”بوائے جارج“

تحریر: انور ساجدی

آصف علی زرداری سوئی تو گئے لیکن آگے چالیس کلومیٹر دور ان کا ہیلی کاپٹر جانے سے ڈر گیا حالانکہ کافی بڑا جلسہ آراستہ تھا اور پہلی مرتبہ ڈیرہ بگٹی میں پیپلز پارٹی کے پرچم لہرا رہے تھے۔دراصل زرداری کو الیکٹیبلز کا جو کوٹہ ملا ہے وہ کافی بھاری بھرکم ہے اور اس کا بوجھ اٹھانا اتنا آسان نہیں ہے۔معلوم نہیں کہ اس بھاری کوٹہ کا انہیں کیا بدلہ ملے گا یا انہیں اس وقت طفل تسلیوں سے بہلایا جا رہاہے۔اب جبکہ الیکشن کے ڈرامے میں ایک ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔معاملات اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کسی کو یقین نہیں کہ8فروری کو کچھ ہوگا اس کی وجہ بعض پراسرار معاملات ہیں اور بڑے حکمرانوں کی ایسی سرگرمیاں ہیں جو کہ عارضی نہیں مستقل عنوان رکھتی ہیں۔مثال کے طور پر بدامنی میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے کئی مقامات پر امیدواروں پر حملے ہوئے ہیں جبکہ مولانا صاحب کا مشن کابل ناکام ہوگیا ہے ان کی کابل موجودگی کے دوران ٹی ٹی پی نے دو خونریز حملے کئے جن میں کافی جانیں ضائع ہوئیں۔کابل جہاں طالبان کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی وہاں پر نام نہاد سول سوسائٹی کے نام پر مولانا کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔نہ صرف یہ بلکہ ایک پشتو ٹی وی شو کے دوران انہیں کافی باتیں سنائی گئیں اور یہ تک کہا گیا کہ افغان مہاجرین کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں ہو رہا ہے اس میں مولانا بھی برابر کے شریک ہیں۔ادھر کم بخت بڑی مونچھوں والے علی امین گنڈا پور کے کاغذات بھی منظور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مولانا کافی پریشان ہیں۔اگر غیرمرئی قوتوں نے مدد نہ کی تو2018 کی طرح مولانا اپنی آبائی نشست بھی ہارجائیں گے۔اس لئے وہ عام انتخابات کے انعقاد کے مخالف ہیں حالانکہ اس با ت کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئندہ چل کر حالات سدھر جائیں گے کیونکہ افغان حکومت اتنی جلد صلح کے موڈ میں نہیں ہے اور نہ ہی ٹی ٹی پی آسانی کے ساتھ بات چیت پر مائل ہو رہی ہے۔ان عوامل کی وجہ سے پاکستان میں فوری طور پر امن قائم ہونا ممکن نہیں ہے۔اوپر سے کم بخت داعش بھی گاہے بگاہے سر اٹھاتی رہتی ہے۔ایسے موقع پر جب الیکشن قریب آئے ہیں تو طرح طرح کی کئی افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں۔مثال کے طور پر یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ بنگلہ دیش کے ماڈل پر عمل کئے بغیر پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنا ممکن نہیں ہے۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یک طرفہ انتخابات میں پانچویں بار وزیراعظم بن گئی ہیں یعنی ان کے اقتدار کو25برس پورے ہو جائیں گے۔انہوں نے بنگلہ دیش کو فسطائی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے اور جماعت اسلامی کے ان تمام رہنماؤں کو تختہ دار پر لٹکا دیا ہے جو1971ء کے جنگی جرائم میں شامل تھے یا انہوں نے الشمس اور البدر کے کارکن کی حیثیت سے جنگ میں حصہ لیا تھا۔حسینہ واجد ابھی تک اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے قتل کو نہیں بھولی ہیں اور وہ ہر وقت مخالفین سے بدلہ لینے کا سوچتی رہتی ہیں حالانکہ ان کے دور میں بنگلہ دیش کی معیشت کافی بہتر ہوئی ہے اور عوام میں غربت کم ہوئی ہے۔پاکستان میں ایسے نظام کی خواہاں مستقبل کی ممکنہ حکمران جماعت ن لیگ ہے۔ان کے زعماء کہہ رہے ہیں کہ پاکستان جس معاشی تباہی سے دوچار ہے اس کا ازالہ نوازشریف کو10سال دئیے بغیر ممکن نہیں ہے۔یہ مانگ کرتے ہوئے ن لیگی زعما بس یہی چاہتے ہیں کہ نوازشریف کی کامیابی کا پیشگی اعلان کیا جائے کیونکہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ تمام انتخابات میں اکثریت حاصل کرسکے۔رہی پیپلز پارٹی کی بات تو اس کی عوامی قوت اتنی اچھی نہیں کہ کہ وہ ن لیگ اور بچی کھچی تحریک انصاف کو شکست دے کر حکومت بنا سکے۔البتہ وہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ضرور ہے۔معاملات پراسرار اس لئے لگ رہے ہیں کہ نگراں حکومت کو ریکوڈک کو ٹھکانے لگانے کی ڈیل میں کامیابی ہوئی ہے۔اگر کوئی ناگہانی رکاوٹ نہ آئی تو یہ ڈیل آئندہ چند دنوں میں روبہ عمل آئے گی۔اسی طرح پی آئی اے کو فروخت کرنے،اسٹیل مل کی زمین بیچنے سمیت کئی اہم اقدامات کی طرف پیش رفت جاری ہے جبکہ سرمایہ کاری کا نیا ادارہ بہت ہی سرگرم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر لئے انویسٹر پاکستان آنے کے منتظر ہیں۔اسی طرح لاکھوں ایکڑ پر جدید زرعی منصوبے بھی شروع ہونے والے ہیں۔اگر8 فروری کو انتخابات ہوئے تو یہ منصوبے کیسے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔اگر آنے والے حکمرانوں سے پہلے سے طے کیا گیا ہے کہ وہ ان منصوبوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے بلکہ ان پر من وعن عمل کریں گے تو یہ الگ بات ہے۔کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنوری کے آخر میں صورتحال واضح ہو جائے گی تب تک عام انتخابات نشانہ پر ہونگے اور بندوق کی شست کا رخ عام انتخابات کی جانب ہوگا۔
اسلام آباد میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں متاثرین کا دھرنا دو ہفتہ سے جاری ہے۔جوابی دھرنا بھی لگا ہوا ہے لیکن جوابی دھرنا ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہا ہے کیونکہ عوامی حمایت پہلے دھرنے کے ساتھ ہے۔روزانہ ہزاروں افراد پر مشتمل ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔یہ عوامی ابھار کوئی عام واقعہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ہمارے طاقت ور سردار صاحبان بھی خوف محسوس کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے ایک پروگرام میں نواب خیر بخش مری کے منجھلے صاحبزادہ نوابزادہ گزین مری نے کہا کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ لفظ نوابزادہ ہٹا دیا ہے۔سوشل میڈیا ہی کے ایک پروگرام میں نوابزادہ اسرار اللہ خان زہری نے کہا کہ ماہ رنگ عوامی لیڈر ہیں اور ان سمیت نامور لیڈر بھی ان کے پائے خاک کے برابر نہیں ہیں۔بلوچستان کی یہ عوامی ابھار سردار صاحبان کی ذات کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان کے طرز عمل طریقہ سیاست ہاں میں ہاں ملانے عوامی مفاد کے خلاف جانے اور چاپلوسانہ پالیسی کے خلاف ہے۔اس وقت عوامی شعور انتہائی عروج پر ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے سماجی رابطے مضبوط ہوئے ہیں۔اس لئے ہر عمل آئینہ کی طرح شفاف دکھائی دیتا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے بی ایس او اینٹی سردار نے1967 میں جو نظریہ وضع کیا تھا وہ نصف صدی بعد کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے اور عوام پر راسخ ہو چکا ہے کہ سرداروں کا سیاسی کردار حکومتوں کے سہولت کار کے طور پر ختم ہوگیا ہے۔سرداری نظام کے خاتمہ کا باقاعدہ اعلان سردار عطاء اللہ خان مینگل نے1972 میں کیا تھا جبکہ1976 میں بھٹو نے قانون سازی کے ذریعے اس کا باقاعدہ خاتمہ کیا تھا۔اس طرح سردار صاحبان اب نام کے سردار ہیں انہیں انگریزوں کے دور میں وفاداری کا جو وظیفہ ملتا تھا وہ بھی بند ہے لہٰذا لفظ سردار اب سماجی حیثیت رکھتا ہے۔سیاست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک عام بلوچ لڑکی ماہ رنگ کو اس وقت تمام رہنماؤں پر فضیلت حاصل ہے۔اس سے لگتا ہے کہ بلوچستان کے عوام نے اپنے اہداف طے کر لئے ہیں اور وہ موجودہ سیاست کو رد کرچکے ہیں۔باقی جو پارلیمانی رہنما ہیں انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں جائیں اور وزیر گزیر بن کر اپنے آب ودانہ اور نان و نفقہ کا بندوبست کرسکیں یہ جو سیاست کے ”بوائے جارج“ ہیں انہیں عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں