ڈاکٹر کھرلے کی انتخابی مہم اور الیکشن کا التوا
تحریر: انور ساجدی
لوگوں کو یاد ہوگا کہ1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے دوران لاہور کے لوگوں نے ایک دلچسپ کردار محمد سلیم کھرلے کو مشہور کرکٹر سرفراز نواز کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا۔پورے الیکشن میں سرفراز نواز کی مہم نظر نہیں آ رہی تھی لیکن کھرلے کے جلسے اورریلیاں صبح شام ہوتی تھیں۔کبھی بچے جوتوں کا ہار پہنا کر کھرلے کے ساتھ حلقے میں گشت کرتے تھے اور کبھی بزرگ گدھے پر سواری کر کے کھرلے کی مہم چلاتے تھے۔سرفراز نواز چونکہ آرائیں تھے اور اس وقت جنرل ضیاءالحق آل پاکستان انجمن آرائیں کے سرپرست تھے۔اس لئے جنرل صاحب اپنے ہم ذات کی مہم میں خاص دلچسپی لے رہے تھے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پولنگ کے اختتام پر پتہ چلا کہ سلیم کھرلا2ہزار ووٹوں سے سرفراز نواز کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔اس پر انجمن آرائیں میں صف ماتم بچھ گئی۔فوری طور پر ضیاءالحق سے رابطہ کیا گیا انہوں نے حکم دیا کہ سرفراز نواز کی کامیابی اور سلیم کھرلے کی شکست کا اعلان کیا جائے۔اس طرح ضیاءالحق نے ایک مشہور آرائیں کی ناک کٹنے سے بچالی۔
موجودہ انتخابات میں لاہور کے لوگوں نے ایک اور دلچسپ کردار چاہت فتح علی خان کو کھڑا کیا تھا لیکن کم بخت کے کاغذات نامزدگی غلط بھرے گئے جس کی وجہ سے مسترد ہوگئے ورنہ لاہور میں ایسی شاندار مہم چلتی کہ بی بی مریم نواز کو دن میں تارے نظر آجاتے۔بلوچستان میں عبدالکریم نوشیروانی کے بعد کوئی دلچسپ کردار انتخابی میدان میں نہیں آیا لیکن خدا بھلا کرے پنجگور کے لوگوں کا کہ انہوں نے ڈاکٹر نورنامی شخص کو کھڑے ہونے کا موقع دیا۔ الیکشن سے قبل ڈاکٹر صاحب نے ازخود اعلان کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ بن رہے ہیں۔انہوں نے آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور ترجمان ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ معلوم نہیں کہ حکمرانوں نے ڈاکٹر صاحب کا نام بطور وزیراعلیٰ کیوں مسترد کر دیا اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد زرداری نے انہیں پیپلزپارٹی کا ٹکٹ بھی جاری نہیں کیا۔اس لئے انہیں آزاد کھڑا ہونا پڑا۔الیکشن کمیشن نے زیادتی یہ کی کہ ڈاکٹر صاحب کو ”ککڑ“ کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا۔ڈاکٹر صاحب چونکہ ایم بی بی ایس کی سند رکھتے ہیں اس لئے شرارتی بچے انہیں ”ڈ اکٹر ککڑ“ کا نام دینے لگے ہیں۔ وہ پنجگور کی بستیوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں بعض اوقات وہ ایسے جلسے بھی کرتے ہیں جن میں وہ اپنے آپ سے خطاب کررہے ہوتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ان کی مقبولیت سے خائف ہیں اور سب نے مل کر ان کے خلاف اتحاد بنا لیا ہے۔کاش میرا ووٹ پنجگور میں ہوتا تو میں ڈاکٹر صاحب کی نذر کرتا ۔وہ بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔مقرر اچھے ہیں گفتگو بھی اچھی کرلیتے ہیں سلیم کھرلے کی نسبت پڑھے لکھے ہیں اب تک ہزاروں بچوں کا علاج کر چکے ہیں بس اپنا ذاتی علاج کرنے میں ناکام رہے۔پنجگور کے حلقے سے میرے سابق یارغار میر صابر بلوچ بھی کھڑے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں وہ بھٹو کے دور میں مکران کے حلقے سے ایک ضمنی انتخاب میں ایم پی اے بنے تھے جبکہ 1985 میں ان کے چھوٹے بھائی ناصر بلوچ بھی ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔صابر بلوچ کی کیا پوزیشن ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں ہو نہ ہو وہ ڈاکٹرنور کو ہروانے کےلئے امیدوار بنے ہیں اس حلقے میں چونکہ پیپلزپارٹی کو اچھے امیدوار دستیاب نہ تھے اس لئے زرداری نے بطور خاص صابر بلوچ سے درخواست کی کہ سیٹ خالی نہ جائے۔اس لئے وہ ہر حال میں امیدوار بنیں لیکن ڈاکٹر نور کا کہنا ہے کہ صابر بلوچ ایک سازش کے تحت طویل عرصہ کے بعد پنجگور آئے ہیں تاکہ ان کا الیکشن خراب کریں۔صابر بلوچ پیپلز پارٹی کے عرصہ سے وفادار ہیںبھٹو انہیں عزیز رکھتے تھے۔ زرداری نے گزشتہ دور میں انہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنایا تھا۔ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے بعد وہ دوبارہ سینیٹ میں جائیں لیکن فی زمانہ بلاول نے پرانے بڈھوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ہوسکتا ہے کہ صابر بلوچ بھی اس کی زد میں آ جائیں۔ اس وقت بھٹو دور کے جو پارٹی رہنما حیات ہیں ان میں چوہدری اعتزاز احسن اور صابر بلوچ سرفہرست ہیں۔یعنی وہ سینئر ترین پارٹی رہنما ہیں چوہدری صاحب1977 میں بھٹو کو چھوڑ کر تحریک استقلال میں چلے گئے تھے جبکہ صابر بلوچ مختصر دورانیے کے لئے جمہوری وطن پارٹی کی زینت بنے تھے۔صابر بلوچ کے بقول انہیں امان اللہ گچکی نے دھوکہ دیا تھا۔امان صاحب نے مشورہ دیاتھا کہ پہلے آپ جے ڈبلیو پی میں جائیں بعد میں ہم سب آئیں گے لیکن وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔البتہ بھٹو کے ایک اور ساتھی عبدالرحیم ظفر بھی جے ڈبلیو پی میں شامل ہوگئے تھے۔بڑا ہی اچھا ہوگا کہ بلوچستان میں انتخابات ملتوی نہ ہو جائیں تاکہ یہ پتہ تو چلے کہ صابر بلوچ اور ڈاکٹر نور کی مقبولیت کس قدر ہے۔
اب جبکہ پولنگ میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے بظاہر انتخابات کے ملتوی ہونے کا امکان نہیں لیکن الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ پختونخوا اور بلوچستان کے حالات الیکشن کے لئے سازگار نہیں ہیں،پشتونخواہ میں دو امیدواروں کے قتل اور بدامنی کے متعدد واقعات کے بعد حالات ناموافق ہوگئے ہیں جبکہ بلوچستان میں ایک ہی دن میں پیپلزپارٹی کے چارامیدواروں کو دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا کوئٹہ میں پارٹی کے سرگرم رہنما علی مدد جتک کے انتخابی دفتر اور پارٹی کے میڈیا سیل پر حملہ کیا گیا۔کوئٹہ سے امیدوار جمال رئیسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ دراصل ان پر کیا گیا تھا۔ بلیدہ میں پارٹی امیدوار ظہور بلیدی اور خضدار میں آغا شکیل کے گھروںپر دستی بم پھینکے گئے۔معلوم نہیں کہ یہ حملے سیاسی مخالفین نے کیے یا نامعلوم افراد نے ۔جو بھی ہے انتخابی صورتحال کو متاثر کیا گیا اس کے علاوہ بولان میں تین دن تک حالات خراب رہے۔ بلوچستان کو سندھ سے ملانے والی ہائی وے بند رہی۔ٹرین سروس معطل ہوئی جبکہ سندھ کا بلوچستان سے رابطہ منقطع رہا۔ان واقعات کو جواز بنا کر الیکشن کمیشن نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔اس کالم کی اشاعت تک یہ فیصلہ ہوچکا ہوگا کہ دو صوبوں میں انتخابات ملتوی کرنے ہیں یا خراب صورتحال کے باوجود منعقد کرنے ہیں۔پشتونخواہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے کہ عمران خان کو سنائی گئی طویل سزاﺅں کے بعد وہاں کے ووٹر مشتعل ہیں جس کی وجہ سے سرکاری جماعتوں کے لئے حالات انتہائی ناسازگار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب کافی دنوں سے اپنے صوبے میں نہیں گئے جبکہ ہزارہ ڈویژن کے سوا مسلم لیگ ن بھی انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔اسی طرح بلوچستان میں اس پارٹی کا انتخابی وجود برائے نام ہے۔اس لئے حکمران گھبرائے ہوئے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ دو صوبوں میں انتخابات کروا کر نوازشریف کو وزیراعظم بنایا جائے تو یہ فیصلہ کون تسلیم کرے گا۔اگر ایسا ہوا تو میاں صاحب جیسی قابل احترام ہستی تاریخ کے متنازعہ ترین وزیراعظم کہلائیں گے۔مخالفین کا یہ مشورہ ہے کہ انتخابات کے بجائے ایک حکم نامہ کے ذریعے نوازشریف کو وزیراعظم مقرر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
ویسے بلوچستان کے سرکاری لوگوں کو مل کر جان اچکزئی صاحب کی اس دعا میں شامل ہونا چاہیے کہ خدا کرے انتخابات ملتوی ہو جائیں اور وہ مزید کچھ عرصہ کرسی سے لطف اندوز ہوں۔جان اچکزئی جیسے دلیر شخص اس قوم کو کہاں سے ملیں گے جنہوں نے بولان کے حملوں کو اپنے دھواں دھار بیانات سے ناکام بنایا۔