نمک کی کمزوری

انور ساجدی
اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے دو ہفتے قبل بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین نے جو دھرنا دیا تھا حکومت نے ان کے مطالبات سننے کے بجائے اس کا توڑ یہ نکالا کہ ان کے کیمپ کے برابر میں ایک اور کیمپ قائم کر دیا ہے جس کے شرکاء کا دعویٰ ہے کہ ان کے پیاروں کو دہشت گردوں نے قتل کیا ہے۔اس لئے وہ احتجاج کے طور پر دھرنا دے رہے ہیں۔اس کیمپ کا تعلق ایک تنظیم شہداء فورم سے ہے جس کے روح رواں مرحوم سراج رئیسانی کے صاحبزادے حال ہی میں مستعفی ہونے والے نگراں وزیرنوابزادہ جمال رئیسانی ہیں۔حکمران جو بھی کہیں یہ تو حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ دو متحارب فریق یہ دہائی دے رہے ہیں کہ ان کے جو پیارے مختلف اوقات میں مارے گئے ان کے قاتل آج تک پکڑے نہیں گئے۔اگر شہداء فورم کا یہ موقف ہے کہ ان کے پیاروں کو جن عناصر نے قتل کیا ہے وہ برابر کے کیمپ دھرنا دینے والی خواتین ہیں تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اسباب و عوامل کا کھوج لگائے اور ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قانون کے مطابق سزا دے۔سنا ہے کہ اسلام آباد کے دونوں کیمپ برابر برابر لگے ہیں اور ان کے درمیان ایک بیرئیر(بارڈر)لگا دیا گیا ہے۔دونوں کیمپوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ اس کے شرکاء کا تعلق بلوچستان سے ہے اور ان کی اکثریت بلوچ قوم سے تعلق رکھتی ہے۔کافی سال پہلے جنگ و جدل پر مبنی انڈیا کی ایک فلم آئی تھی جس میں بارڈر پرموجود ایک فوجی کہتا ہے کہ یہاں آ کر پتہ چلا کہ بارڈر کے دونوں طرف پنجابی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔نقصان تو دونوں طرف سے ہوا ہے لیکن جو سرکاری لوگ مارے گئے ہیں ان کا الزام مبہم ہے کیونکہ یہ پتہ نہیں چلا کہ تخریب کاری کرنے والے دہشت گرد کون تھے جبکہ دوسرے فریق کا دعویٰ ہے کہ ان کے پیاروں کی گمشدگی یا مارے جانے کے عمل میں ریاست اور اس کے پرائیویٹ کارندے شامل ہیں۔حکومت نے آج تک کسی دہشت گرد کو پیش کر کے یہ ثابت نہیں کیا کہ ان کاتعلق کس گروہ سے ہے اور انہوں نے کن تنظیموں اور شخصیات کے کہنے پر ایسا کیا ہے۔فریق دوئم کا کیمپ قائم کر کے حکومت نے یہ سوچا ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے یا لڑاؤ اور اپنا کام نکالو کے فارمولے پر عمل کیا جائے تو بلوچ متاثرین کا دھرنا بے اثر ہو جائے گا اور وہ کیپٹل کو چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بلوچ متاثرین جب اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے تو حکومت نے انہیں ریاست دشمن قرار دے کر پہلے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں اس کے بعد انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔اسی دوران لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے دھرنے پر انتہائی غم و غصے کا اظہار اور دارالحکومت کے ان لوگوں کو ہدف تنقید بنایا جو متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے۔انہوں نے نام لئے بغیر بی بی سی سے وابستہ محمد حنیف پر بھی شدید تنقید کی جنہوں نے مسنگ پرسنز کے بارے میں پنجابی زبان میں ایک کالم لکھا اور اسے پڑھا۔محمد حنیف اپنی شہرہ آفاق کتاب کے بعد منظر عام پر آئے تھے جبکہ کم لوگوں کو علم ہے کہ انہوں نے نامور صحافی وسعت اللہ خان کے ساتھ مل کر جبری گمشدگیوں کے بارے میں بہت تحقیق کی اور کام کیا اور ایک طرح سے یہ مسئلہ اٹھایا بھی۔محمد حنیف پنجابی زبان کے بڑے دانشور اور ادیب ہیں لیکن وہ ایک دردمند انسان اور جرات مند صحافی ہیں۔عمران خان کے دور میں جب آزادی صحافت پر قدغن لگائی گئی تو مین اسٹریم کے گنے چنے صحافی ایسے تھے جنہوں نے مزاحمت کی۔ان لوگوں میں حامد میر، محمد حنیف، وسعت اللہ خان،مطیع اللہ جان اور اسد طور شامل ہیں۔باقی سارے کے سارے دربار اعلیٰ سے وابستہ تھے اور بدقسمتی سے صحافیوں کا وہی گروہ آج کے دربار سے بھی اسی طرح وابستہ ہے۔یہ با ت تو تاریخ سے ثابت ہے کہ کلمہ حق کہنے والے اور حق کا ساتھ دینے والے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر۔پھر بھی غنیمت ہے کہ حق گو صحافی بہت تھوڑے ہیں لیکن انہوں نے اپنے شعبہ کی آبرو رکھی ہے۔حامد میر تو خیر بڑا نام ہے لیکن جو دو صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور چاہتے تو دربار میں کافی پذیرائی اور نازونعم کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے دوسرا راستہ چنا۔ یقینی طور پر جس طرح حکومت نے محمد حنیف پر تنقید کی اسی طرح وہ مطیع اللہ جان اور اسد طور سے بھی ناخوش ہوگی لیکن اس کی مجبوری ہے کہ گزشتہ حکومت کی حماقتوں کے بعد وہ ان پر یوں آسانی سے ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے ورنہ محمد حنیف نے خرگوش اور پنجابی والا جو کالم لکھا تھا اس کے بعد ان کے لواحقین بھی احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوتے۔ خرگوش اور پنجابی کی مثال وزیراعظم نے لاہور کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے پیش کی تھی۔
وزیراعظم انوارالحق کے بارے میں جوبھی کہا جائے وہ ذہنی طور پر واضح ہیں اور بلوچوں سے شدید نفرت اور ناپسندیدگی کو کبھی نہیں چھپاتے جبکہ ان کے روئیے سے مظلوم پشتونوں کے لئے بھی کوئی ہمدردی دکھائی نہیں دیتی۔ ویسے حیرانی کی بات ہے کہ جب سے کاکڑ صاحب شعورمیں آئے ہیں ان کا تعلق انہی دو قوموں سے رہا ہے جبکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد ان کا اٹھنا بیٹھنا بلوچوں کے ساتھ زیادہ رہا ہے جیسے کہ انہوں نے سہیل وڑائچ کو دئیے گئے انٹرویو میں فرمایا کہ ان کے دادا نور الحق صاحب اور میر غوث بخش بزنجو علی گڑھ یونیورسٹی میں کلاس فیلو رہے ہیں علی گڑھ میں ان کا حلقہ احباب بلوچوں پر مشتمل تھا۔ان کے دوستوں میں سردار خان گشکوری،ڈاکٹر عالم راقب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔علی گڑھ سے واپسی پر وہ ریاست قلات گئے جہاں خان آف قلات میر احمد یار خان سے ان کے قریبی تعلقات قائم ہوئے حتیٰ کہ خان صاحب نے انہیں اپنا دینی بھائی قرار دیا یعنی ان کی پوری زندگی بلوچوں کے ساتھ گزری جو دوسری نسل آئی تو اس کی سوشل تعلق داری بھی بلوچوں کے ساتھ تھی۔خود انوارالحق جب بلوچستان میں تھے یا لندن میں ان کا حلقہ احباب بلوچوں پر مشتمل تھا۔مشاورت کے ایام میں ان کے دوستوں میں سرفراز بگٹی اور خالد لانگو قابل ذکر ہیں وہ تصویر تو سبھی نے دیکھی ہوگی جب کاکڑ صاحب خالد لانگو کے سگار کو سلگا رہے ہیں۔یہ میر خالد لانگو کا جو جادوئی سگار ہے یہ کمال کا ہے۔اس کا تعلق ہوانا سے ہے۔یہ اپنے خاص مہمانوں کو پیش کرتے رہتے ہیں اور پھر اس منظر کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔اس جادوئی سگار کے اچھے خاصے بڑے لوگ دلدادہ ہیں۔
انوارالحق نے میرخالد کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لیں لیکن چیف جسٹس فائز عیسیٰ آڑے آئے ورنہ وہ اپنے دیگر دوستوں سرفراز بگٹی اور میر شفیق مینگل کی طرح الیکشن میں جا کر دھوم مچاتے۔جہاں تک سرفراز بگٹی کا تعلق ہے تو انہیں پکا یقین ہے کہ بلوچستان کے آئندہ وزیراعلیٰ وہی ہوں گے۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ بلوچوں کا نمک اتنا کمزور تھا کہ کاکڑ صاحب انکے قومی وجود کے خلاف ہوگئے یا اگر بلوچوں نے انوارالحق کاکڑ کا نمک کھایا ہے تو انہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا ہوگا۔اس لئے ان کے اس حد تک مخالف ہوگئے۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا البتہ ریاست سے وفاداری کے صلہ میں آنے والے وقتوں میں کاکڑ صاحب کو مزید فضیلت بخشی جا سکتی ہے اور انہیں صدارت یا چیئرمین سینیٹ کا عہدہ دیا جا سکتا ہے۔
ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ نوابزادہ جمال رئیسانی کے خلاف فیصلہ آیا ہے کہ تھائی لینڈ کی شہریت ہونے کی وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اگر اوپر کی سطح پر شنوائی نہ ہوسکی تو وہ اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھنے کے لئے طویل عرصہ تک دستیاب ہوں گے۔