کرلو جو کرنا ہے
تحریر: انور ساجدی
جھرلو2024 میں جو کچھ ہوا ہم جیسے عام لوگوں کو اس کی حقیقت کا علم نہیں ہے کیونکہ اسکرپٹ میں یہی لکھا تھا۔تحریک انصاف پر ایک طرح سے پابندی تھی اس کے امیدوار انتہائی نامساعد حالات میں الیکشن لڑ رہے تھے۔تمام آسانیاں کنگز پارٹی ن لیگ کے لئے تھیں لیکن اس کے باوجود یہ جماعت بری طرح ہار گئی۔ووٹوں کی گنتی کے دوران ہوش ربا حقائق سامنے آرہے تھے حالانکہ نوازشریف قبل از وقت لاہور میں پارٹی کے الیکشن کنٹرول روم میں ”وکٹری اسپیچ“ دینے پہنچ گئے تھے جیسے کہ2013 میں انہوں نے کیا تھا۔جب حقائق ان کے سامنے آ گئے تو وہ فتح کا اعلان کئے بغیر چلے گئے۔اس کے بعد ٹیلی فون کھڑکانا شروع ہوگئے۔صبح تک ن لیگ سارے پنڈی ڈویژن چکوال اور جہلم میں ہار گئی تھی اچانک ن لیگ کے امیدوار جیتنے لگے۔یہی صورتحال سیالکوٹ اور لاہور میں بھی تھی۔لاہور کے10حلقوں میں ن لیگ کی حالت پتلی تھی اور رات گئے ڈاکٹر یاسمین راشد کو 30 ہزار ووٹوں کی سبقت حاصل تھی جبکہ سلمان اکرم راجہ عون چوہدری کے مقابلے میں ہزاروں ووٹوں سے جیت رہے تھے۔پشتونخواہ صوبہ میں پی ٹی آئی نے کلین سوئپ کیا تھا جبکہ کراچی میں بھی اسے ایم کیو ایم پر واضح برتری حاصل تھی۔اس لئے کراچی شہر اور لاہور کے نتائج روکے گئے۔اس طرح پولنگ کے 24گھنٹے کے بعد صورتحال بدلی گئی۔
یعنی حکام بالا نے کوشش بسیار کے بعد ن لیگ کی ناک بچالی ورنہ اس جماعت کو اس سے بڑی شکست کبھی نہیں ہوئی تھی۔یہ تو ایک اجمالی جائزہ تھا۔اصل کھیل تو نتائج مکمل ہونے کے بعد شروع ہوگا۔ عوامی فیصلہ کے بعد حکمران کیا نقشہ بنائیں گے اور کس طرح کی مخلوط حکومت بنائیں گے یہ اس کھیل کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کو تو حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی البتہ پختونخواہ میں حکمرانوں کے لئے مسئلہ ہوگا کہ وہاں اور کوئی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی مخلوط حکومت تشکیل دے سکے۔
مرکز میں جو بھی حکومت بنی وہ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ہوگی۔تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کس حد تک ٹھہرے رہیں گے اور کتنے بک جائیں گے یہ جلد واضح ہو جائے گا۔فیصل واوڈا نے الیکشن کی رات ہی کہا تھا کہ آزادوں کی بولی لگے گی۔اس مقصد کے لئے جو ونٹر سیل لگے گا اس کے خریدار اسلام آبادپہنچ چکے ہیں۔اسی روز خبر آئی تھی کہ جناب آصف علی زرداری اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔
معلوم نہیں کہ واوڈا کا اشارہ کس کی طرف تھا۔دیگر مبصرین کی رائے ہے کہ آزادوں کے ذریعے کنٹرول ”اوپر“ کا ہوگا یعنی صورتحال 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے بھی بری ہے۔اس وقت تو سارے آزاد جنرل ضیاءالحق کے کنٹرول میں تھے لیکن اس وقت عجیب منظر ہے تحریک انصاف تمام تر کوششوں کے باوجود سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی ہے۔دوسرا نمبر ن لیگ کا ہے لہٰذا حاکمان وقت ن لیگ کو موقع دیں گے کہ حکومت سازی کی کوشش کرے۔اگر ن لیگ کو80 نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں تو اسے حکومت سازی کے لئے53 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔اگر چھوٹی جماعتوں کے سارے اراکین ملائے جائیں تو بھی ن لیگ کو40 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔اگر بھیڑوں کا یہ ریوڑ اکٹھا ہوگیا تو بھی چوں چوں کی مربہ حکومت کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ن لیگ کے لئے بہتر ہوگا کہ آصف علی زرداری کو اپنے ساتھ ملائیں تو نسبتاً ایک مستحکم یا ڈھنگ کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔انتخابات کے بارے میں ایک اجماع ہے کہ جس طرح 2018ءمیں آر ڈی ایس سسٹم بٹھا کر تحریک انصاف کی اکثریت بنائی گئی تھی اسی طرح 2024ءکے انتخابات میںESM کو بٹھا دیا گیا۔چونکہ یہ سسٹم انٹرنیٹ پر چلنا تھا اور اسے بند کر دیا گیاتھا تو اس سسٹم نے خاک چلنا تھا۔سو ان انتخابات پر ہزار سوال اٹھیں گے۔ظاہر ہے کہ تحریک انصاف تو نتائج تسلیم نہیں کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی رزلٹ نظریہ ضرورت کے تحت تسلیم کر کے اعتراضات اٹھائے گی اس لحاظ سے 1997کے انتخابات کے بعد الیکشن2024 سب سے متنازعہ کہلائیں گے۔پیپلز پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ لاہور کے نتائج نصف شب کے بعد تبدیل کروائے گئے ہیں۔شیری رحمان نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ لاہور کے حلقہ127سے پارٹی چیئرمین کو زبردستی ہروایا گیا ہے۔حیرانی کی بات ہے کی اس وقت ریاست کو شدید مسائل کا سامنا ہے جن میں ڈوبتی اکانومی، دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام قابل ذکر ہیں۔ انتخابات کے ذریعے ایک موقع ملا تھا کہ ایک مستحکم حکومت قائم کی جائے اور ان مسائل پر قابو پایا جائے لیکن یہ موقع ضائع کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں ایک اور ہائبرڈ رجیم مسلط کی جا رہی ہے حکومت سازی کس طرح ہوگی یہ ضرور بڑوں کے ذہن میں ہوگا لیکن مصنوعی انتظامات کے ذریعے جو سیاسی ، آئینی اور معاشی بحران ہے وہ مزید گہرا ہوتا جائے گا۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو 90فیصد وہی نتائج آئے ہیں جس کی توقع تھی۔ایک بڑے علاقے میں بہت کم ووٹ پڑے۔یہی وجہ ہے کہ جیتنے والے بہت کم مارجن سے جیتے۔اس بدقسمت صوبہ میں کبھی مقتدرہ کو کوئی دقت پیش نہیں آئی۔سو یہاں پر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ حسب سابق ایک حکومت قائم کی جائے گی جو بھی جیتے ہیں ان پر مشتمل کل جماعتی حکومت کی تشکیل کا امکان ہے۔یعنی انتخابات سے اس صوبے کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ساحلی علاقہ گوادر سے مولانا ہدایت الرحمن کی جیت ایک بڑا اپ سیٹ ہے۔غالباً مولانا کی صورت میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں پہلی کامیابی ملی ہے اور مولانا اس حساس اور اہم ترین علاقہ میں ”سالار ساحل“ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں گے یعنی ساحل کی نگہبانی اپنے بندے کے حوالے کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں انتخابی نتائج پر زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔بہرحال جو لوگ جیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کامیابی پر مبارک دیں کیونکہ عوام کا ان انتخابات سے تعلق نہیں ہے۔وہ جانتے ہیں کہ ان کی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ صوبے کے عوام جانتے ہیں کہ ان کے صوبے میں خون کا دریا بہتا رہے گا اور جو انسانی المیہ موجود ہے وہ نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔