استاد چاہت فتح علی خان

تحریر: انور ساجدی

کٹھ پتلیوں کا تماشہ چل رہا ہے۔مسخرے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔کٹھ پتلیوں کا یہ تماشہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ابتداء سے ہی اس کھیل کا آغاز کیا گیا لیکن اس مرتبہ تماشہ سنسنی خیز،پراسرار اور انوکھا ہے۔کسی ایک سین میں ایسا لگتا ہے کہ بازی ن لیگ کے ہاتھ لگنے والی ہے لیکن اگلے سین میں بلے کی واپسی ہوتی ہے اور بازی پلٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔تماشہ کا اہم کردار زرداری کا ہے وہ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ایسا بازی گر جو خود بادشاہ بننے سے کافی دور ہیں لیکن اس کے بغیر تماشہ مکمل نہیں ہوسکتا۔جو کٹھ پتلیوں کو نچا رہے ہیں ان کا پلان ان کی نیت اور کلائمیکس سین پوشیدہ ہے اور اس کا پردہ 8فروری کو ہی اٹھے گا۔
ساؤتھ انڈیا کے ایک بڑے فلم ساز ہیں سندیپ وانگا ریڈی۔انہوں نے حال ہی میں ماردھاڑ سے بھرپور ایک فلم بنائی ہے ”اینیمل“۔فلم کے آخری سین تک پتہ نہیں چلتا کہ اصل اینیمل کون ہے ہیرو رنبیر کپور یا ولن بوبی دیول۔ یہ کمال کی فلم ہے۔ریڈی نے اپنے ولن کیلئے صرف15 منٹ رکھے ہیں لیکن یہ اتنا پاورفل کردار ہے کہ اس کے15 منٹ پوری فلم پر بھاری ہیں۔ولن کی انٹری سے اختتام تک تماشائی عجیب کیفیت سے گزرتے ہیں اور سینماہال میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ولن والا سین دوبارہ چلایا جائے کیونکہ وہ صرف یہی مناظر دیکھنا چاہتے ہیں۔لارڈ بوبی جب شادی کی تقریب میں داخل ہوتے ہیں تو سر پر گلاس رکھ کر ڈانس کرتے ہیں۔ اس سین سے مجھے اپنے بزرگ دوست مرحوم غلام طاہر یاد آ گئے وہ جب موڈ میں ہوتے تھے تو سرپر گلاس رکھ کر دھیمے ردھم پر محو رقص ہو جاتے تھے۔ایک مرتبہ صحافیوں اور ہوٹل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک خصوصی ٹرین میں کراچی سے پشاور تک سفر کر رہے تھے۔راستے میں کسی جگہ غلام طاہر نے ریل کی زنجیر کھینچ دی۔ریلوے عملہ متعلقہ بوگی کی طرف دوڑا۔اس وقت غلام طاہر سجدہ ریز تھے۔عملہ نے کہا صاحب آپ نے زنجیر کیوں کھینچی؟۔اس پر انہوں نے کہا کہ خانہ خرابو شراب میں نے پی ہے اور نشے میں تم ہو۔دیکھتے نہیں کہ میں قلندر کی زیارت کر رہا ہوں۔ان سے کہا گیا کہ سیہون ابھی دور تھا آپ نے زنجیر پہلے کھینچ دی ہے۔
ایک مرتبہ میں اور غلام طاہر لاہور جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے داتا صاحب جا کر حاضری دیں گے چنانچہ ہم ائیرپورٹ سے سیدھے دربار گئے۔سستائی کے دور میں طاہر صاحب نے چندے کے ڈبے میں پانچ ہزار روپے ڈال دئیے جب ہوٹل پہنچے تو کہنے لگے جب میں پیسہ دان کر رہا تھا تو آپ نے روکا کیوں نہیں کیونکہ میں تو نشے میں تھا۔
انڈیا کے فنکار نے سر پر گلاس رکھ کر اپنے غلام طاہر کی نقل اتاری ہے۔معلوم نہیں کہ یہ آئیڈیا اس کو کس نے دیا ہے۔فلم کے اس سین میں لارڈ بوبی ایرانی فنکارہ کے گانے پر جو رقص کرتے ہیں وہ تماشائیوں کا دل موہ لیتا ہے۔پاکستانی سیاست اور موجودہ مذاق الیکشن میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی اچھی موسیقی سنی جائے۔ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھی جائیں حال ہی میں جو تین فلمیں اینیمل،ڈنکی اور سالار ریلیز ہوئی ہیں فرصت کے لمحات میں ان سے لطف اندوز ہونا صحت کے لئے اچھا ہے۔سنا ہے کہ شاہ رخ خان کی فلم ڈنکی کا پہلا حصہ کافی مزاحیہ ہے جبکہ آخری حصہ اچھا خاصا المیہ ہے۔مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی سین ہوگا۔ڈنکی کے برعکس انتخابی عمل شروع سے آخر تک المیہ رہے گا کیونکہ ابتداء میں عمران خان کو مائنس کر کے بلے کا نشان چھین لیا گیا اس کام میں مقتدرہ اور ن لیگ ایک پیج پر تھے تاہم چکوال سے ایک انٹری نے کھیل کو اچھا خاصا دلچسپ بنا دیا ہے۔سنا ہے کہ خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں کچھ دل پگھلے اور انہوں نے پی ٹی آئی کو انتخابی مرحلے سے مکمل آؤٹ کرنے کے منصوبے میں ترمیم کر دی ہے۔یہ تو معلوم نہیں کہ بلے کی واپسی کے فیصلے کے خلاف کوئی سپریم کورٹ جائے گا کہ نہیں اگر بلے کا نشان برقرار رہا تو سمجھو کہ ن لیگ کی نشستیں پنجاب میں آدھی رہ جائیں گی۔اگر تحریک انصاف حکومت نہ بھی بنا سکی تو بہت تگڑی اپوزیشن بن جائے گی یا عین ممکن ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ن لیگ مجبور ہو کر آخری سین یعنی حکومت سازی میں زرداری کے قدم پکڑلے۔الیکشن کے نام پر جو مذاق اس ملک میں پہلے ہوتے رہے ہیں یا جو اب ہو رہا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں موجود نہیں ہے۔کنٹرول اور انجینئرڈ الیکشن کے بارے میں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ پہلے آزادانہ اور شفاف الیکشن1970ء میں ہوئے تھے جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔لہٰذا اسی طرح کے نام نہاد انتخابات پر گزارہ کرنا ہی بہتر ہے۔کوئی یہ نہیں بتاتا کہ 1971 میں ملک انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ٹوٹا تھا اگر یہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قبول نہیں تو ملک کا نظام تبدیل کر دیا جائے۔جنرل پرویز مشرف کی طرح کسی باوردی شخص کو صدرمملکت بنایا جائے جو مصر،چین اور روس کی طرح یکہ و تنہا امیدوار ہو اور اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیدوار نہ ہو۔حال ہی میں مصرکے کنگلے صدر جنرل الفتح سیسی صدارتی انتخاب میں اکیلے کھڑے تھے۔الیکشن کمیشن نے اعلان کیا سیسی صاحب نے89 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔یہ جو پاکستان کئی کشتیوں میں سوار ہے یہ نظام ٹھیک ہے۔ایک طرف یہ اسلامی ریاست ہے۔دوسری طرف پارلیمانی جمہوریہ ہے جبکہ یہاں پر نہ اسلامی نظام نافذ ہے اور نہ ہی پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔سارا نظام ایک شخص کے گرد گھومتا ہے تو اتنے سارے تکلفات کی کیا ضرورت ہے۔آدھا تیتر آدھا بٹیرو الے نظام نے پاکستان کو21 ویں صدی کی تعمیر وترقی سے کوسوں دور کر دیا ہے۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن اس کی سوئی1960 کی دہائی میں اٹک گئی ہے۔
1985 سے یہ مذاق سروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔ضیاء الحق کے انتخابات میں لاہوریوں نے سلیم کھرلے نامی مخبوط الحواس شخص کو کھڑا کیا تھا اور دن رات شغل شغلے میں مصروف ہوگئے تھے۔لاہوریوں نے موجودہ انتخاب میں ایک اور سرپھرے چاہت فتح علی خان کو کھڑا کیا ہے وہ بھی قومی اسمبلی کے حلقے سے پولنگ کے دن تک ان کا دل بہلائے گا۔ایک چاہت فتح علی خان پر کیا موقوف پاکستانی ا نتخابات میں بے شمار ایسے کردار ہیں اور وہ کامیاب ہو کر کٹھ پتلی کا کردار ادا کر نے کیلئے تیار ہیں۔یہ دراصل عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے بلکہ ان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔اس سلسلے میں بلوچستان سب سے آگے ہے۔یہاں پر قرعہ اندازی کے ذریعے جو نمائندے منتخب کئے جاتے ہیں ان میں سے بعض کی حالت سلیم کھرلے اور چاہت فتح علی خان سے بھی گئی گزری ہے اور یہ حسب ضرورت اور حسب منشا ادھر سے ادھر منتقل ہو جاتے ہیں۔ان کے نزدیک اصول،وفاداری اور کارکردگی کوئی معنی نہیں رکھتے۔پاکستانی سیاست میں شاہ دولہے اور قلندر کے جتنے چوہے ایوانوں میں بھیجے جاتے ہیں یہ واحد مثال ہے۔موجودہ نظام میں یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہنے کا امکان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں