ڈیجیٹل میڈیا اور بلوچ نیشنلزم

جیئند ساجدی
ماہر تعلیم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ابلاغ عامہ کا قوم پرستی کے فروغ میں ایک کلیدی کردار ہے۔اس مفروضے کے حامی اسکالرز بینیڈک اینڈرسن اور مائیکل بلیغ اپنی کتابوں’’Imagined Communities‘ ‘اور’’Banal Nationalism‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نیشنلزم میڈیا کی پیداوار ہے۔جب پرنٹ ٹیکنالوجی پروان چڑھی تبھی نیشنلزم کو فروغ ملا۔ان اخبارات اور رسائل نے عوامی روابط قائم کئے اور پورے یورپ میں نیشنلزم کا نظریہ پھیل گیا۔امریکی لکھاری مارٹن ایکس مین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1948ء سے قبل بلوچوں میں قومی شعور کا فقدان تھا۔جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بلوچستان ایک وسیع علاقہ تھا اور انفرااسٹرکچر کے حوالے سے کافی پسماندہ تھا۔جس کی وجہ سے بلوچوں میں روابط کا فقدان تھا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ جب 1948ء میں ریاست قلات کا وجود ختم ہوا تو اسی وقت بلوچ نیشنلزم نے جنم لیا۔
کچھ اسی طرح کی باتوں کا اظہاربزرگ بلوچ قوم پرست رہنما میر محمد علی تالپور نے اپنی ایک انگریزی تحریر میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ 18ویں صدی میں بیک وقت بلوچوں کی تین ریاستیں تھیں۔جیسا کہ موجودہ پاکستانی بلوچستان میں ریاست قلات، موجودہ جنوبی پنجاب میں سلطنت دودائی جس میں ہوت بلوچوں کی حکومت تھی اور موجودہ سندھ جو تالپور بلوچوں کے زیرحکمرانی میں تھا لیکن ان تینوں ریاستوں کے آپس میں کوئی روابط نہیں تھے اور وہ قومی اتحاد بنانے میں ناکام رہے تھے۔اگر یہ تینوں ریاستیں کوئی اتحاد بنا لیتیں تو اس خطے میں بلوچ ایک بڑی طاقت تصور ہوتے۔
غالباً قیام پاکستان کے بعدبلوچ قوم پرستی کو وفاق کے ناروا روئیے کی وجہ سے فروغ ملا۔اس حوالے سے پروفیسرمانٹسیریٹ گوبرنو لکھتی ہیں کہ اگر کسی محکوم یا اقلیتی قوم پر ظلم و جبر ہوتا ہے تو بعض اوقات اس قوم کے قومی شعور میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔مثال کے طور پر جب اسپین میں فرانکو کی حکومت آئی تو اس نے باسک قوم پر تشدد کیا اور ان کی شناخت کو مٹانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔باسک زبان پر پابندی عائد کی اور ان کے علاقوں میں ہسپانوی آباد کارآباد کئے۔جس کی وجہ سے باسک قومی شعور میں کافی اضافہ ہوا۔جس کو اسپین کبھی ختم نہیں کرپایا۔پاکستان میں بھی مختلف آمروں جیسا کہ سکندر مرزا، ٹکا خان ،ایوب خان،یحییٰ خان اوربھٹو نے بلوچستان میں طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا۔جس سے چار بلوچ شورشوں نے جنم لیا اور ان کے قومی شعور میں اضافہ ہوا لیکن پچھلی چار شورشیں اتنی موثر نہیں تھیں جتنی کہ موجودہ بلوچ شورش ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بلوچوں کے پاس میڈیا نہیں تھا اور مین اسٹریم پاکستانی میڈیا ایک کمرشل میڈیا تھا۔جسے طاقت ور عناصر باآسانی اپنے قابو میں رکھتے تھے بلکہ عوامی رائے کو اپنے حق میں کرنے کیلئے وہ مین اسٹریم میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔اس حوالے سے ملک سراج اکبر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ موجودہ صوبہ بلوچستان کے پہلے دو بڑے اخبارات جنگ اور مشرق تھے جو1972میں شائع ہوتے تھے۔وہ بلوچ رہنمائوں کو یہ اہمیت دیتے تھے کہ نواب اکبر بگٹی جیسی شخصیت کے بیانات اندرونی صفحات میں لگایا کرتے تھے لیکن1989ء میں جب انتخاب (حب) شائع ہونا شروع ہوا تو اس نے جنگ اور مشرق کے برعکس لوکل نیوز کو ترجیح دی جس سے اس اخبار کو پذیرائی ملی۔بعد میں دیگر مقامی اخبارات جیسا کہ آزادی،توار اور آساپ نے بھی یہی پالیسی اختیار کی۔ان اخبارات کی وجہ سے کسی حد تک بلوچ نیشنلزم کو فروغ ملا لیکن مقتدرہ نے ان اخبارات پر جلد ہی قابو پالیا اور ان میں سے دو اخبارات اب بند ہوچکے ہیں۔اس کے بعد منیر مینگل اور ملک سراج اکبر نے پہلی مرتبہ ڈیجیٹل میڈیا بلوچستان میں متعارف کروایا اور ویب سائٹس بنائیں لیکن ان ویب سائٹس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔موجودہ دور میں اتنی سماجی سائٹس ہیں جیسا کہ فیس بک، ٹوئٹر،یوٹیوب وغیرہ اوران پر پابندی لگانا غالباً ریاست کے بس میں نہیں ہے۔
ان سماجی سائٹس کو میڈیا اسکالرز نے نیو میڈیا کا نام دیا ہے۔برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم سبینا مہلاج لکھتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ماہرین یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا نئی میڈیا کی وجہ سے ایک گلوبل دیہات بن جائے گا اور گلوبلائزیشن کو فروغ ملے گا لیکن اس کے برعکس یہ ہوا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے دائیں اور بائیں بازو کی قوم پرستی میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کی مقبولیت میں ڈیجیٹل میڈیا کا بڑا کردار تھا اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا گلوبلائزیشن کے بجائے پھر سے قومی ریاستوں اور قوم پرستی کی طرف جا رہی ہے۔اسی میڈیا نے محکوم قوموں کی قوم پرستی کو فروغ دینے میں بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔جس کا ثبوت عرب اسپرنگ ہے۔جس کی وجہ سے محکوم عربوں نے نئی میڈیا کا استعمال کر کے امریکہ کے حمایت یافتہ آمروں کے خلاف تحریک چلائی۔نئی میڈیا اور روایتی میڈیا میں یہ فرق ہے کہ طاقت ور عناصر روایتی میڈیا پر نہ صرف قابو رکھتے تھے بلکہ اپنے نظرئیے کے فروغ کیلئے بھی استعمال کرتے تھے۔روایتی میڈیا بھی اپنے مالی مفاد کو مدنظر رکھ کر طاقت ور طبقے کا ترجمان بن جایا کرتاتھا اس کی مثال مغربی روایتی میڈیا کا کردار ہے جو اس نے موجودہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں ادا کیا ہے۔اسی روایتی میڈیا پر غلبے کی وجہ سے طاقت ور طبقوں کو ذرائع ابلاغ پر اجارہ داری حاصل تھی اور ذرائع ابلاغ محکوم طبقے کی پہنچ سے دور تھا۔لیکن ڈیجیٹل میڈیا نے طاقت ور طبقے کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔اب عام و خاص ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔حال ہی میں بلوچ لانگ مارچ دیکھنے کو ملا۔جس کی حمایت بلوچستان کے ہر چھوٹے اور بڑے علاقوں کے علاوہ کراچی، ڈیرہ غازی خان،ڈیرہ اسماعیل خان اور تونسہ شریف کے بلوچوں نے بھی کی۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان بلوچ قیادت نے ڈیجیٹل میڈیا کے ذرائع کا موثر استعمال کیا ہے اور اپنے نظرئیے کو ملک بھر کے بلوچوں تک پہنچایا ہے۔اب ڈیجیٹل میڈیا نے ان کے درمیان روابط قائم کئے ہیں جو ماضی میں نہیں تھے۔ڈیجیٹل میڈیا کے علاوہ سرکار کی غلط حکمت عملیوں نے بھی بلوچ نیشنلزم کو فروغ دیا ہے۔برمش اور حیات بلوچ جیسے واقعات ملک بھر کے بلوچوں کو یہ باور کرایا ہے کہ بلوچوں پر کافی تشدد ہورہا ہے۔انہی واقعات کی وجہ سے بلوچستان اوردیگر بلوچ علاقو ںمیں سرکار کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں اور ان میں ڈیجیٹل میڈیا کا کثرت سے اسعتمال کیا گیا ہے۔نیشنلزم کے اسکالرپیٹر ایلٹر لکھتے ہیں کہ قرون وسطیٰ میں بعض لوگ نیشنلزم کے نظرئیے کی طرف اس لئے مائل ہوئے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نیشنلزم ایک طاقت ہے۔جس کا استعمال کر کے وہ غیر جمہوری اور فرنگی حکومتوں اور ان کے ظلم و ستم سے آزادی حاصل کریں گے۔اس سے کثیرالقومی ریاستیں ٹوٹیں اور قومی ریاستوں کا قیام وجود میں آیا۔نینشلزم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حیات بلوچ ایک کمزور ہاری کا بیٹاتھا لیکن اس کے ماورائے عدالت قتل نے پورے بلوچستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔جس کی وجہ سے ساروان، جھالاوان،لسبیلہ،مکران،شال اورکوہ سلیمان میں احتجاج ہوئے۔اس واقعے سے سبق لے کر بہت سے لوگ نیشنلزم کی طرف مائل ہوں گے۔کیونکہ بلوچستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔یہاں وفاق نے اپنے جعلی نمائندے تعینات کئے ہیں جنہیں قانون سازی کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ انہیں صرف کرپشن اور اندرون بلوچستان میں من مانیاں کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ان کے ایسے ہتھکنڈوں کی وجہ سے عام شریف لوگوں کی عزت محفوظ نہیں ہے۔وہ بھی ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے نیشنلزم کی طرف مائل ہوں گے اور نیشنلزم کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھیں گے۔حالیہ لانگ مارچ اور سرکار کے روئیے جس میں انہوں نے اپنے دعوئوں کے برعکس مظاہرین پر تشدد کا راستہ اختیار کیا۔اس سے یوں لگتا ہے کہ بلوچ قوم پرستی کو ڈیجیٹل دور میں اور فروغ ملے گا۔صوبائی وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے کہ سرکار اپنے روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی۔اگر ایسے اقدامات جاری رہے تواس سے بلوچ نیشنلزم مزید تیزی سے پھیلے گا۔سرکار کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ڈیجیٹل دور میں کسی بھی تحریک باالخصوص قومی تحریک کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی سوچ قابل عمل نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں