پاک ایران تنازعہ اورسرمچار
تحریر: انور ساجدی
پاکستان اور ایران کے درمیان جو کشیدگی ہے اس پر فوری طور پر تبصرہ کرنا حماقت سے کم نہیں البتہ اس کشیدگی کے مابعد اثرات اور دیرپا نتائج کو ضرور زیربحث لایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر اس ریجن میں اچانک ایسا تنازعہ شروع کر دیاگیا ہے جس کی دونوں ممالک کو ضرورت نہ تھی دوسری بات یہ کہ مشرق وسطیٰ کے تنارعہ کو خلیج فارس بحیرہ عرب یا دراصل بحر بلوچ تک توسیع دی گئی ہے۔آیا اس کے پیچھے ایرانی عزائم پوشیدہ ہیں یا امریکی سازش کارفرما ہے کیونکہ اس سے ایران اپنے ہمسایہ میں الجھ جائے گا اور پاکستان بھی کسی تکلف کے بغیر ایک بار پھر امریکی مفادات کے کیمپ میں چلا جائے گا بلکہ چلا گیا ہے۔
جنگ کا فوری ہدف بارڈر کے دونوں طرف رہنے والے بلوچ ہیں وہ بھی خواتین اوربچے۔اگر دونوں ممالک کی کارروائی بلوچستان کے دونوں حصوں تک محدود رہی تو بلوچوں کی بڑی آبادی اس ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے گی تنازعہ یا حالت جنگ کا ایک اور ہدف پاکستانی الیکشن ہوسکتے ہیں جو بظاہر 8فروری کو ہونا طے ہیں۔ ویسے یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے ایران کے اندر جا کر فضائی حملے کئے ہیں۔دفترخارجہ کے بیانات کے مطابق ایران میں موجود بلوچ دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ جو تصاویر جاری ہوئی ہیں وہ کمسن بلوچ بچیوں کی ہیں جو کارروائی کی زد میں آئی ہیں۔اسی طرح ایران نے تین روز قبل مشرقی بلوچستان کے علاقہ سبزکوہ میں جو کارروائی کی تھی اس میں بھی دو بلوچ بچیاں جاں بحق ہوئی تھیں۔دیکھنا یہ ہے کہ پاک ایران کشیدگی کو چین درمیان میں پڑ کر کس حد تک روک سکتا ہے کیونکہ چین نے ایران کے حملوں کے بعد ایک بیان جاری کیا تھا جس میں دونوں ممالک سے صبروتحمل سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا تھا جبکہ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ یا باقاعدہ جنگ امریکہ کے وسیع ترین مفاد میں ہے کیونکہ امریکہ غزہ کی صورتحال حماس، حزب اللہ اور حوثی فورسز کی وجہ سے ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔کئی سال پہلے اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر امریکہ نہ روکتا تو وہ ایران پر کسی توقف کے بغیر ایٹمی حملہ کر دیتا۔اسی طرح ایران نے بھی ابھی تک اپنے دور مار میزائل اسرائیل پر آزمائے نہیں ہیں۔ایران صرف اپنی پراکسی تنظیموں کو استعمال کر کے اسرائیل کو تنگ کررہا ہے۔اس نے عملی طور پر اپنے آپ کو جنگ سے دور رکھا ہوا ہے۔
بادی النظر میں اگر پاکستان اور ایران کے درمیان فوری صلح نہ ہوئی تو اس خطے کا امن بری طرح متاثر ہوگا۔اگر امریکہ نے اتحادیوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کارروائی کی تو وہ آبنائے ہرمز کو بند کر کے ایشیا کے کئی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کر سکتا ہے جس کے بعد امریکہ کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ ایران کے خلاف بڑی کارروائی کرے۔
بین الاقوامی مضمرات سے قطع نظر جنگ کے فوری اثرات دونوں ممالک باالخصوص بلوچستان پر زیادہ ہوں گے۔سرحدی تجارت مکمل طورپر بند ہو جائے گی۔چور راستوں سے تیل کی آمد رک جائے گی۔سفری سہولتیں بھی کم ہوں گی جبکہ بارڈر کے دونوں طرف کی آبادی مصائب اور مسائل کے شکنجے میں آ جائے گی۔نام نہاد سی پیک کو مزید نقصان پہنچے گا جبکہ سرحد کے اس پار گوادر پورٹ اور اس پار چاہ بہار کی بندرگاہ بندہوسکتی ہیں۔تاریخی طوپر کراچی کے علاقہ”بنگلو“ یا کنڈ سے لے کر بندر عباس تک کا سمندر بلوچ علاقہ ہے۔خان نصیر خان کے ابتدائی دور میں کم از کم ڈیڑھ ہزار کلو میٹر طویل ساحل تھا لیکن 19 ویں صدی میں ایران نے فارس کے بجائے اپنا نام بدل کر اور امریکی آشیرباد سے شاہ ایران نے اقوام متحدہ سے اس سمندر کا نام خلیج فارس رکھ دیا۔اس دوران خلیج کے عرب ممالک نے بحیرہ عرب کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہندومت کے مطابق یہ ہند ساگر کا حصہ ہے۔ایران نے دوسری جنگ عظیم یا تہران کانفرنس کے بعد بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ڈیموگرافی تبدیلیاں شروع کر دیں پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریز نے مغربی بلوچستان کو بطور تحفہ ایرانی سلطنت کا حصہ بنایا تھا۔1973 کی جنگ بلوچستان کے بعد ایران نے صوبہ بلوچستان کے ساتھ لفظ سیستان کا اضافہ کر دیا۔اس کے ساتھ کرمان کو کاٹ کر بڑے پیمانے پر قاچار(گجر) آبادی کو بسانا شروع کر دیا کئی بلوچ علاقے جدا کر کے انہیں دیگر صوبوں میں ضم کر دیا۔زاہدان اور چاہ بہار کے اہم شہروں میں سرکاری ملازمین کی صورت میں اور سرمایہ کاری کے نام پر بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی۔شاہ1973 کی تحریک سے اتنے خائف تھے کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر دباؤ ڈالا کہ وہ واضح اعلان کریں کہ بلوچ تحریک کو کچل دیا جائے گا۔چنانچہ1972 میں جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت قائم کی تھی میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اللہ خان مینگل وزیراعلیٰ تھے۔بھٹو نے کوئٹہ میونسپلٹی کے گراؤنڈ میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جس میں شاہ ایران کی بہن کو بطور مہمان خاص بلایا۔جلسہ کے اسٹیج پر ایک طرف میر بزنجو اور دوسری جانب شہزادی اشرف پہلو بیٹھی تھیں۔بھٹو نے تقریر کے دوران جذباتی انداز میں شرکاء سے پوچھا کہ کوئی ایک شخص کھڑے ہو کر کہے کہ وہ ایران کے خلاف ہے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے لیکن شرکاء نے ان کی لاج رکھی۔البتہ میر امان اللہ گچکی، رحیم ظفر اور ظاہر بلوچ شرکاء کو مسلسل اشارے دے رہے تھے کہ وہ خاموش رہیں۔دراصل شاہ ایران کو خطرہ تھا کہ اگر مشرقی بلوچستان الگ ملک بن گیا تو مغربی بلوچستان بھی اس کا حصہ بنے گا۔بھٹو نے اس زمانے میں گریٹر بلوچستان کا شوشہ چھوڑا تھا اورکہا تھا کہ نواب خیر بخش مری جنرل شیروف میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل عظیم تر بلوچستان قائم کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ میر بزنجو اور عطاء اللہ مینگل نے کبھی ایسی کوشش نہیں کی تھی۔بلوچستان کی بغاوت کو کچلنے کے لئے شاہ ایران نے پاکستان کو اسلحہ اور ہیلی کاپٹر بھی فراہم کئے تھے جن کو1973 میں چمالنگ آپریشن میں استعمال کیا گیا تھا۔وہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ شاہ ایران نے بھٹو سے کہا تھا کہ وہ بلوچستان کے گورنر میر غوث بخش بزنجو کو ایران بھیجے جہاں وہ شاہ ایران کو یقین دہانی کروائے کہ وہ ایران کو توڑنے کی کوشش نہیں کریں گے۔میر صاحب تہران گئے بھی تھے شاہ سے ان کی ملاقات بھی ہوئی تھی جس کے بعد میر صاحب کے ننھیالی عزیز میر کریم بخش سعیدی نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا وہ ایرانی پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے تمام فریقین کی یقین دہانیوں کے باوجود بھٹو نے 15 فروری1973 کو سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر دی جبکہ اس کا راستہ ہموار کرنے کے لئے عراقی سفارت خانہ سے اسلحہ برآمد کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ایران اورعراق کا جھگڑا چل رہا تھا۔صدام حسین اور احمد حسن البکر نے ایران کو سبق سکھانے کے لئے بغداد میں آزاد بلوچستان سیکریٹریٹ قائم کیا تھا اور وائس آف بلوچ ریڈیو اسٹیشن بھی کھولا تھا۔جواب میں شاہ ایران نے کردوں کے لیڈر ملا مصطفیٰ بزرانی کو اپنے ہاں پناہ دی تھی تاکہ کردوں کے ذریعے صدام حسین کو سبق دیا جاسکے۔
امام خمینی کے انقلاب کے بعد بلوچوں کے خلاف زیادہ کارروائیاں ہوئیں اس دوران جو آئین مرتب ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ صرف اہل تشیع کلیدی عہدوں کے حق دار ہوں گے۔اس آئین نے سنی بلوچوں،کردوں اور اہواز کے عربوں کوریاست سے الگ کر دیا۔اس کا مقصد ان اقوام کو آئینی طورپر اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔امام خمینی کے دور میں جند اللہ نامی تنظیم قائم ہوئی ایران کا الزام تھا کہ اس کی پشت پر پاکستان ہے اس کے سربراہ مالک ریکی کے طیارے کو یو اے ای واپسی پر ایران نے اپنے ہاں اتار لیا اور پھر کچھ عرصہ بعد اسے تختہ دار پر لٹکا دیا۔بعد ازاں جند اللہ کی جگہ جیش العدل نامی تنظیم قائم ہوئی۔حالیہ حملوں کے بعد ایران نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستانی بارڈر پر جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے حالیہ تنازعہ کے دوران پاکستانی حکام نے اعلان کیا کہ دو علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کے ٹریننگ کیمپ ایران میں قائم ہیں جنہیں نشانہ بنایاگیا ہے۔بہرحال پاکستانی حکام نے فضائی کارروائیوں کو”مرگ بر سرمچار“ کا نام دیا ہے۔اس محضرنامے کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں جو عام لوگ لفظ سرمچار سے ناواقف تھے انہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ ہے کیا؟سرمچار ان مسلح بلوچوں کا نام ہے جو پہاڑوں میں برسرپیکار ہیں۔پاکستانی دفتر خارجہ نے نادانی میں مسئلہ بلوچستان کو عالمی سطح پر متعارف کروا دیا ہے اور پہلی بار دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ مسئلہ بلوچستان کیا ہے اور”سرمچار“ کیا کر رہے ہیں۔لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران1970 کی دہائی کی شاہ ایران اور صدام حسین کی تاریخ ایک بار پھر دہرا رہے ہیں لیکن یہ 1970 نہیں ہے۔یہ 21ویں صدی ہے۔یہ ابلاغ اور اطلاعات کا دور ہے۔نہ کوئی چیز چھپ سکتی ہے اور نہ ہی کسی مسئلہ کو پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔کوئی بھی آواز سات سمندر پار تک پہنچ سکتی ہے اور اپنے اثرات قائم کرسکتی ہے۔