پرامن انتفادہ
تحریر: انور ساجدی
پاکستان کا اس وقت جو نظام ہے وہ انتہائی گلا سڑا، ناکارہ، فرسودہ ازکار رفتہ ہے اگر یہ نظام جاری رہا تو ریاست مزید تباہی سے دو چار ہو جائے گی اور ایک دن دنیا اسے ناکام قرار دے دے گی۔لہٰذا اس نظام کو چلانے والی نااہل بدقماش، کرپٹ،بے ایمان اور قرون وسطیٰ کی نمائندہ اشرافیہ کے خلاف بغاوت ناگزیر ہے۔اگرچہ رولنگ کلک اتنی مضبوط ہے کہ اس کے خلاف انقلابی بغاوت ممکن نہیں ہے لیکن پرامن اور طویل انتفادہ کے ذریعے اس کو اکھاڑ پھینکنا ممکن ہے۔پاکستان کی سیاسی قوتوں کو اس وقت چلنے والی بلوچ انتفادہ سے سبق سیکھنا چاہیے جو ماہ رنگ بلوچ،سمی دین اور دیگر لڑکیوں کی قیادت میں نہ صرف بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ہے بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک دھرنا بھی ہو رہا ہے۔بلوچ انتفادہ کوئی معمولی تحریک نہیں ہے اس کے مابعد اثرات کچھ عرصہ بعد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔اگر اسے جبر اور طاقت کے ذریعے دبانے،کچلنے اور ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں تو پرامن انتفادہ ایک اور مگر بھیانک شکل اختیار کرلے گی۔اگر ریاست نے اپنا طریقہ کار اور طرزعمل تبدیل نہیں کیا تو ہزاروں خواتین کرُد پیش مرگہ کی طرح پہاڑوں کا رخ کریں گی۔لہٰذا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرحلہ نہ آنے دے بلکہ مذاکرات کے ذریعے مسنگ پرسنز کی فہرست تیار کرے جو لوگ حیات ہیں اور عقوبت خانوں میں زندہ درگور ہیں انہیں رہا کیا جائے یا عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے جو لوگ تاریک راہوں میں مار دئیے گئے ہیں تو ان کے لواحقین کو حقیقت سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ یہ گارنٹی بھی ضروری ہے کہ ریاستی ادارے آئندہ کسی کو غائب نہیں کریں گے بلکہ مطلوبہ افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے سامنے پیش کریں گے۔ان اقدامات کے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔یہ جو مسنگ پرسنز کا معاملہ ہے یہ ایک عارضی معاملہ ہے کیونکہ بلوچستان کا مسئلہ کچھ اور ہے اور اسے ایڈریس کرنا کسی بھی حکومت کے بس کا کام نہیں ہے۔چنانچہ یہ مسئلہ اور اس کے حل کے لئے جدوجہد کرنے والے عناصر طویل جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حال ہی میں کسی فور م پر تجویز پیش کی ہے کہ مسئلہ کے حل کےلئے آئرش ماڈل کو اپنایا جائے۔چونکہ اس وقت جذباتی فضا ہے۔انتخابات سرپر ہیں اور ڈاکٹر صاحب بلوچستان میں ریاست کے ایک آزمودہ اور بااعتبار ستون ہیں اس لئے اس ماحول میں ان کی بات کو ایک فریق یعنی بلوچ سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ آئرش ماڈل کیا ہے؟ برطانیہ اور آئرلینڈ کے علیحدگی پسند لیڈروں نے سمجھوتہ کیا کہ شمالی آئرلینڈ ہمیشہ کے لئے انگستان کا غلام یا اٹوٹ انگ رہے گا جبکہ باقی آئرلینڈ کو آزادی دی جائے گی۔اس فارمولہ کے تحت مسئلہ آدھا حل ہوگیا جبکہ شمالی آئرلینڈ میں کشیدگی اور جنگ جاری ہے۔جس میں کافی عرصہ سے ٹھہراﺅ آ گیا ہے معلوم نہیں کہ ڈاکٹر مالک جیسے دانشور تاریخ کے قاری اور وفاق کے علم بردار کے ذہن میں مسئلہ بلوچستان کے بارے میں کیا کیا خاکے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی تجاویز کو بلوچستان کے عوام اور راولپنڈی کے حکمرانوں کے سامنے پیش کر دیں اور یہ بھی اعلان کریں کہ موجودہ حالات میں ڈیرہ جات اور جیکب آباد کا بلوچستان کو ملنا مشکل ہے۔وہ شمالی آئرلینڈ کی طرح وفاق کا حصہ ہوں گے جبکہ باقی بلوچستان کی پوزیشن کو طے کیا جائے۔ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیرہ جات اورجیکب آباد میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے وہاں کے عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے خودمختار ہوں گے۔ہمارے حکمران اس زعم میں ہیں کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر بلوچستان کا مسئلہ حل کر دیں گے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا اگر ڈاکٹر مالک صاحب اپنے دوستوں اور ریاست کے تمام ستونوں کو قائل کریں اور پہلے ”اوسلو ٹائپ“ پس پردہ مذاکرات شروع کئے جائیں اگر کوئی بات بن گئی تو اس کو افشا کیا جائے ورنہ دونوں فریق اپنی اپنی پوزیشن پر قائم رہیں گے اور حالات جوں کے توں رہیں گے۔بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں کوئی ایسی جماعت اور ایسی قدآور شخصیات نہیں جو عوام کی رہنمائی کر کے انہیں بنیادی تبدیلی لانے پر مائل اور قائل کریں۔تمام سیاسی جماعتیں غیر منظم غیر موثر عوام سے دور اور ریاست میں سدھار لانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ”رولنگ کلک“ نے طویل عرصہ سے سیاسی عمل کو روک رکھا ہے۔وہ مخصوص ڈھنگ سے ریاست کو چلانے کے ایک غیر حقیقی نظریہ پر قائم ہیں جبکہ کسی بھی جماعت میں یہ جرات نہیں کہ وہ اس سسٹم کو چیلنج کر سکے۔پی ٹی آئی نے معزولی کے بعد ایک کوشش کی تھی لیکن اس کے قائد کوئی غیرمعمولی شخصیت نہیں وہ بھی حالات کو جوں کے توں رکھنے کے حامی ہیں۔پہلے حکومت میں رہتے ہوئے انہوں نے سنگین غلطیاں کیں پھر معزولی کے بعد اس نے عوامی تحریک چلانے کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے اس کی بیخ کنی کی گئی۔اسی طرح ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی صحیح جماعتیں نہیں بلکہ وہ راولپنڈی کی بی ٹیم ہیں۔ان دونوں جماعتوں کے درمیان عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کا مقابلہ نہیں بلکہ مقابلہ یہ ہے کہ اعلیٰ حکمران دست شفقت کس پر رکھیں گے۔دونوں جماعتوں کے قائدین روز التجا کرتے ہیں کہ اب کی بار اسے موقع دیا جائے یعنی مقابلہ نوکری اور چاکری کا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں کرسی مل بھی جائے اختیار اور اقتدار نہیں ملے گا اس کے باوجود وہ یہ نوکری کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
ن لیگ اور تحریک انصاف تو کبھی بھی عوامی جماعتیں نہیں رہیں لیکن بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی بھی اپنا بنیادی کردار کھو بیٹھی یعنی اس کا جو عوام سے مضبوط رشتہ تھا وہ ختم ہوگیا۔اشرافیہ نے ٹریڈ یونین اور طلباءکی قوت ختم کر کے پیپلز پارٹی کو زمین بوس کر دیا چنانچہ ان جماعتوں سے کوئی امید باندھنا بے کاراور فضول آسرا ہے۔اگر دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جن کے ڈائریکٹر ان کے خاندان کے لوگ ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان جماعتوں کے قائدین اور ریاست کے سیٹھوں عقیل کریم ڈھیڈی،عارف حبیب،ظفر موتی والا،میاں منشا وغیرہ میںکوئی فرق نہیں ہے۔چنانچہ اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ کوئی نئی ملک گیر تنظیم اور نئی قیادت سامنے آئے اور وہ شہر شہر نگر نگر گاﺅں گاﺅں جا کر عوام میں آگاہی مہم چلائے اور بتائے کہ اگر یہ نظام جاری رہا تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو پنجاب اس کا علم بردار ہے اوریہ آگاہی مہم خاص طور پر پنجاب میں چلانے کی ضرورت ہے وہاں پر ایک عام آدمی پارٹی کی ضرورت ہے جو الیکشن میں حصہ لینے کے بجائے عوامی شعور کو جگانے کا کام کرے جو بھی یہ کام کرے اسے بلوچ لیڈر ماہ رنگ جیسی جرات سمی دین کی ثابت قدمی درکار ہے جبکہ بیبو بلوچ اور بانک فریدہ بلوچ کی ذہانت اور معاملہ فہمی چاہیے۔پاکستان میں اس وقت عام آدمی کو انسان کے بجائے کیڑا مکوڑا سمجھا جا رہا ہے۔اس سے دن رات مشقت لے کر ہر سال جعلی اشرافیہ 5 کھرب روپے کے خرچہ سے اپنا لگژری لائف اسٹائل چلا رہا ہے جبکہ ملکی وسائل کا بڑا حصہ غیر پیداواری اخراجات پر ضائع کیا جا رہا ہے۔اس کا مقصد عوام کو حیوان اور جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ کون آگے آئے گا لیکن لوگ کسی معجزے کا انتظار کریں تاکہ کوئی ایسا مسیحا آ جائے جو سیاست دانوں اور دیگر اشرافیہ کی طرح کرپٹ نہ ہو اوروہ عوامی طاقت کے ذریعے اشرافیہ اور اس کے قائم کردہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دے۔بلوچستان اور پختونخواہ اپنے اہداف طے کرچکے ہیں جبکہ سندھ درمیان میں معلق ہے اور کسی کو سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ کیا کرے تو زندہ رہے۔سندھ کے عوام کی اس وقت بدترین حالت ہے۔ وڈیروں،سرداروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں اورلسانی وار لارڈز نے سندھ کے عوا م کو دوبارہ موہنجودڑو کے عہد میں پہنچا دیا ہے۔سندھ کے بیشتر وسائل ریاست کو چلانے پر خرچ ہو رہے ہیں جبکہ بچے کچھے وسائل سے یہاں کا سیاسی مافیا عیش اڑا رہا ہے۔ لندن، نیویارک ، پیرس ،اسپین اور یو اے ای میں ان کے شاندار محلات سندھ کے مجبور اور مہقور عوام کے ڈھانچوں پر کھڑے ہیں۔اس غیر انسانی نظام کو بدلنے کے لئے سندھ کے عوام کو تاریخی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو اس نے موجودہ سیاسی قیادت ان کی گماشتہ جماعتوں،بے وقت ڈائیلاگ اور جعلی دعوﺅں کو مسترد کر دیا ہے۔مقام افسوس ہے کہ پارلیمانی جماعتیں لوگوں کو سولر پینل،پانی کے بور اور چھوٹی ترقیاتی اسکیموں کے بدلے ووٹ لینے کی کوشش کر رہی ہیں جو بدترین کرپشن ہے کیونکہ ان جماعتوں کے پاس کوئی نظریہ کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ان کا واحد پروگروام اپنے اپنے گروپ کے گزربسر کا انتظام کرنا ہے۔لہٰذا بلوچستان کے باشعور عوام نے انہیں اجتماعی طور پر مسترد کر دیا ہے اور وہ ایک پرامن انتفادہ کے راستے پر چل پڑے ہیں۔خدا کر ے کہ یہ انتفادہ پرامن ہو اور نوجوانوں کے غلیلوں کا نشانہ پارلیمانی گماشتہ نہ ہوں۔جس انتفادہ کا آغاز ہوا ہے اس میں غلیلوں اور پتھروں کا عمل دخل بھی نہیں ہونا چاہیے۔