چائنا کے ساتھ۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پاکستان دوبارہ امریکہ کی طرف پلٹ رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر اسے قرضہ اور امداد نہیں ملے گی اور نہ ٹریننگ اور پرزہ جات ملیں گے۔ چین نے جو کچھ دینا تھا وہ دیدیا اس لئے مزید کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سب کچھ نئی حکومت نے طے کرنا ہے، لہٰذا پاکستان کی اپنی مقتدرہ سوچ سمجھ کر سلیکشن کا فیصلہ کرے گی۔ ایک اور معاملہ ایران گیس پائپ لائن کا ہے جس کا 10 ارب ڈالر جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔ یہ مسئلہ زرداری حل کروا سکتے ہیں نواز شریف نہیں۔ ایک اور معاملہ افغانستان اور دہشت گردی کا ہے، پاکستان نے واضح طور پر افغانستان کو پیغام دیا ہے کہ اگر آئندہ افغانستان سے آکر دہشت گردوں نے حملے کئے تو افغانستان میں گھس کر جواب دیا جائیگا۔ اگر یہ نوبت آگئی تو ایک نئی جنگ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا مقتدرہ جلد یہ فیصلہ کرے گی کہ نواز شریف اور زرداری میں سے کس کو ترجیح دی جائے۔ امکانی طور پر اس کی کوشش ہوگی کہ مرکز میں بھی ایک کل جماعتی حکومت بنائی جائے جسے اتفاق رائے کی حکومت یا قومی حکومت کا نام دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں